بات کچھ اِدھر اُدھر کی ریویو میری کوم
میری کوم نے اس تصور کو بھی ختم کردیا کہ شادی کے بعد عورت کی شناخت اور قابلیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔
مجھے باکسنگ سیکھنا ہے۔
آپ مردوں سے عورت کا آگے بڑھنا برداشت ہی نہیں ہوتا۔
کس کتاب میں لکھا ہے کہ عورت ،کچن، صفائی کے لئے ہی معرض وجود میں آئی ہے؟
جب میں نے یہ سنا تو ایک دم میری کیفیت اس بوڑھے بندر کی طرح ہو گئی ہو جسے اس کا مالک آخر میں آ کر کہے کہ وہ اب کچھ دن کی چھٹی پر چلا جائے۔اور اس بندر کے اندر خطرے کی گھنٹیاں بج جائیں کہ اس کا آخری وقت آن پہنچا کیا؟میری یہ کیفیت اس وقت ہوئی جب ہو م منسٹری کی طرف سے اس خواہش کا اظہار ہوا۔میں نے کھسیانی مسکراہٹ سے جواب دیا کہ تم نے ٹی وی پر ایک ٹریلر دیکھا ہے، اور فلموں میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا بھلا عملی زندگی سے کیا تعلق؟پھر یہ تو ایک بائیو پکچر ہے اس میں وہ کمرشلزم والی فروٹ چاٹ کہاں ہوگی۔
خیر دو دن کی بحث کے بعد یہ طے پایا کہ پہلے فلم تو دیکھی جائے۔دو بچے موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بٹھائے۔ایک کو بیگم نے پکڑا ،دو کو لالچ دے کر نانی کے گھر چھوڑا اور یوں ہمارا مختصر سا قافلہ سینما کی طرف روانہ ہوا۔میرے ذہن میں تھا کہ عین بیچ فلم بچے رونا شروع کر دینگے اور ہم واپس آ جائیں گے مگر انہوں نے تو پورا پورا ماں کا ساتھ دیا یا فلم انہیں واقعی میں پسند آئی تھی جو اینڈ تک خاموشی سے دیکھتے رہے۔کہیں کہیں جوش میں جب میری بیگم سیٹ سے اٹھ کر مکے لہرانے کی کوشش کرتی تو میں اسے کھینچ کر بٹھانے کی ناکام کوشش کرتا۔بلکہ اس کوشش میں کافی سارے گھونسے ہی میرا مقدر بنے۔ مجھے پریانکا چوپڑا کا وہ اخباری بیان یاد آ گیا کہ اس فلم میں کام نے ان کو خود کا دفاع سکھا دیا ہے اور اب وہ ضرورت پڑنے پر کسی کی بھی با آسانی پٹائی کر سکتی ہیں۔
فلم تھی میری کوم ۔ بھنسالی پروڈکشنزاور اومنگ کمارکی ڈائریکشن میں پریانکا چوپڑا (میری کوم)، سنیل تھاپا ( باکسنگ ٹرینر نرجیت سنگھ)، درشن کمار( میری کوم شوہر) نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ کہانی ایک بھارتی باکسر Mangte Chungneijang Mary Kom کی زندگی کو پردہ ا سکرین پر بیان کرتی ہے۔واقعات کا ایک تسلسل دفاعی انداز، باکسنگ اور رنگ سے ہوتا ہوا کامیابیوں اور میڈیلز تک لے جاتا ہے۔
فلم کو اگر دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ایک حصہ فلیش بیکس کی صورت میں حاوی دیکھائی دیتا ہے۔ یہ کہانی ہے ایک جدوجہد کی اور اسے پریانکا چوپڑا نے اپنی بے ساختہ اداکاری سے اور بھی طاقتور بنا دیا۔ منی پور بھارت میں 1983ء ایک عام سے گھرانے میں پیدا ہونے والی میری کوم نے ابتدائی تعلیم لوکٹک کرسچن ماڈل ہائی اسکول سے حاصل کی ۔اس کے اندر کے جارحانہ پن نے باہر نکلنے کا راستہ اسے باکسنگ کی صورت میں دیا۔
فوٹو؛ فیس بک
فوٹو؛ فیس بک
اسے بچپن سے ہی ایتھلیٹ بننے کا شوق ہوتا ہے اور پھر وہ منی پورا سٹیٹ باکسنگ کوچ نرجیت سنگھ ( سنیل تھاپا) سے اپنی تربیت کا آغاز کرتی ہے اوریوں اپنی محنت اور لگن سے مقامی سطح سے جیتتے ہوئے اولمپک تک کے سفر میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہوئے اپنے ملک کا نام روشن کرتی ہے۔ اور سا تھ ہی اس تصور کو بھی ختم کرتی ہے کہ شادی کے بعد عورت کی شناخت اور قابلیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس فلم نے اپنے پہلے دو دنوں میں 2.9 ملین ڈالر کا بزنس کیا اور اسے بھارت کے بہت سے حصوں ٹیکس فری قرار دیا گیا جو اس کی ایک بہت بڑی کامیابی بھی ہے کہ یہ ایک قومی فلم ہے۔
فوٹو؛ فیس بک
فلم کی موسیقی ششی اور شووم نے دی ہے گانوں میں ، دل یہ ضدی ہے ( ویشال دادلانی)، سکون ملا اور سودے بازی ( ارجیت سنگھ)، ہم ہیں ادھورے لمحے ( سنیدھی چوہان)، تیر ی باری (موہت چوہان)، سلام انڈیا ( ویشال دادلانی، سلیم مرچنٹ)، تیری میں بلائیں لوں( پریانکا چوپڑا) شامل ہیں۔
یہ فلم بائیو گرافک فیچرز کی وجہ سے ایک خاص فلمی بینوں کو ہی بھائے گی۔ وہ لوگ جو ایک ہی طرح کی تیز حلیم اور فروٹ چاٹ ٹائپ فلمز کے رسیا ہیں ٹیسٹ چینج کرنے کے لئے ''میری کوم'' دیکھیں مجھے یقین ہے آپ مایوس نہیں ہونگے۔
فوٹو؛ فیس بک
دو گھنٹے سے زائد کی اس فلم کے بعد ہمارا واپسی کا سفر خاموشی میں گزرا شاید ہم سب ہی ایک سوچ پر تھے کہ معاشی و سماجی ناہمواریوں کا سامنا ہر عورت و مرد کو کرنا پڑتا ہے ۔رویوں میں تبدیلی بعض دفعہ اس کے ڈی این اے کی وجہ سے نہیں آتی بلکہ ایک ضد کا عنصر ہر انسان میں ہوتا ہے اور حالات و واقعات اس کی سمت متعین کر دیتے ہیں چاہے تو وہ اس کا مثبت استعمال کرتے ہوئے باکسنگ کے میدان میں نام کمائے یا پھر بندوق اٹھا کر ریاست کے خلاف ہی اٹھ کھڑا ہو۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ مردوں سے عورت کا آگے بڑھنا برداشت ہی نہیں ہوتا۔
کس کتاب میں لکھا ہے کہ عورت ،کچن، صفائی کے لئے ہی معرض وجود میں آئی ہے؟
جب میں نے یہ سنا تو ایک دم میری کیفیت اس بوڑھے بندر کی طرح ہو گئی ہو جسے اس کا مالک آخر میں آ کر کہے کہ وہ اب کچھ دن کی چھٹی پر چلا جائے۔اور اس بندر کے اندر خطرے کی گھنٹیاں بج جائیں کہ اس کا آخری وقت آن پہنچا کیا؟میری یہ کیفیت اس وقت ہوئی جب ہو م منسٹری کی طرف سے اس خواہش کا اظہار ہوا۔میں نے کھسیانی مسکراہٹ سے جواب دیا کہ تم نے ٹی وی پر ایک ٹریلر دیکھا ہے، اور فلموں میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا بھلا عملی زندگی سے کیا تعلق؟پھر یہ تو ایک بائیو پکچر ہے اس میں وہ کمرشلزم والی فروٹ چاٹ کہاں ہوگی۔
خیر دو دن کی بحث کے بعد یہ طے پایا کہ پہلے فلم تو دیکھی جائے۔دو بچے موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بٹھائے۔ایک کو بیگم نے پکڑا ،دو کو لالچ دے کر نانی کے گھر چھوڑا اور یوں ہمارا مختصر سا قافلہ سینما کی طرف روانہ ہوا۔میرے ذہن میں تھا کہ عین بیچ فلم بچے رونا شروع کر دینگے اور ہم واپس آ جائیں گے مگر انہوں نے تو پورا پورا ماں کا ساتھ دیا یا فلم انہیں واقعی میں پسند آئی تھی جو اینڈ تک خاموشی سے دیکھتے رہے۔کہیں کہیں جوش میں جب میری بیگم سیٹ سے اٹھ کر مکے لہرانے کی کوشش کرتی تو میں اسے کھینچ کر بٹھانے کی ناکام کوشش کرتا۔بلکہ اس کوشش میں کافی سارے گھونسے ہی میرا مقدر بنے۔ مجھے پریانکا چوپڑا کا وہ اخباری بیان یاد آ گیا کہ اس فلم میں کام نے ان کو خود کا دفاع سکھا دیا ہے اور اب وہ ضرورت پڑنے پر کسی کی بھی با آسانی پٹائی کر سکتی ہیں۔
فلم تھی میری کوم ۔ بھنسالی پروڈکشنزاور اومنگ کمارکی ڈائریکشن میں پریانکا چوپڑا (میری کوم)، سنیل تھاپا ( باکسنگ ٹرینر نرجیت سنگھ)، درشن کمار( میری کوم شوہر) نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ کہانی ایک بھارتی باکسر Mangte Chungneijang Mary Kom کی زندگی کو پردہ ا سکرین پر بیان کرتی ہے۔واقعات کا ایک تسلسل دفاعی انداز، باکسنگ اور رنگ سے ہوتا ہوا کامیابیوں اور میڈیلز تک لے جاتا ہے۔
فلم کو اگر دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ایک حصہ فلیش بیکس کی صورت میں حاوی دیکھائی دیتا ہے۔ یہ کہانی ہے ایک جدوجہد کی اور اسے پریانکا چوپڑا نے اپنی بے ساختہ اداکاری سے اور بھی طاقتور بنا دیا۔ منی پور بھارت میں 1983ء ایک عام سے گھرانے میں پیدا ہونے والی میری کوم نے ابتدائی تعلیم لوکٹک کرسچن ماڈل ہائی اسکول سے حاصل کی ۔اس کے اندر کے جارحانہ پن نے باہر نکلنے کا راستہ اسے باکسنگ کی صورت میں دیا۔
فوٹو؛ فیس بک
فوٹو؛ فیس بک
اسے بچپن سے ہی ایتھلیٹ بننے کا شوق ہوتا ہے اور پھر وہ منی پورا سٹیٹ باکسنگ کوچ نرجیت سنگھ ( سنیل تھاپا) سے اپنی تربیت کا آغاز کرتی ہے اوریوں اپنی محنت اور لگن سے مقامی سطح سے جیتتے ہوئے اولمپک تک کے سفر میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہوئے اپنے ملک کا نام روشن کرتی ہے۔ اور سا تھ ہی اس تصور کو بھی ختم کرتی ہے کہ شادی کے بعد عورت کی شناخت اور قابلیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس فلم نے اپنے پہلے دو دنوں میں 2.9 ملین ڈالر کا بزنس کیا اور اسے بھارت کے بہت سے حصوں ٹیکس فری قرار دیا گیا جو اس کی ایک بہت بڑی کامیابی بھی ہے کہ یہ ایک قومی فلم ہے۔
فوٹو؛ فیس بک
فلم کی موسیقی ششی اور شووم نے دی ہے گانوں میں ، دل یہ ضدی ہے ( ویشال دادلانی)، سکون ملا اور سودے بازی ( ارجیت سنگھ)، ہم ہیں ادھورے لمحے ( سنیدھی چوہان)، تیر ی باری (موہت چوہان)، سلام انڈیا ( ویشال دادلانی، سلیم مرچنٹ)، تیری میں بلائیں لوں( پریانکا چوپڑا) شامل ہیں۔
یہ فلم بائیو گرافک فیچرز کی وجہ سے ایک خاص فلمی بینوں کو ہی بھائے گی۔ وہ لوگ جو ایک ہی طرح کی تیز حلیم اور فروٹ چاٹ ٹائپ فلمز کے رسیا ہیں ٹیسٹ چینج کرنے کے لئے ''میری کوم'' دیکھیں مجھے یقین ہے آپ مایوس نہیں ہونگے۔
فوٹو؛ فیس بک
دو گھنٹے سے زائد کی اس فلم کے بعد ہمارا واپسی کا سفر خاموشی میں گزرا شاید ہم سب ہی ایک سوچ پر تھے کہ معاشی و سماجی ناہمواریوں کا سامنا ہر عورت و مرد کو کرنا پڑتا ہے ۔رویوں میں تبدیلی بعض دفعہ اس کے ڈی این اے کی وجہ سے نہیں آتی بلکہ ایک ضد کا عنصر ہر انسان میں ہوتا ہے اور حالات و واقعات اس کی سمت متعین کر دیتے ہیں چاہے تو وہ اس کا مثبت استعمال کرتے ہوئے باکسنگ کے میدان میں نام کمائے یا پھر بندوق اٹھا کر ریاست کے خلاف ہی اٹھ کھڑا ہو۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔