بات کچھ اِدھر اُدھر کی خان صاحب گاندھی والا فارمولا اپنائیں
عمران خان نے ابھی تک آخری حربہ آزمایا ہی نہیں مگر پھر بھی پریشر اتنا بنا ہے کہ میاں صاحبان کے اوسان خطا ہیں۔
BERLIN:
عمران خان کے متعلق مایہ ناز تجزیہ نگاروں کے تجزیے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ عمران خان نے اپنے سارے حربے بلکہ آخری حربہ بھی آزما لیا ہے اورا ب اُن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں رہا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ آخری حربہ آزمانے کے باوجود بھی حکومت پر اتنا پریشر تھا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا پڑا۔ نہ صرف مشترکہ اجلاس بلانا پڑا بلکہ اُس شخص کودعوت بھی دینی پڑی جس کو چوک پر لٹکانے کی باتیں ہوتی تھیں۔
ویسے میرے خیال میں عمران خان نے ابھی تک آخری حربہ آزمایا ہی نہیں مگر پھر بھی پریشر اتنا بنا ہے کہ میاں صاحبان کے اوسان خطا ہیں۔ عمران خان کے مطالبات کو دیکھا جائے توبڑے اُصولی موقف اپنائے ہیں۔ دھاندلی کے الزامات ایسے ہیں جس کا کسی تجزیہ نگار نے انکار نہیں کیا بلکہ اکثر سیاسی پارٹیوں نے بھی حمایت کی ہے۔ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ بھی معقول ہے لیکن اس کے نتیجے میں جو روایت بنے گی وہ شاید پاکستانی سیاست کیلئے نقصان دہ ہو۔ ہم ایسی قوم ہیں جو اپنے ہی منتخب نمائندوں کیلئے پانچ سال انتظار نہیں کر سکتے۔ استعفے کی روایت اگر ایک بار رائج ہو گئی تو جمہوریت کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔
لیکن آدمی کیا کرے جب پیپلز پارٹی کے دور کی یاد آتی ہے۔ ہر دوسری بات پر کہا جاتا تھا کہ فلاں اخلاقی طور پر مستعفی ہو جائے۔اب بات میاں برادران کی آئی تو اخلاقی استعفے کی بات بھی کوئی نہیں کر رہا۔کیا اخلاقی طور پر مستعفی ہونا آئینی عمل تھا؟
اب نواز شریف کو اخلاقی طور پر مستعفی کرانے کے لئے عمران خان اور علامہ طاہر القادری صاحب کو آخری حربہ سمجھ نہیں آرہا۔ لیکن مجھے ایک ترکیب سونے نہیں دے رہی۔ برادر آصف محمود جو کہ وکیل بھی ہیں، جرنلسٹ بھی ہیں اور خیر سے اینکر پرسن بھی ہیں، انہوں نے ایک بار لکھا تھا کہ مرغی کو انڈا اور جرنلسٹ کو آرٹیکل آجائے تو روک نہیں پاتے۔واقعی ایسا ہی ہے۔
اخلاقی طور پر مستعفی ہونے کا میں لاکھ مخالف صحیح لیکن یہ آخری حربہ عمران خان اور قادری صاحب تک پہنچانے کے لئے میری اُنگلیاں لیپ ٹاپ کے بٹن دبانے کے لیے بے قرار تھی۔ چلو وہ آخری حربہ بتا ہی دیتا ہوں۔
بھوک ہڑتال۔
کر پائیں گے یہ دونوں حضرات؟
کامیابی یقینی ہے۔
ابھی تک جتنے بھی حربے یہ لوگ آزما چکے ہیں یہ نسخہ سب سے بہتر ہے۔
گاندھی جی یہی نسخہ اپنائے پھرتے تھے۔
انا ہزارے بھی شہرت پا چکے ہیں۔
عمران خا ن اور قادری صاحب کی صحت بھی اس عمل کی اجازت دیتے ہیں۔اور پاکستان میں کسی بڑی سیاسی پارٹی نے یہ طریقہ کبھی آزمایا بھی نہیں ہے۔ویسے بھی خان صاحب کہتے ہیں کہ یا استعفیٰ لیکر جاؤں گا اور یا موت۔ اور خان صاحب جھوٹ بھی نہیں بولتے ۔یقین جانیں استعفے کا تو پتہ نہیں لیکن بھوک ہڑتال سے یہ دوسرا دعویٰ تو خان صاحب بڑی آسانی سے پورا کر سکتے ہیں۔ اور اس کے اثرات بھی دیر پا ہونگے۔کامیابی کی صورت میں استعفیٰ اور ناکامی کی صورت میں موت۔ دونوں دعوؤں میں ایک تو ضرور پورا ہوگا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
عمران خان کے متعلق مایہ ناز تجزیہ نگاروں کے تجزیے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ عمران خان نے اپنے سارے حربے بلکہ آخری حربہ بھی آزما لیا ہے اورا ب اُن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں رہا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ آخری حربہ آزمانے کے باوجود بھی حکومت پر اتنا پریشر تھا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا پڑا۔ نہ صرف مشترکہ اجلاس بلانا پڑا بلکہ اُس شخص کودعوت بھی دینی پڑی جس کو چوک پر لٹکانے کی باتیں ہوتی تھیں۔
ویسے میرے خیال میں عمران خان نے ابھی تک آخری حربہ آزمایا ہی نہیں مگر پھر بھی پریشر اتنا بنا ہے کہ میاں صاحبان کے اوسان خطا ہیں۔ عمران خان کے مطالبات کو دیکھا جائے توبڑے اُصولی موقف اپنائے ہیں۔ دھاندلی کے الزامات ایسے ہیں جس کا کسی تجزیہ نگار نے انکار نہیں کیا بلکہ اکثر سیاسی پارٹیوں نے بھی حمایت کی ہے۔ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ بھی معقول ہے لیکن اس کے نتیجے میں جو روایت بنے گی وہ شاید پاکستانی سیاست کیلئے نقصان دہ ہو۔ ہم ایسی قوم ہیں جو اپنے ہی منتخب نمائندوں کیلئے پانچ سال انتظار نہیں کر سکتے۔ استعفے کی روایت اگر ایک بار رائج ہو گئی تو جمہوریت کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔
لیکن آدمی کیا کرے جب پیپلز پارٹی کے دور کی یاد آتی ہے۔ ہر دوسری بات پر کہا جاتا تھا کہ فلاں اخلاقی طور پر مستعفی ہو جائے۔اب بات میاں برادران کی آئی تو اخلاقی استعفے کی بات بھی کوئی نہیں کر رہا۔کیا اخلاقی طور پر مستعفی ہونا آئینی عمل تھا؟
اب نواز شریف کو اخلاقی طور پر مستعفی کرانے کے لئے عمران خان اور علامہ طاہر القادری صاحب کو آخری حربہ سمجھ نہیں آرہا۔ لیکن مجھے ایک ترکیب سونے نہیں دے رہی۔ برادر آصف محمود جو کہ وکیل بھی ہیں، جرنلسٹ بھی ہیں اور خیر سے اینکر پرسن بھی ہیں، انہوں نے ایک بار لکھا تھا کہ مرغی کو انڈا اور جرنلسٹ کو آرٹیکل آجائے تو روک نہیں پاتے۔واقعی ایسا ہی ہے۔
اخلاقی طور پر مستعفی ہونے کا میں لاکھ مخالف صحیح لیکن یہ آخری حربہ عمران خان اور قادری صاحب تک پہنچانے کے لئے میری اُنگلیاں لیپ ٹاپ کے بٹن دبانے کے لیے بے قرار تھی۔ چلو وہ آخری حربہ بتا ہی دیتا ہوں۔
بھوک ہڑتال۔
کر پائیں گے یہ دونوں حضرات؟
کامیابی یقینی ہے۔
ابھی تک جتنے بھی حربے یہ لوگ آزما چکے ہیں یہ نسخہ سب سے بہتر ہے۔
گاندھی جی یہی نسخہ اپنائے پھرتے تھے۔
انا ہزارے بھی شہرت پا چکے ہیں۔
عمران خا ن اور قادری صاحب کی صحت بھی اس عمل کی اجازت دیتے ہیں۔اور پاکستان میں کسی بڑی سیاسی پارٹی نے یہ طریقہ کبھی آزمایا بھی نہیں ہے۔ویسے بھی خان صاحب کہتے ہیں کہ یا استعفیٰ لیکر جاؤں گا اور یا موت۔ اور خان صاحب جھوٹ بھی نہیں بولتے ۔یقین جانیں استعفے کا تو پتہ نہیں لیکن بھوک ہڑتال سے یہ دوسرا دعویٰ تو خان صاحب بڑی آسانی سے پورا کر سکتے ہیں۔ اور اس کے اثرات بھی دیر پا ہونگے۔کامیابی کی صورت میں استعفیٰ اور ناکامی کی صورت میں موت۔ دونوں دعوؤں میں ایک تو ضرور پورا ہوگا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔