اشرافیہ بہ مقابل جمہوریت

اس نظام کو اختیار کرنے سے پہلے نتیجہ تو یہ نکلتا کہ ووٹرز کی اتنی بڑی تعداد نہ ہوتی جس قدر اب ہے۔ ۔۔۔

لاہور:
کسی سیانے کا کہنا ہے کہ پاکستان کو انتخابات راس نہیں آتے بلکہ بھاری پڑ جاتے ہیں۔ آئیے! ذرا اس صورتحال کو حقیقت اور تاریخ کے پس منظر میں دیکھیں کہ یوں تو دستور کا مرحلہ دو بار طے ہوا تھا جس میں 1956 اور 1962کے دساتیر شامل ہیں لیکن 1970 میں جب دستور ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو متحدہ پاکستان کا دستور تو کیا بنتا الٹا ملک دو لخت ہو گیا۔

اب مغربی پاکستان جو بلاشرکت غیرے پاکستان بن چکا تھا جس نے 1973میں دستور کو بنا لیا لیکن جب انتخابات کا مسئلہ آیا تو 1977کے انتخابات کے خلاف وہ دھول اچھالی گئی کہ دستور تو گرد آلود ہی ہو گیا جسے جنرل ضیا الحق نے حفاظت کے ساتھ طاق پر رکھ کر مارشل لا نافذ کر دیا۔ اور دستور بنانے والے قائد کو پھانسی دے کر پاکستانی منظر نامے میں خوں ریز سیاسی انتقام کی بنیاد ڈال دی۔ یہ واقعہ کہیے یا سانحہ پیدا انتخابات ہی کے بطن سے ہوا۔ نعرہ یہی لگایا گیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی بے ایمانی ہوئی۔ عوام کا مینڈیٹ چرایا گیا۔ اس کے بعد پھر جتنی بار انتخابات ہوئے الزامات لگائے جاتے رہے۔ عوام انتخابات کے نتائج پر کبھی مطمئن ہو کر یک سو اور متحد نہیں ہوئے۔

اب ایک بار پھر یہی منظر نامہ ابھر آیا ہے تو سیانے کی بات کچھ وزنی نظر آئی ہے تو پھر انتخابات اور پاکستان کے حوالے سے کیوں نہ کچھ خیال آرائی کریں۔ خواہ اس سے اختلاف ہو یا اس کا مذاق بنایا جائے، مگر ایسے حالات پیدا ہونے سے تو بہتر ہے جسے ہماری تجویز میں پیش کیا جائے گا۔ دیکھیے صاحب حق رائے دہی دو طرح کا ہوتا ہے ایک بالغ حق رائے دہی جسے جمہوریت کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔

کسی مملکت کے تمام باشندے کیوں کہ مساوی حقوق رکھتے ہیں لہٰذا انتخابات کے ذریعے حکومت میں برابری میں اکثریت کے ذریعے بنائی جائے تا کہ ابراہم لنکن کا یہ جملہ دہرایا جا سکے کہ حکومت عوام کی ہو عوام سے ہو، عوام کے لیے ہو۔ کس قدر خوش آہنگ قول ہے کہ جیسے جلترنگ بج رہی ہے۔ یہ تو Adult Franchise کے نتیجے میں کہا گیا ہے۔ دوسرا طریقہ محدود حق رائے دہی ہوتا ہے یعنی آڈلٹ کے بجائے لمیٹڈ۔ اس طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے برطانیہ نے ہندوستان میں پاکستان قائم ہونے کے لیے ووٹنگ کرائی جس کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔

جی ہاں 1945-46کے انتخابات جو پاکستان کے قیام کے لیے ہوئے تھے وہ عام بالغان کے لیے نہیں بلکہ چند شرطیں پوری کرنے والوں کو یہ حق تھا کہ وہ پاکستان کے حق میں یا خلاف رائے شماری میں حصہ لیں۔ شرطیں کچھ اس قسم کی تھیں۔ ووٹ دینے کا وہی اہل ہو گا جس کی جائیداد ہو یا انکم ٹیکس ادا کرتا ہو یا تعلیمی طور پر ایک معیار پر پورا اترتا ہو یا برادری کا سربراہ ہو اور معزز شخص ہو وغیرہ۔ ان میں سے کوئی ایک شرط پوری کرتا ہو۔ یہ چند شرطیں تھیں جس پر جو مسلمان پورے اترے انھوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ شرط پوری نہ کر سکنے والے انتخابات سے باہر رہے اور ان کی رائے کی کوئی وقعت نہیں تھی۔


اب اس محدود رائے دہی کا نتیجہ دیکھیے کہ اعتراضات ہونے کی شکایتیں ہوئیں۔ مشرقی پنجاب اور مغربی بنگال اسی انتخابات کے تحت کٹ گیا لیکن ٹھنڈے پیٹوں سب نے تسلیم کر لیا۔ ہم نے عالمی برادری میں معزز اور منصف بننے کے لیے پارلیمانی جمہوری طرز حکومت اختیار کر لیا حالانکہ باآسانی اشرافیہ طرز حکومت اختیار کر سکتے تھے جسے Aristocracy کہا جاتا ہے۔ محدود حق رائے دہی کو متعارف کراتے تو یہ اقلیت و اکثریت کا فرق بھی ختم ہو جاتا اور سکون کے ساتھ آبادی دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتی۔ ایک ووٹ دے کر حکومت بنانے اور حصہ لینے والے دوسرے ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے صرف حکومت کے جائز و نا جائز پر سیاسی سرگرمی کی ان لوگوں کو اجازت نہیں ہوتی۔

اس نظام کو اختیار کرنے سے پہلے نتیجہ تو یہ نکلتا کہ ووٹرز کی اتنی بڑی تعداد نہ ہوتی جس قدر اب ہے۔ کم تعداد کو انتخابات میں منصفانہ طور پر ہینڈل کرنا بھی آسان ہوتا۔ دوسرے الیکشن کمیشن کو بھی محدود تعداد میں افرادی قوت چاہیے ہوتی جو با آسانی حاصل ہو جاتی۔ لوگ سیاست میں وقت ضایع کرنے سے بھی بچ جاتے اور یہ وقت معاشی معاملات اور معاشی سرگرمیوں میں لگتا تو تبدیلی کے امکان بڑھ جاتے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کی شکایت کا بھی تدارک ہو جاتا جس میں وہ کہتے ہیں:

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

غالباً اسی لیے برطانیہ نے قیام پاکستان کے مسئلے میں تولنے کا عمل رائج کیا۔ چلیں اگر ہم اپنے اصل کی طرف رجوع نہیں کرتے ہیں تو کم ازکم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ امیدواروں کے ہی لیے شرائط لگا دی جائیں جیسے پرویز مشرف کے زمانے میں گریجویشن کی شرط لگائی گئی تھی۔ اس طرح کچھ شرطیں لگا کر ہر شخص کو ووٹ دینے کا حق ہو لیکن انتخاب میں حصہ لینے والا وہی مرد شریف ہو جو مطلوبہ شرائط پوری کرتا ہو۔ ذرا دیکھیے دنیا بھر میں اشراف کو عزت دی جاتی ہے تہذیب بھی ہے اور روایت بھی۔ ہاؤس آف لارڈز، راجیہ سبھا، سینیٹ وغیرہ کیا ہے یہ اشرافیہ کے مقام کو متعین کرنا ہے۔ پھر ہمارے معاشرے میں بھی اشراف سے مراد سردار، جاگیردار اور سرمایہ دار یا دولت مند لوگ ہی نہیں لیے جاتے، بلکہ مذہبی علما بلند مقام رکھتے ہیں۔ پیر، فقیر بھی جن کو آبادی کا ایک حصہ نہ صرف عزت دیتا ہے بلکہ ان کے لیے جان بھی دینے کو تیار رہتا ہے۔

اشرافیہ کا وہ مرتبہ جسے جمہوریت نے داغ دار کیا ہے اسے بحال کرانے کے لیے سیاستدانوں کو سوچنا پڑے گا۔ کسی بڑی کاوش کی ضرورت نہیں۔ دستور میں دو تہائی اکثریت سے ترمیم کی جا سکتی ہے جو اکیسویں ترمیم کہلائے گی جس کے بعد اشرافیہ کو معاشی بدحالی کا مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکے گا۔ اشرافیہ کے خلاف باتیں بھی قابل دست اندازی پولیس بن جائیں گی۔ دستوری طور پر اشرافیہ کا ایک منصب اور مقام متعین ہو جائے گا جو ابھی غیر رسمی طور پر موجود ہے ترمیم کے بعد رسمی طور پر اشرافیہ کو تسلیم کرنا ہو گا اور ان کے تسلیم شدہ مختص حقوق ہوں گے۔ اس طرح معاشرہ موجودہ قسم کے انتشار سے بچ سکے گا اور پھر کوئی سانحہ پیش آنے کا امکان بھی ختم ہو جائیں گے۔
Load Next Story