ڈیتھ ویلی کے متحرک پتھر معمّا نہیں رہے

پُراسرار قدرتی مظہر کا سبب ہوا اور برف کا ’ گٹھ جوڑ‘ ہے

پُراسرار قدرتی مظہر کا سبب ہوا اور برف کا ’ گٹھ جوڑ‘ ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور:
ڈیتھ ویلی امریکی ریاست کیلی فورنیا کی حدود میں واقع ایک صحرائی وادی ہے۔

یہ وادی شمالی افریقا کے خشک اور گرم ترین صحرائے موجاؤ کا حصہ ہے۔ ڈیتھ ویلی کی وجۂ شہرت اس کے متحرک پتھر ہیں، جو عشروں سے محققین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ ڈیتھ وادی کی ہموار زمین پر جا بہ جا لکیریں دیکھی جاسکتی ہیں جن کا ایک سرا پتھر پر آکر ختم ہوتا ہے۔ یہ لکیریں دراصل پتھروں کی حرکت یا ان کے گھسٹنے سے وجود میں آتی ہیں۔ سائنس داں اور ماہرین اب تک حیران تھے کہ یہ پتھر حرکت کیسے کرتے ہیں۔ تاہم اب انھوں نے ان متحرک پتھروں کا راز جان لینے کا دعویٰ کیا ہے۔

سائنس داں ڈیتھ ویلی کے متحرک پتھروں کی جانب بیسویں صدی کے اوائل میں متوجہ ہوئے تھے۔ اس حیرت انگیز قدتی مظہر کی حقیقت جاننے کے لیے سیکڑوں تجربات اور تحقیقی مطالعے کیے گئے۔ سائنس دانوں نے پتھروں کے ' مٹرگشت' کرنے کے بارے میں مختلف مفروضے بھی قائم کیے مگر وہ اس کا حقیقی سبب جاننے میں ناکام رہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ڈیتھ ویلی میں کنکروں سے لے کر سیکڑوں ہزاروں ٹن وزنی چٹانیں بھی حرکت کرتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ پتھر اور چٹانیں ہمہ وقت متحرک رہتی ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق ہر تین یا چار سال کے بعد یہ پتھر اور چٹانیں اپنی جگہ سے سرک کر کچھ فاصلہ طے کرتی ہیں۔ ان کی ' پیش قدمی' کا اندازہ ان کی حرکت سے وجود میں آنے والی لکیروں یا راستوں، یا پہلے سے موجود لکیروں کی طوالت میں اضافے سے ہوتا ہے۔

سائنس دانوں کو چکرائے رکھنے والے متحرک پتھروں کی حرکت کا سبب جان لینے کا دعویٰ ایک صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد اب سامنے آیا ہے۔ سائنسی جریدے '' پلوس وَن '' میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق پتھروں اور چٹانوں کی حرکت کا سبب برف ہے! وادیٔ موت کا شمار کرۂ ارض کے گرم ترین مقامات میں ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں پانی اور برف کی موجودگی حیرت انگیز بات ہے!

یہ تحقیق کیلی فورنیا یونی ورسٹی کے ' اسکرپس انسٹیٹیوٹ آف اوشینوگرافی ' سے وابستہ رکازی حیاتیات ( paleobiology ) کے ماہر رچرڈ نورس، اس کے کزن اور انجنیئر جیمز نورس اور ماہر فلکیات رالف لورینز پر مشتمل ٹیم نے کی ہے۔ تحقیق کے لیے رچرڈ نورس اور اس کے کزن نے 2011ء میں نیشنل پارک سروس کی اتنظامیہ سے اجازت لینے کے بعد ڈیتھ ویلی کا رُخ کیا اور وہاں مختلف جسامتوں کے 15 پتھر چھوڑ آئے جن پر انتہائی حساس جی پی ایس سینسرز لگے ہوئے تھے۔




یہ سینسرز خفیف سی حرکت کو بھی محسوس کرسکتے تھے۔ انھوں نے وہاں ہوا کی سمت اور اس کی رفتار ریکارڈ کرنے والا آلہ بھی نصب کیا۔ دو برس تک کچھ بھی نہیں ہوا۔ اسی دوران ان کی ملاقات لورینز سے ہوئی جو ان پتھروں پر 2006ء سے تحقیق کررہا تھا۔ رچرڈ اور جیمرز نے لوریز کو بھی اپنی تحقیق میں شامل کرلیا۔

دسمبر 2013ء میں دونوں سائنس داں وادی میں پہنچے اور پتھروں کو متحرک دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جیمز نورس نے متحرک پتھروں کی تصاویر بنائیں۔ ان تصاویر کو بعد میں اس نے ایک فلم کی شکل دے دی تھی۔ رچرڈ اور جیمز نے دیکھا کہ ہر جانب پتھر اور چٹانیں متحرک تھیں۔ ان کی حرکت کا دورانیہ مختلف تھا۔ کچھ پتھروں نے چند سیکنڈ تک حرکت کی جب کہ کچھ پتھر کئی منٹ تک حرکت میں رہے۔ حرکت کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ سولہ منٹ تھا۔ ایک بڑی چٹان کو انھوں نے ایک ہی جھٹکے میں 200 فٹ تک آگے بڑھتے ہوئے مشاہدہ کیا۔ تاہم کوئی بہت وسیع چٹان ان کی نظروں کے سامنے متحرک نہیں ہوئی۔

رچرڈ اور ان کے ہمکاروں نے اپنے نصب کردہ آلات کی مدد سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا کہ پتھروں اور چٹانوں کے متحرک ہونے کا سبب وادی کی زمین پر جمنے والی برف تھی۔ تحقیق کے مطابق یہ عمل دو مراحل میں مکمل ہوتا ہے: پہلے مرحلے میں وادی کی ہموار ریتیلی زمین پر پانی کی اتنی مقدار ہونی چاہیے کہ وہ دسمبر کے سخت سرد موسم میں برف بن جائے مگر برف کی یہ پرت اتنی مہین ہو کہ پتھر اس میں دب نہ جائیں۔

واضح رہے کہ ڈیتھ ویلی میں دسمبر سے فروری کے دوران طوفان آتے رہتے ہیں اور کسی قدر بارش بھی ہوتی ہے۔ بارش کے بعد وادی ایک وسیع و عریض مگر اُتھلے تالاب کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں یہ ' تالاب ' منجمد ہوجا تا ہے لیکن برف کی تہہ پتلی ہوتی ہے۔

درجۂ حرارت بڑھنے پر برف کی چادر ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ یہ ٹکڑے باریک پرتوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ انتہائی تیز رفتاری سے چلتی ہوئی ہوا برف کی پرتوں کو دھکیلتی ہے، نتیجتاً یہ پرتیں اپنے سامنے موجود پتھروں پر دباؤ ڈالتی ہیں اور انھیں حرکت کرنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ پتھروں کی حرکت کی وجہ سے کیچڑ میں نشانات یا لکیریں بن جاتی ہیں۔

ماضی میں بھی پانی اور ہوا کو متحرک پتھروں کا راز بتایا جاتا رہا ہے مگر اُس وقت یہ محض مفروضہ تھا۔ یہ پہلا موقع ہے جب اس بات کی باقاعدہ طور پر تصدیق ہوئی ہے۔
Load Next Story