امداد باہمی کا آزاد معاشرہ

مفادات میں شاذ ونادر تصادم ہو گا اور نااتفاقی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہونگے۔۔۔۔

zb0322-2284142@gmail.com

یہ ایک ایسا معاشرہ ہوگا جو پیداواری کارکنوں کو سرمایہ داری کے جوئے سے آزاد کرائے گا، جسے کروپوتکن نے اس طرح بیان کیا ہے کہ ''ہر چیز ہر ایک کی ملکیت ہے اور اگر ہر مرد اور عورت اشیائے ضرورت کی پیداوار میں اپنا حصہ دینے کے لیے تیار ہے تو اسے یہ بھی حق حاصل ہو گا کہ وہ ہر پیدا ہونے والی چیز میں اپنا حصہ لے جو کسی نے بھی پیدا کی ہو۔

اسی طرح پروفیسر نوم چومسکی کہتا ہے کہ ''اگر اس دھرتی پر پیدا ہونے والی چیزیں سب مل کر پیدا کرتے ہیں تو پھر اس کے مالک بھی وہی ہیں۔'' جب کہ سرمایہ دارانہ نظام کی حکومتوں کا آج تک سب سے اہم وظیفہ یہ رہا ہے کہ ہر ایک کا حصہ نامنصفانہ رہے۔ فرد واحد کی یا مٹھی بھر لوگوں کی حکمرانی، ہر ایک کے لیے مساوی اختیارات کے تصور سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ دنیاوی چیزیں انھیں کو زیادہ ملیں جن کے پاس اختیارات ہوں۔ امداد باہمی کے سماج کو کروپوتکن نے یوں بیان کیا ہے کہ 'ایک ایسا اصول یا زندگی کا نظریہ اور شعار جس کے تحت بلا کسی حکومت سماج کا وجود مانا جاتا ہے۔''

چونکہ ریاست کسی ایک پیش آنے والے مسئلے پر عوام کی رائے نہیں حاصل کر سکتی، اس لیے لازما اگر اسے کھلے جبر کے الزام سے بچنا ہے تو اسے نمایندہ حکومت کے ذریعے کاروبار چلانا پڑے گا۔ ہر شعبے کے معاملات چلانے کے لیے وہی لوگ مفید اور کارآمد ہوتے ہیں جو متعلقہ شعبوں میں خود کارکن رہے ہوں۔ نمایندہ حکومت اس لیے ایسے افراد کی حکومت ہوتی ہے جن کی تمام معاملات میں علم کی پونجی بس اتنی سی ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ ہر کام محض بری طرح انجام دے سکتے ہیں۔

اختیارات دوسرے افراد پر استعمال ناگزیر طور پر بہترین طبیعتوں کو بھی بدعنوان بنا دیتا ہے۔ یہ ان کو خودغرض، متکبر، جابر، اپنے مفاد کے متوالے اور دوسرے کے مفادات سے غافل بنا دیتا ہے۔ اختیارات کے استعمال کی بنیادی شرط افراد ہیں جس پر اختیار کا استعمال کیا جاسکے۔ چونکہ حکومتوں کی سرشت میں قوت کا استعمال ہوتا ہے، جو فطری دوستوں کو جدا کر کے حریف قوتوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ ڈکنسن کا کہنا ہے کہ 'حکومت کے معنی ہیں جبر، بے گانگی، گمراہی اور علیحدگی جب کہ آزاد معاشرے یا اشتمالیت کا مطلب ہے آزادی، اتحاد اور محبت۔ ہم لوگوں کو ریاستوں اور قوموں میں تقسیم کرتے ہیں، پھر ہم اسلحہ بندی کا جبر جھیلتے ہیں۔


ٹیڈگرانٹ نے 1959 میں کہا تھا کہ سرمایہ دار ریاستیں منڈیوں پر قبضے کے لیے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگیں گے۔ چونکہ ہم خود کو ایک فرد کی حیثیت سے تنہا کر لیتے ہیں، اس لیے ہم قوانین کا تحفظ چاہتے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ریاست نہ ہو گی تو تعلیم کیسے حاصل کریں گے؟ اگر کارکنوں کی اکثریت کو مناسب فراغت میسر ہو کہ وہ خود ایک دوسرے کو تعلیم دینے لگیں تو ان میں سے وہ جن میں تعلیم دینے کا شوق ہو گا، دوسروں کو تعلیم دینے کے لیے بے چین رہیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ غیرملکی جارحیت سے بچاؤ کے لیے ریاست ضروری ہے۔ کروپوتکن کا کہنا ہے کہ لام بند فوجیں ہمیشہ دھاوا بولنے والی فوجوں سے شکست کھاتی ہیں۔

جیسا کہ انقلاب فرانس، پیرس کمیون، انقلاب اسپین، انقلاب روس، انقلاب چین وغیرہ وغیرہ۔ ریاست کا ریکارڈ افراد کو تحفظ کی ضمانت دینے کے معاملے میں بھی کوئی اچھا نہیں۔ ابھی تک شہریوں کو بدقماش لوگوں سے بچانے میں ناکام رہی ہے بلکہ بدقماشوں کو ریاست جنم دیتی ہے۔ یہ افلاس کے ذریعے لوگوں کو جرائم کی طرف ہانکتی ہے۔ پھر ان لوگوں کو بندی خانوں میں ڈال کر سزا دیتی ہے۔ اس طرح ان لوگوں پر جرائم پیشہ ہونے کا ایسا ٹھپہ لگا دیتی ہے جس سے ان کے لیے مستقبل میں دیانت داری سے حصول روزگار ناممکن ہو جاتا ہے۔ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب ریاست ختم ہو جائے گی تو امن و امان کیسے قائم ہو گا، عوامی کاروبار کیسے چلے گا؟ رضاکار تنظیموں کے ذریعے جو فی الفور قائم ہونگی اور خصوصی مقاصد کی تکمیل میں مدد کریں گی۔ ہر تجارت اور کاروبار کو ایسی سوسائٹی چلائے گی جو رضاکارانہ بنیاد پر قائم ہو گی۔

یہ ادارہ اپنے عملے کا خود انتخاب کرے گا اور خود ہی معزول کرے گا۔ پالیسی خود مرتب کرے گا اور دوسرے اداروں سے تعاون کرے گا۔ یہ ایک پیچیدہ تانا بانا ہوگا جہاں نظم وضبط ہو گا مگر جبر عنقا۔ ان خطوط پہ ایک اشتمالی نظام یا محنت کشوں کا پنچایتی نظام قائم ہو گا۔ آزاد اور خودکار انجمنیں جو یہ سماج بنائیں گی، ان کے اثرات سے سمت اور حدود کی تبدیلی آتی رہے گی۔ یوں ان میں پائے جا نے والے توازن کو بار بار ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پڑے گی لیکن جہاں کوئی خوشہ چین انجمنیں یا مراعات یافتہ طبقہ ہو گا، مزید براں جہاں کوئی ریاست نہ ہو گی جو سماج کے ایک طبقے کی حفاظت دوسرے کو نقصان پہنچا کر کرے، جہاں ایسا توازن حاصل کرنا کہیں آسان ہو گا بہ نسبت موجودہ حالت کے مقابلے میں۔ رضاکارانہ انجمنیں موجود ہونگی تاکہ ہر وہ مقصد حاصل کیا جائے جو لوگوں میں مشترک ہو۔ ان میں سے کچھ پیشوں کی بنیاد پر اور کچھ خطوں کی بنیاد پر ہوں گی۔ باہمی طور پر وہ تمام فرائض ادا کرینگی جن پر آجکل ریاست کا اجارہ ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے اور سب سے آگے عدم مرکزیت کا قیام ہے۔ یہ سماج کا ڈھانچہ چھوٹی سے چھوٹی انجمن پر کھڑا ہو گا، چاہے وہ کسی گاؤں کی ہو یا کسی کارخانے کی، اس کے بعد بقیہ سماجی تانا اسی بنیادی عمارت اور اکائی سے ترتیب پائیگا۔ لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ پھر وہ کون ہوگا جو ان کے مفادات میں کمی بیشی کو پورا کریگا، بکھرنے سے بچائیگا اور متفرق گروہوں میں خیرسگالی رکھے گا؟ جب لوگ مناسب تعلیم یافتہ ہونگے اور جب غریب اور امیر کی نابرابری نہ ہو گی جو عدم اطمینان پیدا کرتی ہے اور اجارہ داریوں کے لیے ریاستی حفاظت نہ ہو گی جو جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔

مفادات میں شاذ ونادر تصادم ہو گا اور نااتفاقی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہونگے۔ لوگوں کی پہل کرنے کی صلاحیت کے سوتے حکومت کی دادی اماں والی عادت کی عدم موجودگی سے نہ سوکھیں گے اور جو مفادات حکومتی مداخلت کی وجہ سے ناکام ہونگے وہ آزاد پروان چڑھیں گے۔ آزاد اور پوری ترقی سے ملنساری کے لطیف جذبات ان حدود کو چھوئیں گے، جنھیں ابھی تک کسی نے خواب میں بھی نہیں دیکھا۔ یہ مسابقت ہے جو دشمنی کو جنم دیتی ہے۔ مسابقت کو اڑا دیں پھر دیکھیں انسان کی دوستانہ فطرت کس طرح پروان چڑھتی ہے اور گہری ہوتی ہے۔
Load Next Story