صرف دو سوال بھولے بھالے
سیاستدان اگر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کو قومی کھیل قرار دیتے تو بات سمجھ میں بھی آ جاتی۔۔۔۔
سیاستدان اگر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کو قومی کھیل قرار دیتے تو بات سمجھ میں بھی آ جاتی۔ لیکن اگر آپس کی جوتم پیزار کو ''جمہوریت کا حسن'' قرار دیتے ہیں تو پھر ریاستی وسائل کو استعمال کر کے سیاسی انتقام لینے کو ''جمہوریت کا پیار'' کہنا پڑے گا۔ اگر ایسے میں پاکستانی جمہوریت کے حسن اور پیار سے متاثر ہو کر کسی آمر کی نیت خراب ہو جائے تو قصور کس کا ہے؟
اس وقت ساری قوم اسلام آباد میں جاری آزادی اور انقلابی دھرنوں سے اظہار یک جہتی کی خاطر اپنے اپنے گھروں میں بال بچوں اور بزرگوں کے ساتھ ٹی وی کے سامنے دھرنا دیے بیٹھی ہے اور بیک وقت طاہر القادری اور عمران خان کی تقاریر میں ''جمہوریت کے حسن'' اور حکومتی اقدامات کے پردے میں ''جمہوریت کے پیار'' کا براہ راست مظاہرہ دیکھ رہی ہے۔ باقی ارکان اسمبلی یعنی کامیاب جمہوریت کے اسٹیک ہولڈرز حکومت کی ناکامی سے خوفزدہ، مراعات کے خطرے میں دیکھ کر حیران اور چلتی روزی کے بند ہونے سے پریشان بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں کہ خدانخواستہ جمہوریت کے ''حسن'' اور ''پیار'' کی اوور لوڈنگ (Over Loading) سے جمہوریت ریل کہیں ''ڈی ریل'' نہ ہو جائے۔
دوسری طرف طاہر القادری اور عمران خان عوام کو گھروں سے باہر نکلنے کی اپیلیں کر کے ہلکان ہو رہے ہیں لیکن عوام ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔ کیونکہ جب بھی وہ گھروں سے باہر نکلنے کا ارادہ باندھتے ہیں ان کی نظروں کے سامنے PNA کی تحریک کا انجام آ جاتا ہے جس میں قربانیاں تو عوام نے دیں لیکن ''ہٰذا من فضل ربی'' لیڈروں کا مقدر بنا۔ وہ دن اور آج کا دن عوام اب دھرنا دینے کے لیے نہیں بلکہ صرف بھنگڑا ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور بھنگڑا صرف اس وقت ڈالتے ہیں جب ان کو ''دو روٹی'' کا فائدہ نظر آتا ہے۔ ان کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ مردہ دوزخ میں جاتا ہے یا جنت میں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پچھلے کامیاب جمہوری عوامی ادوار میں آٹے کی قیمت آدھی ہو گئی تھی؟ کیوں نہیں ہوئی؟ کیا ملک زراعتی نہیں ہے؟ بارشیں نہیں ہو رہی ہیں؟ گندم سے گودام کے گودام بھرے ہوئے نہیں ہیں؟ جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس (یکم جون) کے مطابق ''عام آدمی کو تجاویز پر ہی ٹرخا دیا جاتا ہے۔ آٹا اور گندم ذخیرہ اور اسمگل کیا جاتا ہے لوگ بھوکے مر رہے ہیں کسی کو پرواہ نہیں۔''
علاوہ ازیں کیا 68 سال سے پچھلے کامیاب جمہوری ادوار میں ایوان جمہوریت کی بنیاد، شجر جمہوریت کی نرسری اور نوزائیدہ سیاستدانوں کا میٹرنٹی ہوم یعنی ضلعی حکومتوں کا بلدیاتی نظام آزادانہ، خود مختارانہ، غیر جانبدارانہ، مکمل آئینی اختیارات کے ساتھ کام کر رہا تھا؟ کیا اس کے بے تحاشا ترقیاتی فنڈز عوام کے درمیان رہائش پذیر، 24 گھنٹے ان کی نظروں کے سامنے رہنے والے منتخب کونسلروں کے توسط سے درسگاہوں اور اسپتالوں کی تعمیر و ترقی پر، سڑکوں پلوں وغیرہ کی تعمیر و مرمت پر، فراہمی و نکاسی آب کے منصوبوں پر بلا روک ٹوک خرچ ہو رہے تھے؟
ایک سابقہ وڈیرے وزیر اعظم دوسرے صنعتکار حاضر وزیر اعظم کی کارکردگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
(1)۔ سابق وزیر اعظم مسٹر بھٹو نے گھاس کھاکر بھی ایٹم بم بنانے کا تہیہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی وہیں سے آئی جہاں سے مسٹر بھٹو کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی آئی تھی۔
(2)۔ مغربی دنیا کی ساری ترقی شیخ چلی کا خواب ثابت ہوئی جب مسٹر بھٹو اور سعودی وزیر تیل زکی یمانی کے ذہن رسا نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا عملی مظاہرہ کیا۔
(3)۔ مغربی دنیا کی نیندیں حرام ہو گئیں جب شاہ فیصل کی سرپرستی میں پاکستان میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں ساری امت مسلمہ عربی و عجمی، ترکی و ہندی نے شرکت کی۔ لیکن افسوس کہ ایشیا کی لیڈرشپ کے خواب دیکھنے والا بھٹو اپنے اندر کے وڈیرے سے مات کھا گیا۔ عوام سے کٹ گیا۔ سولی پر چڑھ گیا۔ پھانسی کی رات سارا پاکستان جاگتا رہا لیکن گھر سے باہر ایک بھی نہ نکلا۔ کیوں؟
اس وقت ایک منجھے ہوئے صنعتکار میاں نواز شریف پاکستان کے (تیسری مرتبہ) وزیر اعظم ہیں۔ جو خنجراب سے گوادر تک اکنامک کوریڈور، صوبوں کو بندرگاہوں سے ملانے والے موٹرویز، میٹرو بس، بلٹ ٹرین، بجلی کی پیداوار کے میگا پراجیکٹ سے کم بات ہی نہیں کرتے۔ اس میں شک نہیں اگر یہ پانچ سال نکال لیں تو پاکستان میں تعلیم، تبدیلی اور ترقی میں بے تحاشا اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ابھی ڈیڑھ سال بھی نہیں گزرا وزارت عظمیٰ کی کرسی ڈانواں ڈول ہو رہی ہے۔
وجہ وہی پرانی ہے یعنی جمہوریت کے ''پیار'' کا بے دریغ استعمال۔ اس وقت اسلام آباد دھرنوں کی زد میں ہے۔ یہ مجمع جتنا بھی ہے توقع سے زیادہ ہے۔ 14 اگست سے سڑکوں پر ہے۔ آگ برساتا سورج، طوفانی بارشیں، آنسو گیس کے گولے، کھوپڑیوں پر لاٹھیاں سب بیکار جا رہی ہیں۔ یہ مجمع خطرناک ترین اس لیے ہے کہ اس میں معصوم بچے، خواتین، بزرگ بھی شامل ہیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی بڑا ناخوشگوار حادثہ پیش آ گیا تو نتائج کے ذمے دار میاں نواز شریف ہوں گے۔ جس طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن کی 14 لاشیں میاں شہباز شریف کے حلق میں اٹک گئی ہیں۔ نہ نگل سکتے ہیں نہ اگل سکتے ہیں۔
آخر میں صرف دو سوالات بھولے بھالے۔
پہلا سوال: کیا ایشیا کی لیڈر شپ کے امیدوار سابق وزیر اعظم زیڈ اے بھٹو میں اتنی صلاحیت نہیں تھی؟ یا پاکستان کے منجھے ہوئے صنعتکار حاضر وزیر اعظم میاں نوازشریف میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ گندم کی مصنوعی قلت کو ختم کر کے گندم کی قیمت آدھی کر دیتے اور ضلعی حکومتوں کے بلدیاتی نظام کو رواں دواں کر کے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کر دیتے؟ اس کے بعد بھلے بھٹو صاحب ایشیا کی لیڈر شپ سنبھال کر افرو ایشیائی اتحاد کے لیے کام کرتے یا روسی اور امریکی بلاک کے مقابل تیسری دنیا کا بلاک قائم کرنے کی کوشش کرتے۔ اسی طرح میاں نواز شریف اکنامک کوریڈور، موٹر ویز، میٹرو بس، بلٹ ٹرین، توانائی کے میگا پراجیکٹ وغیرہ کی تکمیل کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے۔
دوسرا سوال: فرض کریں کہ ایسا ہو جاتا۔ تو پھر بے ساختہ بلا سوچے سمجھے اس بات کا جواب دیجیے کہ ایسی صورت میں کسی مائی کے لال کی ہمت ہوتی کہ مسٹر بھٹو کو پھانسی دے یا میاں نواز شریف سے استعفیٰ طلب کرے؟ ساتھ ساتھ تھوڑا اس بات پر بھی غور کر لیں آخر کیوں؟
اس وقت ساری قوم اسلام آباد میں جاری آزادی اور انقلابی دھرنوں سے اظہار یک جہتی کی خاطر اپنے اپنے گھروں میں بال بچوں اور بزرگوں کے ساتھ ٹی وی کے سامنے دھرنا دیے بیٹھی ہے اور بیک وقت طاہر القادری اور عمران خان کی تقاریر میں ''جمہوریت کے حسن'' اور حکومتی اقدامات کے پردے میں ''جمہوریت کے پیار'' کا براہ راست مظاہرہ دیکھ رہی ہے۔ باقی ارکان اسمبلی یعنی کامیاب جمہوریت کے اسٹیک ہولڈرز حکومت کی ناکامی سے خوفزدہ، مراعات کے خطرے میں دیکھ کر حیران اور چلتی روزی کے بند ہونے سے پریشان بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں کہ خدانخواستہ جمہوریت کے ''حسن'' اور ''پیار'' کی اوور لوڈنگ (Over Loading) سے جمہوریت ریل کہیں ''ڈی ریل'' نہ ہو جائے۔
دوسری طرف طاہر القادری اور عمران خان عوام کو گھروں سے باہر نکلنے کی اپیلیں کر کے ہلکان ہو رہے ہیں لیکن عوام ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔ کیونکہ جب بھی وہ گھروں سے باہر نکلنے کا ارادہ باندھتے ہیں ان کی نظروں کے سامنے PNA کی تحریک کا انجام آ جاتا ہے جس میں قربانیاں تو عوام نے دیں لیکن ''ہٰذا من فضل ربی'' لیڈروں کا مقدر بنا۔ وہ دن اور آج کا دن عوام اب دھرنا دینے کے لیے نہیں بلکہ صرف بھنگڑا ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور بھنگڑا صرف اس وقت ڈالتے ہیں جب ان کو ''دو روٹی'' کا فائدہ نظر آتا ہے۔ ان کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ مردہ دوزخ میں جاتا ہے یا جنت میں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پچھلے کامیاب جمہوری عوامی ادوار میں آٹے کی قیمت آدھی ہو گئی تھی؟ کیوں نہیں ہوئی؟ کیا ملک زراعتی نہیں ہے؟ بارشیں نہیں ہو رہی ہیں؟ گندم سے گودام کے گودام بھرے ہوئے نہیں ہیں؟ جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس (یکم جون) کے مطابق ''عام آدمی کو تجاویز پر ہی ٹرخا دیا جاتا ہے۔ آٹا اور گندم ذخیرہ اور اسمگل کیا جاتا ہے لوگ بھوکے مر رہے ہیں کسی کو پرواہ نہیں۔''
علاوہ ازیں کیا 68 سال سے پچھلے کامیاب جمہوری ادوار میں ایوان جمہوریت کی بنیاد، شجر جمہوریت کی نرسری اور نوزائیدہ سیاستدانوں کا میٹرنٹی ہوم یعنی ضلعی حکومتوں کا بلدیاتی نظام آزادانہ، خود مختارانہ، غیر جانبدارانہ، مکمل آئینی اختیارات کے ساتھ کام کر رہا تھا؟ کیا اس کے بے تحاشا ترقیاتی فنڈز عوام کے درمیان رہائش پذیر، 24 گھنٹے ان کی نظروں کے سامنے رہنے والے منتخب کونسلروں کے توسط سے درسگاہوں اور اسپتالوں کی تعمیر و ترقی پر، سڑکوں پلوں وغیرہ کی تعمیر و مرمت پر، فراہمی و نکاسی آب کے منصوبوں پر بلا روک ٹوک خرچ ہو رہے تھے؟
ایک سابقہ وڈیرے وزیر اعظم دوسرے صنعتکار حاضر وزیر اعظم کی کارکردگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
(1)۔ سابق وزیر اعظم مسٹر بھٹو نے گھاس کھاکر بھی ایٹم بم بنانے کا تہیہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی وہیں سے آئی جہاں سے مسٹر بھٹو کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی آئی تھی۔
(2)۔ مغربی دنیا کی ساری ترقی شیخ چلی کا خواب ثابت ہوئی جب مسٹر بھٹو اور سعودی وزیر تیل زکی یمانی کے ذہن رسا نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا عملی مظاہرہ کیا۔
(3)۔ مغربی دنیا کی نیندیں حرام ہو گئیں جب شاہ فیصل کی سرپرستی میں پاکستان میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں ساری امت مسلمہ عربی و عجمی، ترکی و ہندی نے شرکت کی۔ لیکن افسوس کہ ایشیا کی لیڈرشپ کے خواب دیکھنے والا بھٹو اپنے اندر کے وڈیرے سے مات کھا گیا۔ عوام سے کٹ گیا۔ سولی پر چڑھ گیا۔ پھانسی کی رات سارا پاکستان جاگتا رہا لیکن گھر سے باہر ایک بھی نہ نکلا۔ کیوں؟
اس وقت ایک منجھے ہوئے صنعتکار میاں نواز شریف پاکستان کے (تیسری مرتبہ) وزیر اعظم ہیں۔ جو خنجراب سے گوادر تک اکنامک کوریڈور، صوبوں کو بندرگاہوں سے ملانے والے موٹرویز، میٹرو بس، بلٹ ٹرین، بجلی کی پیداوار کے میگا پراجیکٹ سے کم بات ہی نہیں کرتے۔ اس میں شک نہیں اگر یہ پانچ سال نکال لیں تو پاکستان میں تعلیم، تبدیلی اور ترقی میں بے تحاشا اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ابھی ڈیڑھ سال بھی نہیں گزرا وزارت عظمیٰ کی کرسی ڈانواں ڈول ہو رہی ہے۔
وجہ وہی پرانی ہے یعنی جمہوریت کے ''پیار'' کا بے دریغ استعمال۔ اس وقت اسلام آباد دھرنوں کی زد میں ہے۔ یہ مجمع جتنا بھی ہے توقع سے زیادہ ہے۔ 14 اگست سے سڑکوں پر ہے۔ آگ برساتا سورج، طوفانی بارشیں، آنسو گیس کے گولے، کھوپڑیوں پر لاٹھیاں سب بیکار جا رہی ہیں۔ یہ مجمع خطرناک ترین اس لیے ہے کہ اس میں معصوم بچے، خواتین، بزرگ بھی شامل ہیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی بڑا ناخوشگوار حادثہ پیش آ گیا تو نتائج کے ذمے دار میاں نواز شریف ہوں گے۔ جس طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن کی 14 لاشیں میاں شہباز شریف کے حلق میں اٹک گئی ہیں۔ نہ نگل سکتے ہیں نہ اگل سکتے ہیں۔
آخر میں صرف دو سوالات بھولے بھالے۔
پہلا سوال: کیا ایشیا کی لیڈر شپ کے امیدوار سابق وزیر اعظم زیڈ اے بھٹو میں اتنی صلاحیت نہیں تھی؟ یا پاکستان کے منجھے ہوئے صنعتکار حاضر وزیر اعظم میاں نوازشریف میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ گندم کی مصنوعی قلت کو ختم کر کے گندم کی قیمت آدھی کر دیتے اور ضلعی حکومتوں کے بلدیاتی نظام کو رواں دواں کر کے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کر دیتے؟ اس کے بعد بھلے بھٹو صاحب ایشیا کی لیڈر شپ سنبھال کر افرو ایشیائی اتحاد کے لیے کام کرتے یا روسی اور امریکی بلاک کے مقابل تیسری دنیا کا بلاک قائم کرنے کی کوشش کرتے۔ اسی طرح میاں نواز شریف اکنامک کوریڈور، موٹر ویز، میٹرو بس، بلٹ ٹرین، توانائی کے میگا پراجیکٹ وغیرہ کی تکمیل کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے۔
دوسرا سوال: فرض کریں کہ ایسا ہو جاتا۔ تو پھر بے ساختہ بلا سوچے سمجھے اس بات کا جواب دیجیے کہ ایسی صورت میں کسی مائی کے لال کی ہمت ہوتی کہ مسٹر بھٹو کو پھانسی دے یا میاں نواز شریف سے استعفیٰ طلب کرے؟ ساتھ ساتھ تھوڑا اس بات پر بھی غور کر لیں آخر کیوں؟