عورتوں پر تشدد اور سماجی تنظیمیں
سماجی تنظیمیں جو گورنمنٹ کا حصہ نہیں ہوتیں لیکن حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ کام کرتی ہیں۔۔۔
عورتوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات ہر ذی شعور کو تکلیف دیتے ہیں۔ صنفی تفریق کی دلدل میں دھنسے ہوئے سماجی ادارے اس تشدد کو حق سمجھتے ہیں۔ معاشرے کے سارے اداروں کے فرائض کے دائرے الگ الگ ہوتے ہیں عورت پر تشدد کے ایک واقعے کے ذمے دار بھی بہت ہوتے ہیں اور انصاف تک پہنچنے کے ذریعے بھی بہت ہوتے ہیں۔ آج کل عورتوں کے حوالے سے جتنے بھی جرم ہوتے ہیں ان کو اٹھا کر سماجی تنظیموں کے ذمے ڈال دیا گیا ہے۔
سماجی تنظیمیں جو گورنمنٹ کا حصہ نہیں ہوتیں لیکن حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ کام کرتی ہیں۔ کچھ تنظیمیں جن کو عرف عام میں NGO کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کے بڑے وسیع نیٹ ورک ہوتے ہیں وہ مخصوص وقت کے اندر مخصوص ایشوز پر کام کرتی ہیں۔ کافی تنظیموں کو مالی مدد بھی ملتی ہے، جس کو فنڈ کہا جاتا ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جیسے ہی خواتین پر تشدد کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے نزلہ سماجی تنظیموں پر ہی گرتا ہے۔ پہلا سوال یہ آتا ہے کہ ''اتنی ساری تنظیمیں خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں پھر بھی تشدد کے واقعات میں کمی کیوں نہیں آتی؟'' دوسرا سوال یہ کہ آخر کار سماجی تنظیموں کی خواتین مظلوم خواتین تک کیوں نہیں پہنچتیں؟
میں اگر اپنے دائرہ تحریر میں صرف ان اداروں کو لاؤں جو Right Base (رائٹ بیس) ہوتے ہیں، حقوق کے لیے کام کرتے ہیں، جن کے ایجنڈے میں صرف ایک ایشو نہیں ہوتا لیکن یہ تنظیمیں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرتی ہیں عورتوں کے خلاف صنفی بنیاد پر ہونے والے تفریقی رویوں کی تبدیلی کی بات کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر وومن ایکشن فورم کی بات کی جائے تو یہ ایک نان فنڈڈ ادارہ ہے جو کسی سے بھی مالی مدد نہیں لیتا۔ اس تنظیم کی ممبر خواتین اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتی ہیں۔
اب کسی بھی جرم کو اکیلے حل کرنا اس کے دائرہ اختیار میں ہے ہی نہیں۔ مثال کے طور پر کسی لڑکی کی بے حرمتی ہوئی ہو ۔ اطلاع ملنے پر رابطہ کیا گیا۔ پھر ایک وفد نے اس علاقے میں جا کر ان سے ملاقات کی اور پوچھا کہ ''ہم کیا کر سکتے ہیں؟'' پولیس FIR درج نہیں کر رہی تھی۔ اعلیٰ آفیسرز سے رابطہ کر کے FIR درج کروائی گئی۔ پھر مرحلہ آیا میڈیکل لیگل سرٹیفکیٹ کا۔ اسپتال سے میڈیکل چیک اپ کروایا گیا، پھر واپس آ گئے پولیس اسٹیشن۔ اب پولیس کا کام شروع ہوتا ہے اگر مجرم گرفتار ہو گیا تو جائیں گے عدالت میں، اب عدالت جانے مجرم جانے۔
ایک مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں لانے تک بہت سارے مرحلے ہوتے ہیں۔ سماجی تنظیمیں اس سارے عمل میں ساتھ تو دے سکتی ہیں لیکن کسی بھی ادارے کے کام کرنے کے انداز کو نہ تبدیل کر سکتی ہیں اور نہ ہی اس کو تیز رفتاری دے سکتی ہیں۔ ایکٹیوسٹ کے لیے بہت سارے چیلنجز ہوتے ہیں دوسروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے اپنے حقوق کی نفی ہوتی رہتی ہے ہراسمنٹ کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ ذاتی تحفظ بھی پیش نظر ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کو ساتھ لے کر مظلوم خواتین کی مدد کرنے کو آواز ضرور بلند کرتی ہیں لیکن کام کے انداز اور دائرے الگ الگ ہوتے ہیں۔
ضلع سانگھڑ میں ایک لڑکی کو زندہ دفن کر دیا گیا۔ یہ قتل تو کاروکاری کے تحت اپنوں کے ہاتھوں ہوا، اب وومن ایکشن فورم کے بس میں یہی تھا کہ FIR درج کروا دے اور مطالبہ کرے کہ قبر کشائی کر کے لڑکی کا پوسٹ مارٹم کروانے کے لیے کوشش کرے۔ یہ سب کچھ کر لیا۔ پھر سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کی جسٹس ماجدہ رضوی بھی بنفس نفیس پہنچیں اور قبر کشائی کے بعد پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنے میں مہینوں لگ گئے۔ اب بھلا اس صورتحال میں سماجی تنظیمیں کیا کر سکتی ہیں؟
کسی کے جلتے زخموں پر ہمدردی کے پانی کے چھینٹے ڈالنا بہت کٹھن ہے۔ بعض اوقات زخم کریدنے بھی پڑتے ہیں۔ ہم لوگ ابھی تک تو جرم اور گھر کے مسئلے کو الگ نہیں کر پائے ہم کیسے کہیں کہ ہم نے بہت کام کر لیا۔ ہم بہن کو بھائی سے نہیں بچا سکتے، بیٹی کو باپ سے نہیں بچا سکتے۔ ماں کو بیٹے سے نہیں بچا سکتے یہ سب جرائم تو شفقتوں کی چادروں سے ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں۔
آستین کے سانپ جب ڈس لیں تو پھر پانی مانگنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ اور زمانہ تو نظریں پھیر ہی لیتا ہے۔ معصوم بچیاں جب گھر کے ظلم پر پکار اٹھتی ہیں تو کئی ہاتھ منہ بند کرنے کو اٹھ جاتے ہیں۔ لیکن قتل کرنے والے باپ کا ہاتھ کوئی نہیں روکتا۔ بھائی کے ہاتھ سے بندوق کوئی نہیں چھینتا۔ بیٹے کے ہاتھوں ماں قتل ہو جاتی ہے اور کوئی کچھ نہیں کہتا۔ جرم تب ختم ہو گا جب جرم کو جرم سمجھ کر مجرم کو سزا دی جائے گی۔ بچیاں جب پاؤں پاؤں چلتی ہیں تو بھاگ دوڑ کر باپ کے سارے کام کرتی ہیں۔
بھائی کی آؤ بھگت کرتی ہیں وہی بچیاں جب اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق طلب کر بیٹھتی ہیں تو ان کے سر کندھوں سے الگ ہو کر زمین پر خاک و خون میں لتھڑے نظر آنے لگتے ہیں۔ خیر پور کے شہر پریالو میں ابھی دو دن پہلے ہی باپ اور بیٹے نے مل کر لڑکی کو کاری کے الزام میں قتل کر کے لاش دریا میں پھینک دی۔
اب تفتیش کا عمل جاری ہے، جب تک لاش نہیں ملتی تب تک کوئی ثبوت ہی نہیں۔ اب سماجی تنظیمیں کہاں سے کام شروع کریں؟ جب ضلع دادو کے شہر جوہی کی چھوٹی سی 14 سال کی بچی کی لاش کو والدین کے گھر کے آگے پھینکا گیا تو خون آلود چہرہ دیکھ کر رگوں میں چلتا خون منجمد ہو گیا تھا۔ سماجی تنظیموں کی خواتین نے اس ظلم پر بہت احتجاج کیا رابطہ کرنے پر پتہ چلا کہ غریب باپ نے چند نوٹوں کے بدلے میں لڑکی کو نکاح کے نام پر بیچ دیا تھا جب لڑکی جان سے گزر گئی تو گھر پر واپس چھوڑ گئے اس معصوم بچی کا سفر اتنا ہی تھا۔ چھوٹی سی دلہن کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور اسی طرح کاندھوں پر لاد کر چھوڑ گئے۔ کیا اسے انصاف ملا؟ جواب آپ جانتے ہی ہوں گے۔
نہیں، نہیں ملا، ملتا کیسے؟ قصوروار ماں باپ تھے جنھوں نے چھوٹی عمر میں شادی کی اور وہ مانے ہی نہیں کہ انھوں نے پیسے لیے تھے۔ قصوروار شوہر تھا جس نے تشدد کیا لیکن میڈیکل رپورٹ میں تشدد ظاہر ہی نہیں ہوا۔ قصوروار وہ ملا بھی تھا جس نے نکاح پڑھوایا۔ وہ بھی گم ہو گیا۔ شوہر گرفتار ہو گیا۔ لیکن پولیس کی تفتیش مکمل نہ ہو سکی۔ بالآخر کیس وفاقی اداروں کے سپرد ہو گیا۔
اب بھلا سماجی تنظیمیں کس کا در کھٹکھٹائیں رکاوٹیں ہر جگہ ہیں انصاف کے راستے بھول بھلیوں کی طرح ہیں جہاں پہنچ کر راستے گم ہو جاتے ہیں عورت پر ظلم کرنا اور بچ جانا بہت آسان ہے جرائم کو بڑھانے میں کردار انصاف کے حصول کا ہے سماجی تنظیموں کا قصور نہیں ہے۔ سماجی ادارے جو عام خواتین کی فلاح و بہبود اور قانونی مدد کے واسطے بنے ہیں ان کا کام اداروں تک خواتین کی رسائی کا ہے، بے پہنچ اور حقوق نہ جاننے والی، قانونی داؤ پیچ سے نابلد خواتین کو راہ دکھانا مقصود ہے۔ ہم ہمسفر ہیں، رہبر ہیں، لیکن ہم منزل نہیں ہیں۔
چھوٹی سی زندگی کا بس اتنا ہی فسانہ ہے۔ فیمنسٹ کی جنگ نظریاتی ہے۔ ہم نظریاتی جدوجہد کرتے ہیں ہمارے نقطہ نظر سے، عورت کے مسائل کو عورت کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ صحیح طرح سمجھ میں آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں حاکمیت کے سارے اختیارات مردانہ سوچ کے پاس ہیں وہ سوچ جو مردوں کو اعلیٰ مقام دیتی ہے اور عورت کو ماتحت کا درجہ دیتی ہے۔ سارے ادارے اسی سوچ کے تابع ہیں اور یہی سوچ جرائم میں اضافے کا باعث ہے، جنسی تشدد ہو، قتل ہو، کاروکاری کے واقعات ہوں، اغوا ہو، ہراسمنٹ ہو سب کی بنیاد یہی حاکمیت والی سوچ ہے۔
ہم فیمنسٹ اسی حاکمیت والی سوچ کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ رویوں میں برابری کا عنصر ہو، تفریق نہ ہو پرامن سماج کی بنیاد اسی نظریے پر قائم ہو سکتی ہے۔ ظلم کہیں بھی ہو ہم اپنی بہنوں کے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کرتے ہیں کہ ہمارے بس میں یہی ہے۔ باقی کام حکومتی اداروں کا ہے۔ اپنی بہنوں کے استحصال کے خلاف ہم نے اپنے آنچل کا پرچم بنا لیا ہے۔ اب کوئی ہمارے پاؤں کے نیچے تپتی دھرتی اور سر پر آگ اگلتے آسمان کو دیکھ کر بھی تنقید برائے تنقید کرے تو اس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ:
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
سماجی تنظیمیں جو گورنمنٹ کا حصہ نہیں ہوتیں لیکن حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ کام کرتی ہیں۔ کچھ تنظیمیں جن کو عرف عام میں NGO کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کے بڑے وسیع نیٹ ورک ہوتے ہیں وہ مخصوص وقت کے اندر مخصوص ایشوز پر کام کرتی ہیں۔ کافی تنظیموں کو مالی مدد بھی ملتی ہے، جس کو فنڈ کہا جاتا ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جیسے ہی خواتین پر تشدد کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے نزلہ سماجی تنظیموں پر ہی گرتا ہے۔ پہلا سوال یہ آتا ہے کہ ''اتنی ساری تنظیمیں خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں پھر بھی تشدد کے واقعات میں کمی کیوں نہیں آتی؟'' دوسرا سوال یہ کہ آخر کار سماجی تنظیموں کی خواتین مظلوم خواتین تک کیوں نہیں پہنچتیں؟
میں اگر اپنے دائرہ تحریر میں صرف ان اداروں کو لاؤں جو Right Base (رائٹ بیس) ہوتے ہیں، حقوق کے لیے کام کرتے ہیں، جن کے ایجنڈے میں صرف ایک ایشو نہیں ہوتا لیکن یہ تنظیمیں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرتی ہیں عورتوں کے خلاف صنفی بنیاد پر ہونے والے تفریقی رویوں کی تبدیلی کی بات کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر وومن ایکشن فورم کی بات کی جائے تو یہ ایک نان فنڈڈ ادارہ ہے جو کسی سے بھی مالی مدد نہیں لیتا۔ اس تنظیم کی ممبر خواتین اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتی ہیں۔
اب کسی بھی جرم کو اکیلے حل کرنا اس کے دائرہ اختیار میں ہے ہی نہیں۔ مثال کے طور پر کسی لڑکی کی بے حرمتی ہوئی ہو ۔ اطلاع ملنے پر رابطہ کیا گیا۔ پھر ایک وفد نے اس علاقے میں جا کر ان سے ملاقات کی اور پوچھا کہ ''ہم کیا کر سکتے ہیں؟'' پولیس FIR درج نہیں کر رہی تھی۔ اعلیٰ آفیسرز سے رابطہ کر کے FIR درج کروائی گئی۔ پھر مرحلہ آیا میڈیکل لیگل سرٹیفکیٹ کا۔ اسپتال سے میڈیکل چیک اپ کروایا گیا، پھر واپس آ گئے پولیس اسٹیشن۔ اب پولیس کا کام شروع ہوتا ہے اگر مجرم گرفتار ہو گیا تو جائیں گے عدالت میں، اب عدالت جانے مجرم جانے۔
ایک مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں لانے تک بہت سارے مرحلے ہوتے ہیں۔ سماجی تنظیمیں اس سارے عمل میں ساتھ تو دے سکتی ہیں لیکن کسی بھی ادارے کے کام کرنے کے انداز کو نہ تبدیل کر سکتی ہیں اور نہ ہی اس کو تیز رفتاری دے سکتی ہیں۔ ایکٹیوسٹ کے لیے بہت سارے چیلنجز ہوتے ہیں دوسروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے اپنے حقوق کی نفی ہوتی رہتی ہے ہراسمنٹ کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ ذاتی تحفظ بھی پیش نظر ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کو ساتھ لے کر مظلوم خواتین کی مدد کرنے کو آواز ضرور بلند کرتی ہیں لیکن کام کے انداز اور دائرے الگ الگ ہوتے ہیں۔
ضلع سانگھڑ میں ایک لڑکی کو زندہ دفن کر دیا گیا۔ یہ قتل تو کاروکاری کے تحت اپنوں کے ہاتھوں ہوا، اب وومن ایکشن فورم کے بس میں یہی تھا کہ FIR درج کروا دے اور مطالبہ کرے کہ قبر کشائی کر کے لڑکی کا پوسٹ مارٹم کروانے کے لیے کوشش کرے۔ یہ سب کچھ کر لیا۔ پھر سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کی جسٹس ماجدہ رضوی بھی بنفس نفیس پہنچیں اور قبر کشائی کے بعد پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنے میں مہینوں لگ گئے۔ اب بھلا اس صورتحال میں سماجی تنظیمیں کیا کر سکتی ہیں؟
کسی کے جلتے زخموں پر ہمدردی کے پانی کے چھینٹے ڈالنا بہت کٹھن ہے۔ بعض اوقات زخم کریدنے بھی پڑتے ہیں۔ ہم لوگ ابھی تک تو جرم اور گھر کے مسئلے کو الگ نہیں کر پائے ہم کیسے کہیں کہ ہم نے بہت کام کر لیا۔ ہم بہن کو بھائی سے نہیں بچا سکتے، بیٹی کو باپ سے نہیں بچا سکتے۔ ماں کو بیٹے سے نہیں بچا سکتے یہ سب جرائم تو شفقتوں کی چادروں سے ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں۔
آستین کے سانپ جب ڈس لیں تو پھر پانی مانگنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ اور زمانہ تو نظریں پھیر ہی لیتا ہے۔ معصوم بچیاں جب گھر کے ظلم پر پکار اٹھتی ہیں تو کئی ہاتھ منہ بند کرنے کو اٹھ جاتے ہیں۔ لیکن قتل کرنے والے باپ کا ہاتھ کوئی نہیں روکتا۔ بھائی کے ہاتھ سے بندوق کوئی نہیں چھینتا۔ بیٹے کے ہاتھوں ماں قتل ہو جاتی ہے اور کوئی کچھ نہیں کہتا۔ جرم تب ختم ہو گا جب جرم کو جرم سمجھ کر مجرم کو سزا دی جائے گی۔ بچیاں جب پاؤں پاؤں چلتی ہیں تو بھاگ دوڑ کر باپ کے سارے کام کرتی ہیں۔
بھائی کی آؤ بھگت کرتی ہیں وہی بچیاں جب اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق طلب کر بیٹھتی ہیں تو ان کے سر کندھوں سے الگ ہو کر زمین پر خاک و خون میں لتھڑے نظر آنے لگتے ہیں۔ خیر پور کے شہر پریالو میں ابھی دو دن پہلے ہی باپ اور بیٹے نے مل کر لڑکی کو کاری کے الزام میں قتل کر کے لاش دریا میں پھینک دی۔
اب تفتیش کا عمل جاری ہے، جب تک لاش نہیں ملتی تب تک کوئی ثبوت ہی نہیں۔ اب سماجی تنظیمیں کہاں سے کام شروع کریں؟ جب ضلع دادو کے شہر جوہی کی چھوٹی سی 14 سال کی بچی کی لاش کو والدین کے گھر کے آگے پھینکا گیا تو خون آلود چہرہ دیکھ کر رگوں میں چلتا خون منجمد ہو گیا تھا۔ سماجی تنظیموں کی خواتین نے اس ظلم پر بہت احتجاج کیا رابطہ کرنے پر پتہ چلا کہ غریب باپ نے چند نوٹوں کے بدلے میں لڑکی کو نکاح کے نام پر بیچ دیا تھا جب لڑکی جان سے گزر گئی تو گھر پر واپس چھوڑ گئے اس معصوم بچی کا سفر اتنا ہی تھا۔ چھوٹی سی دلہن کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور اسی طرح کاندھوں پر لاد کر چھوڑ گئے۔ کیا اسے انصاف ملا؟ جواب آپ جانتے ہی ہوں گے۔
نہیں، نہیں ملا، ملتا کیسے؟ قصوروار ماں باپ تھے جنھوں نے چھوٹی عمر میں شادی کی اور وہ مانے ہی نہیں کہ انھوں نے پیسے لیے تھے۔ قصوروار شوہر تھا جس نے تشدد کیا لیکن میڈیکل رپورٹ میں تشدد ظاہر ہی نہیں ہوا۔ قصوروار وہ ملا بھی تھا جس نے نکاح پڑھوایا۔ وہ بھی گم ہو گیا۔ شوہر گرفتار ہو گیا۔ لیکن پولیس کی تفتیش مکمل نہ ہو سکی۔ بالآخر کیس وفاقی اداروں کے سپرد ہو گیا۔
اب بھلا سماجی تنظیمیں کس کا در کھٹکھٹائیں رکاوٹیں ہر جگہ ہیں انصاف کے راستے بھول بھلیوں کی طرح ہیں جہاں پہنچ کر راستے گم ہو جاتے ہیں عورت پر ظلم کرنا اور بچ جانا بہت آسان ہے جرائم کو بڑھانے میں کردار انصاف کے حصول کا ہے سماجی تنظیموں کا قصور نہیں ہے۔ سماجی ادارے جو عام خواتین کی فلاح و بہبود اور قانونی مدد کے واسطے بنے ہیں ان کا کام اداروں تک خواتین کی رسائی کا ہے، بے پہنچ اور حقوق نہ جاننے والی، قانونی داؤ پیچ سے نابلد خواتین کو راہ دکھانا مقصود ہے۔ ہم ہمسفر ہیں، رہبر ہیں، لیکن ہم منزل نہیں ہیں۔
چھوٹی سی زندگی کا بس اتنا ہی فسانہ ہے۔ فیمنسٹ کی جنگ نظریاتی ہے۔ ہم نظریاتی جدوجہد کرتے ہیں ہمارے نقطہ نظر سے، عورت کے مسائل کو عورت کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ صحیح طرح سمجھ میں آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں حاکمیت کے سارے اختیارات مردانہ سوچ کے پاس ہیں وہ سوچ جو مردوں کو اعلیٰ مقام دیتی ہے اور عورت کو ماتحت کا درجہ دیتی ہے۔ سارے ادارے اسی سوچ کے تابع ہیں اور یہی سوچ جرائم میں اضافے کا باعث ہے، جنسی تشدد ہو، قتل ہو، کاروکاری کے واقعات ہوں، اغوا ہو، ہراسمنٹ ہو سب کی بنیاد یہی حاکمیت والی سوچ ہے۔
ہم فیمنسٹ اسی حاکمیت والی سوچ کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ رویوں میں برابری کا عنصر ہو، تفریق نہ ہو پرامن سماج کی بنیاد اسی نظریے پر قائم ہو سکتی ہے۔ ظلم کہیں بھی ہو ہم اپنی بہنوں کے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کرتے ہیں کہ ہمارے بس میں یہی ہے۔ باقی کام حکومتی اداروں کا ہے۔ اپنی بہنوں کے استحصال کے خلاف ہم نے اپنے آنچل کا پرچم بنا لیا ہے۔ اب کوئی ہمارے پاؤں کے نیچے تپتی دھرتی اور سر پر آگ اگلتے آسمان کو دیکھ کر بھی تنقید برائے تنقید کرے تو اس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ:
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی