اردو میں ولیم شیکسپیئر کا مغربی تجربہ
آخرکار معجزاتی طور پر ملکہ اس کو واپس مل جاتی ہے ، وہ بچی جس کو بادشاہ نے پھینکوا دیا تھا۔۔۔
گزشتہ دنوںنیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس،کراچی کے آڈیٹوریم میں، ولیم شیکسپیئر کاکھیل ''فسانہ عجائب''کے نام سے پیش کیا گیا ۔یہ نام سن کر ذہن میں اردو داستان نگار''مرزا رجب علی بیگ سرور''کا نام آتا ہے، مگر اس کھیل کا، ان کی داستان سے نام کی مماثلت کے سواکوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ ناٹک شیکسپیئر کے کھیل''دی ونٹرز ٹیل۔ The Winter's Tale''کا اردو ترجمہ ہے ، جس کے ایک مترجم''ارشد رازی'' بھی ہیں ۔ پہلے اسی ترجمے کو لے کرکھیل کرنے کا سوچا گیا ، لیکن ہدایت کاراوراداکاروں کا کہنا تھا '' چونکہ اس اسکرپٹ میں بہت ساری غلطیاں تھیں، جس کی وجہ سے ہمیں اس کو درست کرنا پڑا اور اس قدر ترامیم ہوئیں کہ مسودے کی شکل ہی بدل گئی ۔''
اس کھیل میں ہر اداکار نے اپنے مکالموں کو خود درست کیا ، جس کی وجہ سے اب اس کے مترجم وہ تمام اداکار ہیں ، جنہوں نے اس میں اداکاری کی ۔ اسی لیے کھیل کے تعارفی کتابچے پر کسی مترجم کا نام موجود نہیں ہے، لیکن کھیل کو شیکسپیئر کا ترجمہ لکھا گیا ہے ، جب کہ تکنیکی طور پر یہ اخذ شدہ کھیل ہے، کیونکہ مکمل طور پر ترجمہ نہیں ہے ، متن میں بہت ساری حسب منشا تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔کئی موقر انگریزی اخبارات نے بھی اس کو ''اخذشدہ۔ Adaptation '' کھیل ہی لکھا ہے۔ اس ڈرامے کے ہدایت کار برطانیہ سے آئے کلاسیکی ڈراموں کے ماہر''گریگری ٹامسن'' تھے، جب کہ پروڈکشن ڈیزائن کاکام ایک برطانوی ڈیزائنر''لوئی وہائٹ مور'' نے انجام دیا ۔ یہ ناٹک '' برٹش کونسل،کراچی ''اور''نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس ریپٹری تھیٹر'' کے اشتراک سے پیش کیاگیا ۔
اس کھیل پر مزید بات کرنے سے پہلے کچھ نکات بیان کرنا ضروری ہیں ۔ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس نے گزشتہ برسوں میں شیکسپیئر کے کئی کھیل پیش کیے، جن میں ''بیچ بہار کا سپنا''اور''اوتھیلو''شامل ہیں ، جن کو دیکھنے کے بعد ہمیں اس ادارے پر فخر ہوتا ہے اوراردو زبان پر بھی ، جس میں دنیا کی کسی بھی زبان میں لکھا ہواکھیل شاندار اور شاہانہ انداز میں سمویا جا سکتا ہے۔
شان الحق حقی کا شیکسپیئر کے کھیل''انتھونی اور قلوپطرہ''کا منظوم ترجمہ اس بات کا ایک تخلیقی ثبوت ہے، جسے انجمن ترقی اردوکراچی نے شایع کیا۔ کراچی سے ہی سید علاؤالدین کے تراجم'' شیکسپیئر کہانیاں''کے عنوان سے بک ٹائم شایع کرچکا ہے ، جس میںشیکسپیئر کی 15کہانیاں شامل ہیں اورکئی ایک کا ترجمہ تو پہلی مرتبہ کیا گیا ۔ ان کے علاوہ لاہور سے فراق گورکھپوری کے ترجمہ کردہ شیکسپیئر کے کھیلوں کا مجموعہ اظہار سنز نے شایع کیا اوردیگر کئی ناشران بھی اس طرح کے کئی تراجم علیحدہ حیثیت میں چھاپ چکے ہیں ۔اب یہ الگ بات ہے ''فسانہ عجائب'' کا ناقص ترجمہ دستیاب ہونے کے بعد بھی ''گریگری ٹامسن''اسی کو پیش کرنے پر مصر رہے ۔
ہدایت کار نے اس ڈرامے کا انتخاب کیوں کیا ، اس کے لیے بتایا گیا کہ انھوں نے پاکستان آنے سے پہلے ایک خبر پڑھی ،جس میں ایک عورت کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا،اتفاق سے انھی دنوں برٹش کونسل نے ان سے رابطہ کر کے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں ان کے لیے کوئی ڈراما کریں ،اس لیے ''گریگری ٹامسن'' نے شیکسپیئر کے اس کھیل کو چنا ، کیونکہ ان کے خیال میں ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ بڑھتا جا رہا ہے ، اس لیے ہمیں ایسے کھیلوں کی ضرورت ہے، جس میں امن ، درگزر ، معافی اور نیکی کا درس دیا جائے ۔
اس کھیل کاخلاصہ یہ ہے کہ سسلی کا بادشاہ اپنی بیوی پر الزام لگاتا ہے کہ اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے ، وہ اس کے دوست شاہِ بوہیما کا ہے۔ ایک طویل عرصے تک ملکہ پس زنداں رہتی ہے، اس کا اکلوتا بیٹا جان اس غم میں جان ہار دیتا ہے ۔ بادشاہ اپنے وفاداروں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پھر جب اس کو گناہ کا احساس ہوتا ہے ، تو وہ شدید احساس جرم اورکربناک اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔
آخرکار معجزاتی طور پر ملکہ اس کو واپس مل جاتی ہے ، وہ بچی جس کو بادشاہ نے پھینکوا دیا تھا ، وہ بھی کسی طرح آجاتی ہے ، اس طرح المیہ کھیل کا مسرتوں بھرا انجام ہوتا ہے ۔ ناپا کے تعارفی کتابچے میں اس کہانی کو پاکستانی معاشرے سے جوڑتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ''عصر حاضر کے پاکستان کے لوگوں کی زندگی میں یہی چیز مماثلت رکھتی ہے ۔ غیرت کے نام پر قتل اور پھر کسی معجزے کی امید ۔'' اس کھیل کے دو حصے ہیں ، پہلے میں سترہویں صدی کے مغل ہندوستان کودکھایاگیا ہے، جب کہ دوسرے میں آج کا کراچی دکھائی دیتا ہے ۔''
''فسانہ عجائب''چار روز تک پیش کیا گیا ، جسے دیکھنے کے لیے حاضرین کی بڑی تعداد نے رخ کیا ۔ شیکسپیئر کے سوا اس کھیل میں سب کچھ تھا۔اس کھیل کے تعارفی کتابچے پر یہ بھی درج ہے'' یہ کھیل ترجمہ ہے ۔'' ترجمے کا مطلب ہوتا ہے کہ متن کو ہو بہو تبدیل کیے بنا ایک سے دوسری زبان میں ڈھالنا ، مگر ہدایت کار نے جو بھی تجربے کیے، اس نے شیکسپیئر کے متن کو نہ صرف سرے سے بدل ڈالا بلکہ پاکستان کی موجودہ سیاسی سرگرمیوں کو بھی حصہ بنا ڈالا ۔ اس کھیل میں طاہرشاہ کے گانے ''آئی ٹوآئی '' پر کردار ناچ رہے تھے۔ عمران خان کی پیروڈی کی جا رہی تھی ۔ بقول اداکاروں کے '' ہم نے ہدایت کار کے کہنے کے مطابق سب کچھ کیا ، مگر اس میں ہماری کوئی مرضی شامل نہیں تھی ۔''
ہدایت کار نے پھر یہ بھی کیا کہ کھیل کے دوسرے حصے میں حاضرین کو اسٹیج پر بٹھا دیا ، ڈرامے کے کردار تماشائیوں کی جگہوں پر کھڑے ہوکر مکالمے اداکرنے لگے اوران کے درمیان ہی گھومنے پھر نے لگے ۔اس پورے کھیل میں ناپا صرف چند جگہوں پر دکھائی دیا جیسے، ڈرامے کے پہلے حصے میں جو ترجمہ کیا گیا،اس کے متن ، جملہ سازی اور اداکاری میں ۔ ان اداکاروں کو دنیا کے کسی بھی اسٹیج پر کھڑا کردیا جائے،یہ آپ کو شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔ میثم نظر نقوی، فوادخان ، سنیل شنکر ، ایمن طارق ، عدنان جعفر، بختاورمظہر ، اکبرالاسلام ۔شاہ جہاں نوریجو، رؤف آفریدی ، کاشف حسین اور مدیحہ زیدی نے اپنی اداکاری سے حاضرین کے دل جیت لیے ۔ بالخصوص فواد ، بختاور ، ایمن اور آفریدی کی اداکاری لاجواب تھی ۔
مجھے ہدایت کار کے خلوص پر شبہ نہیں لیکن ہم ابھی تک کلاسیکیت میں تجربات کے قائل نہیں ہیں اور اگر ہیں تو اس کی اجازت اسی کو ہے جس کو دونوں زبانوں پر مکمل عبور ہو۔ البتہ ڈرامے کی کامیابی میں ان اداکاروں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، جنہوں نے تقریباً اس تین گھنٹے کے کھیل کی ریہرسل کے لیے کئی مہینے لگاتار محنت کی ۔یہ نوجوان ہمارا فخر ہیں اور اداکاری کا مستقبل بھی ۔ یہ ناپا کا اعزاز ہے کہ انھوںنے فنی اقدار سے آشنا ایک پوری نسل ہمیں دے دی ۔
پاکستانی اداکاروں کے لیے بہرحال ایسا موقع غنیمت ہوتا ہے، جس میں تھیٹر کے حوالے سے کسی غیر ملکی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے ۔اس لیے ان اداکاروں کو ایک یہ کام کر کے جو مسرت حاصل ہوئی،وہ فطری تھی ۔ فواد خان کا کہنا تھا۔''ہمیں ناقص ترجمہ ملا تھا،چار پانچ ہفتے لگا کر صرف اس کو درست کرنے میں لگے۔یہ ڈراما ترجمہ کرکے پیش کیا گیا۔مقامات اورکرداروں کے نام اور فعل وغیرہ کو ویسا ہی رکھا گیا،البتہ کہیں عصری صورت حال کی عکاسی کی گئی۔
ہم نے وہ کام کیا،جو ہمارا ہدایت کارچاہتا تھا، ہم نے یہ بھی بتایا اس کو کہ یہاں کچھ باتیں ایسی ہیں ،جو اخلاق کے دائرے سے باہر ہوسکتی ہیں ،اس نے کہا کہ شیکسپیئر اپنے کھیل میں اس جگہ ایسی ہی بات کرتا ہے،اس لیے گنجائش ہے۔ہم نے شیکسپیئر کے خیالات کو ہی سامنے رکھتے ہوئے جملے تخلیق کیے تا کہ ہمارے عوام خود کو اس سے جوڑ سکیں۔ہم سب نے دو مہینے کی ریہرسل کی۔''
اکبرالاسلام کے خیال میں''ہمارے ہدایت کار نے یہ سکھایا کہ سب سے پہلے کہانی کو سمجھنے کے لیے بار بار پڑھو، جب کہانی سمجھ آجائے تو اس کودھراؤ، پھر یہ دیکھو، آپ اس میں کہاں کھڑے ہو اورآپ کیا چاہتے ہو، جب یہ سمجھ لیا تو یہ جانو کہ کہانی کے دوسرے کردار آپ سے کیا چاہتے ہیں۔'' ایمن طارق نے کہا۔''میں کردار نبھاتے ہوئے اس کے ساتھ ہی بہت دور تک چلی جاتی ، اس کھیل میں کام کرنا ایک چیلنج اس لحاظ سے تھا، مجھے بیک وقت طربیہ اورالمیہ کردار نبھانے کی وجہ سے اپنی کیفیات کو منتقل کرنا پڑا،جوکٹھن تھا۔''بختاور کی جاندار اداکاری نے حاضرین کو داد دینے پر مجبور کیے رکھا،ان کے بقول ''مجھے تھیٹر ہمیشہ سے پسند ہے ۔
میثم نظر نقوی نے کہا۔''میراکردار شیکسپیئر کے وفادار کرداروں میں سے ایک تھا،جس کی سوچ مثبت ہوتی ہے،یہ کھیل معاف کردینے کا سبق دیتا ہے۔''ان کے علاوہ سنیل شنکر، رؤف آفریدی،مدیحہ زیدی اوردیگر کے بھی بڑے مثبت تاثرات تھے ۔عہد حاضر میں اردو زبان میں بہت سے شاندار تراجم ہو رہے ہیں، نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کو ان سے استفادہ کرنا چاہیے ۔ بین الاقوامی معیار کے ماہرین کے ساتھ تھیٹر میں تجربات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،مگر اپنی شرائط پر ۔