بربادیوں کا جنگل
انصاف اور قانون سب کے لیے ایک جیسا کرنا ہو گا۔۔۔۔
بچپن میں میری کسی شرارت یا ناپسندیدہ حرکت کے نتیجے میں میری والدہ غصے میں کہتی تھیں کہ اگر تم شرارت سے باز نہ آئے تو میں تمہیں جنگل میں چھوڑ کر آ جاؤں گی اور تم پھر جنگل میں ایسے گم ہو جاؤ گے کہ کبھی بھی دوبارہ میرے پاس نہ آسکو گے۔ وہ مجھ سے اس موقع پر یہ بھی کہتی تھیں کہ جنگل میں بہت ہی خطرناک وحشی جانور اور درندے ہوتے ہیں، ان کی یہ بات سن کر میں ایسا ڈر جاتا تھا کہ جیسا والدہ کہتی تھیں پھر میں ویسا ہی کرتا تھا۔
میرے ذہن میں بچپن ہی سے جنگل کے بارے میں خوف بیٹھ گیا۔ میں اکثر اپنے چھوٹے سے ذہن سے سوچا کرتا تھا کہ جنگل کس قدر خوفناک ہو گا۔ وحشی درندے آزادانہ گھومتے پھرتے ہوں گے۔ اگر کوئی غلطی سے جنگل میں داخل ہو جائے تو وہ پھر ساری زندگی جنگل میں ہی بھٹکتا پھرے گا۔ اس کے لیے واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔ جنگل میں موجود وحشی خوفناک اور خطرناک درندوں سے آخر انسان کس طرح اپنے آپ کو بچا پائے گا۔ اور کس طرح اکیلا آخر اتنے سارے وحشی درندوں سے مقابلہ کرے گا۔
میں خوف سے ڈرتا رہتا تھا کہ اگر واقعی میری والدہ مجھے جنگل چھوڑ آئیں تو میں صرف اکیلا پریشانیوں اور مصیبتوں میں زندگی بسر کروں گا باقی سب میرے گھر والے آرام عیش و عشرت کے ساتھ زندگی بسر کریں گے۔ تو پھر میں پریشان ہو کر والدہ کے سامنے سر جھکا کر ان کی باتیں مان لیتا تھا اور والدہ کی گود میں چھپ جایا کرتا تھا اور ان سے کہتا تھا کہ آپ جیسا کہیں گی میں آیندہ ویسا ہی کروں گا لیکن آپ وعدہ کریں کہ آپ مجھے کبھی بھی جنگل چھوڑ کر نہیں آئیں گی۔ تو والدہ میری یہ باتیں سن کر مسکرا کر مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیتی تھیں۔ لیکن جنگل کا خوف کبھی بھی میرے دل سے اور خوابوں سے نہ نکل سکا۔ آج جب میں اپنے معاشرے میں غریبوں کے ساتھ ناانصافیاں ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں، آج جب میں غریبوں کو بھوک اور بیماریوں سے تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے دیکھتا ہوں، جب میں چند امیروں اور طاقتور لوگوں کے ہاتھوں غریبوں کو دھتکارتے ہوئے دیکھتا ہوں، جب میں صرف چند امیر لوگوں کو غریبوں کی زندگی کا مالک بنے ہوئے دیکھتا ہوں تو پھر مجھے اپنا یہ ملک اور اس کے شہر اور گاؤں سب جنگل لگتے ہیں۔ اب مجھے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں محسوس ہوتا ہے۔
شیر اور دوسرے وحشی درندے طاقتور اور بے رحم ہوتے ہیں، اسی لیے ان کا جنگل پر راج ہوتا ہے، ان ہی کا قانون چلتا ہے۔ جس زمانے میں انسان غاروں میں رہتے تھے تو ان بے رحم درندوں سے خود کو بچانے کے لیے ہر ترکیب اور تدبیر کیا کرتے تھے۔ اور وہ طاقتور اور بے رحم درندے جنگلوں میں دندناتے پھرتے تھے، ہر سامنے آنے والی چیزوں اور انسانوں کو روندتے پھرتے تھے۔ کمزور انسان اور جانور چھپ کر اپنی زندگی بسر کرتے تھے اور ان کی کمین گاہیں غار یا درخت ہوتے تھے، ہر لمحہ وقت ان کا خوف ان کے دلوں میں موجود رہتا تھا۔
آج اپنا معاشرہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جنگل کے وہ تمام وحشی طاقتور اور بے رحم درندے جنگلوں سے نکل کر انسانوں کے بھیس میں آ کر ہمارے معاشرے میں آباد ہو گئے ہیں اور ہمارے غریب عوام کے آقا اور مالک بن گئے ہیں۔ غریب عوام ان طاقتور بے رحم درندے نما انسانوں کے ظلم پر ان کے خوف سے نہ آواز بلند کرتے ہیں اور نہ ہی احتجاج کرتے ہیں۔ بس چپ چاپ معاشرے کے ایک الگ کونے میں چھپ کر اپنی زندگی سسک سسک کر بلک بلک کر گزار رہے ہیں۔ ان درندوں کے راج اور اقتدار کو نہ کوئی جنگل میں خطرہ تھا اور نہ ہی آج ان کے راج اور اقتدار کو شہروں میں کوئی خطرہ لاحق ہے۔ آج ہمارے ڈرے سہمے عوام اپنے چھوٹے چھوٹے گندے گھروں میں قید بڑی ہی مشکل سے اپنی زندگیاں بچانے میں کامیاب ہو پا رہے ہیں۔ اور وہ بے رحم طاقتور امیر بڑی بے رحمی سے ہمارے عوام کے احساسات، جذبات، ارمان، تمنائیں اور خواہشیں روز کچلتے اور روندتے پھرتے ہیں، کوئی انھیں روکنے والا ٹوکنے والا نہیں۔ آج ہر غریب کے گھر ماتم مچا ہوا ہے۔
ہر روز غریب کے گھر دکھوں اور غموں کی مجلس شام غریباں برپا ہوتی ہے۔ التجائیں اور آنسو ان کا مقدر بن گئے ہیں۔ نہ زمین پھٹتی ہے اور نہ ہی آسمان گرتا ہے۔ تصور کریں اذیت اور تکلیف جو انھیں پہنچ رہی ہو گی۔ یہ طاقتور اور امیر ظالم نہ غریبوں کو جینے دے رہے ہیں اور نہ ہی مرنے دے رہے ہیں۔ عوام سرکاری نوکریوں، اعلیٰ اسکولوں اور اسپتالوں سے روز دھتکارے جاتے ہیں۔ غریبوں کا خون چوسنے والے یہ طاقتور اور امیر غریبوں کی طاقت کے بل بوتے پر ہی زندہ ہیں۔ غریبوں کے خون اور پسینے کی وجہ سے یہ چند امیر کس قدر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور غریب سارے دن کی محنت و مشقت کرنے کے باوجود اپنا خون پسینہ بہانے کے بعد بھی اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھی ٹھیک سے نہیں بھر پاتے ہیں۔ غریبوں کی زندگی کا مقصد مشقت، چند روپے کمانا، بچوں کا پیدا کرنا اور مر جانا ہی رہ گیا ہے۔
کچھ امیر جن کے پاس اس قدر دولت ہے کہ وہ ہزاروں انسانوں کو اپنا غلام بنا سکتے ہیں، وہ بالکل ہاتھ پیر نہیں ہلاتے ہیں، دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو تمام عمر محنت و مشقت کرنے کے باوجود اپنی بہن یا بیوی کے لیے سونے کی ایک بالی تک نہیں بنا پاتے ہیں۔ امیروں نے غریبوں کو جکڑ رکھا ہے۔ عوام خوف کے سائے تلے ہر چیز سے خائف ہیں۔ غریب عوام کی زندگی رات ہے، ایک اندھیری رات۔ بربادی فقط ایک لفظ ہے لیکن اس کی ہزاروں شکلیں ہیں۔ قتل، بیروزگاری، بھوک، غربت، خودکشی، فاقے وغیرہ سب بربادی کی شکلیں ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ اگر ہمیں رہا سہا بچانا ہے تو پھر ہمیں سب اختیار عوام کے ہاتھوں میں دینا ہو گا۔ بے روزگاری ختم کرنا ہو گی۔
انصاف اور قانون سب کے لیے ایک جیسا کرنا ہو گا۔ امیر عیش کرتے رہیں اور غریب صرف محنت و مشقت یہ دہرا معیار ختم کرنا ہو گا۔ سب کے لیے کام کرنا فرض ہونا چاہیے۔ دولت کی تقسیم منصفانہ ہونی چاہیے، ہر ایک کے لیے تعلیم، ہر ایک کے لیے رہنے کو گھر، پہننے کے لیے کپڑا اور کھانے کے لیے پیٹ بھر کر روٹی مہیا کرنا ہو گی۔ معاشرے میں پھیلی تمام نا انصافیاں ختم کرنا ہوں گی، تب ہی ہم ایک کامیاب اور خوشحال قوم بن سکیں گے اور ملک ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہو سکے گا۔