قائداعظم اور ’قرآنی نظام‘ پر مبنی پاکستان
قوم میں نا اتفاقی، صوبائیت، لسانیت اور فرقہ واریت کا زہر کوٹ کوٹ کر بھرا گیا۔۔۔
دس اگست1947کو کراچی کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے لیے لیاقت علی خان کی تجویز اور خواجہ ناظم الدین کی تائید پر اسمبلی کے غیر مسلم رکن جوگندر ناتھ منڈل کو عارضی طور پر صدر منتخب کیا گیا اور ان کی تقریر کے بعد اراکین اسمبلی نے اپنی اسناد رکنیت پیش کر کے اسمبلی کے رجسٹر پر دستخط کیے، اگلے دن دستور ساز اسمبلی کے دوبارہ اجلاس میں قائد ایوان کے لیے سات اراکین نے قائد اعظم محمد علی جناح کو نامزد اور دیگر سات اراکین نے ان کی نامزدگی کی تائید کی۔
جوگندر ناتھ منڈل نے اعلان کیا کہ کاغذات نامزدگی درست ہیں اور قائد اعظم کے مقابلے میں کوئی دوسرا امیداوار نہیں ہے اس لیے قائد اعظم محمد علی جناح کو متفقہ طور پر دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ قائد اعظم کے قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد لیاقت علی خان، کرن شنکر رائے، ایوب کھوڑو، جوگندر ناتھ منڈل اور ابوالقاسم نے تہینتی تقاریر کیں۔ امریکا اور آسٹریلیا کی جانب سے مبارکباد کے پیغامات بھی پڑھ کر سنائے گئے۔ اس تاریخی اجلاس سے قائد اعظم محمد علی جناح نے جس وقت خطاب کیا تو وہ ملک کے نامزد سربراہ بھی تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب صدر اور بابائے قوم بھی تھے۔
11 اگست کی اس تاریخی تقریر کے ایک اقتباس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے سے پاکستان کی اساس پر سوالیہ نشان پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان، اسلامی نظریہ حیات کے بجائے ایک سیکولر اسٹیٹ کے طور پر بنا۔ قائد اعظم کی تمام تقریر کو چھوڑ کر یہ اقتباس لیا جاتا ہے کہ ''اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اکثر یت اور اقلیت، ہندو فرقہ اور مسلمان فرقے کے چند در چند زاوئیے معدوم ہو جائیں گے۔ اب آپ آزاد ہیں، اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں، آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔'' سیکولر اسٹیٹ کے نام لیوا اس اقتباس کا سہارا لے کر نظریہ پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح کی سیکڑوں تقاریر کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس میں پاکستان کے قیام کا مقصد اسلامی نظام تھا۔
قوم میں نا اتفاقی، صوبائیت، لسانیت اور فرقہ واریت کا زہر کوٹ کوٹ کر بھرا گیا، ملک دو لخت ہو گیا لیکن مفاد پرستوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگی، باقی ماندہ پاکستان کو حصے بخرے کرنے کے لیے ہر سطح پر سازشیں کی جا تی رہیں، جن کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ کچھ عناصر اپنے مسلک کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو کوئی فرقہ واریت کا سہارا لے کر متشدد ہو رہے ہیں، کوئی لسانیت کے نام پر اچھل رہا ہے تو کوئی قومیت، نسل پرستی کے نام پر پاکستان پر اپنا حق جتا کر دوسری اکائیوں کو ملک دشمن بنانے کی تگ و دو میں ہے۔
11 اگست1947 کو اسی دستور ساز اسمبلی میں قائد اعظم نے مستقبل کا یہ نقشہ بتا دیا تھا، انھوں نے کہا تھا کہ ''جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان میں بھی تو پٹھان، پنجابی، شیعہ اور سنی وغیرہ وغیرہ موجود ہیں، اس طرح ہندوؤں میں بھی برہمن، ویش، کھتری ہیں اور بنگالی، مدارسی ہیں، سچ پوچھیں تو یہی چیزیں ہندوستان کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ تھیں اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہو گئے ہوتے۔ گیارہ اگست1947کی اس خطاب میں جو حصہ نظریہ پاکستان کے مخالف استعمال کرتے ہیں ''جیسے جسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان، مسلمان۔'' اس کے بعد قائد اعظم کے اُن حصوں سے عوام کو آگاہ نہیں کیا جاتا کہ انھوں ایسا کیوں کہا، انھوں نے کہا تھا کہ ''مذہبی اعتبار سے نہیں، کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے'' قائد اعظم نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے جب خطاب کیا تو انھوں نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ ''حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تا کہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل تحفظ دے سکے۔''
امن و امان کے بعد انھوں نے رشوت ستانی اور بد عنوانی کو بڑی لعنت قرار دیتے ہوئے ایسے زہر قرار دیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ اس لعنت کا نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کر دینا چاہیے۔ تیسرے اہم نقطے میں قائد اعظم نے جس قومی برائی کی نشاندہی کی وہ چور بازاری کی لعنت کو معاشرے کا سب سے بڑا جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''جب کوئی شہری چور بازاری کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ بڑے سے بڑے جرم سے بھی زیادہ گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔'' قائد اعظم آنے والے حالات اور تقسیم ہندوستان کے بعد کے مسائل سے کماحقہ آگاہ تھے اس لیے نئے پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے انسانی و مذہبی حقوق کے تحفظ کو مملکت کی ذمے داری اس لیے قرار دیا کیونکہ بھارت میں بھی مسلمان اقلیت میں تھے اور ہندو ان کے ساتھ اور بُرا سلوک کرتے اس لیے انھوں نے سب سے پہلے پاکستانی ہندوؤں اور اقلیتوں کو مکمل تحفظ کا یقین دلایا، جیسے پاکستان دشمن عناصر نے دوسرے معنوں میں لے کر نظریہ پاکستان اور اساس کو ہی مشکوک بنانے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔
نظریہ پاکستان کیا تھا ایسے خود ہندو قوم پرست بتاتے ہیں۔ یکم نومبر 1941 کو لدھیانہ میں اکھنڈ بھارت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت ہندوؤں کے مشہور رہنما ء مسٹر منشی نے کی۔ انھوں نے کہا ''تمھیں معلوم بھی ہے کہ پاکستان ہے کیا؟، نہیں معلوم تو سن لیجیے کہ پاکستان کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس کا حق حاصل ہے کہ وہ ملک کے ایک یا ایک سے زیادہ علاقوں میں اپنے لیے ایسے مسکن بنا لیں جہاں طرز حکومت ''قرآنی اصولوں'' کے ڈھانچے میں ڈھل سکے اور جہاں 'اردو' ان کی قومی زبان بن سکے، مختصرا یوں سمجھیے کہ پاکستان مسلمانوں کا ایک ایسا خطہ ارض ہو گا جہاں اسلامی حکومت ہو گی۔)ٹریبیون 2 نومبر1941) ۔
1936 سے 1938تک سر اقبال نے جتنے مکتوب جناح کو بھیجے ہیں اس میں بھی دو قومی نظریے کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ محمد علی جناح خود دو قومی نظریے کے سب سے بڑے حامی تھے انھوں نے نہ صرف آل انڈیا نیشنل کانگریس کی تاحیات صدر بننے کی پیش کش کو مسترد کیا بلکہ علمائے دیو بند اور مسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی مخالفت بھی مول لی اور اسی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا۔ قائد اعظم کے نظریات وہی ہیں جو اسلام کے ہیں۔ اسلام تمام مذاہب کا احترام، عبادات کی مکمل آزادی، تفرقوں سے نفرت اور امن و سلامتی کا درس دیتا ہے تاریخی طور پر تو جنگ آزادی1857کے دس سال بعد 1867میں سید احمد خان نے اردو، ہندی جھگڑے کے باعث ہندو، مسلم علیحدہ علیحدہ اور کامل قوموں کا نظریہ پیش کر دیا تھا۔ یہ نظریہ انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے والوں کے لیے دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا اور پاکستان کی تخلیق کے لیے اس نظریہ کو اخذ کر کے 1947میں پاکستان کو ہندوستان سے الگ مملکت میں ڈھالا گیا۔ حیدر آباد (دکن) میں عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبا کو 1941 میں کچھ یوں بیان کیا کہ جس کے بعد کچھ اور کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
جوگندر ناتھ منڈل نے اعلان کیا کہ کاغذات نامزدگی درست ہیں اور قائد اعظم کے مقابلے میں کوئی دوسرا امیداوار نہیں ہے اس لیے قائد اعظم محمد علی جناح کو متفقہ طور پر دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ قائد اعظم کے قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد لیاقت علی خان، کرن شنکر رائے، ایوب کھوڑو، جوگندر ناتھ منڈل اور ابوالقاسم نے تہینتی تقاریر کیں۔ امریکا اور آسٹریلیا کی جانب سے مبارکباد کے پیغامات بھی پڑھ کر سنائے گئے۔ اس تاریخی اجلاس سے قائد اعظم محمد علی جناح نے جس وقت خطاب کیا تو وہ ملک کے نامزد سربراہ بھی تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب صدر اور بابائے قوم بھی تھے۔
11 اگست کی اس تاریخی تقریر کے ایک اقتباس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے سے پاکستان کی اساس پر سوالیہ نشان پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان، اسلامی نظریہ حیات کے بجائے ایک سیکولر اسٹیٹ کے طور پر بنا۔ قائد اعظم کی تمام تقریر کو چھوڑ کر یہ اقتباس لیا جاتا ہے کہ ''اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اکثر یت اور اقلیت، ہندو فرقہ اور مسلمان فرقے کے چند در چند زاوئیے معدوم ہو جائیں گے۔ اب آپ آزاد ہیں، اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں، آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔'' سیکولر اسٹیٹ کے نام لیوا اس اقتباس کا سہارا لے کر نظریہ پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح کی سیکڑوں تقاریر کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس میں پاکستان کے قیام کا مقصد اسلامی نظام تھا۔
قوم میں نا اتفاقی، صوبائیت، لسانیت اور فرقہ واریت کا زہر کوٹ کوٹ کر بھرا گیا، ملک دو لخت ہو گیا لیکن مفاد پرستوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگی، باقی ماندہ پاکستان کو حصے بخرے کرنے کے لیے ہر سطح پر سازشیں کی جا تی رہیں، جن کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ کچھ عناصر اپنے مسلک کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو کوئی فرقہ واریت کا سہارا لے کر متشدد ہو رہے ہیں، کوئی لسانیت کے نام پر اچھل رہا ہے تو کوئی قومیت، نسل پرستی کے نام پر پاکستان پر اپنا حق جتا کر دوسری اکائیوں کو ملک دشمن بنانے کی تگ و دو میں ہے۔
11 اگست1947 کو اسی دستور ساز اسمبلی میں قائد اعظم نے مستقبل کا یہ نقشہ بتا دیا تھا، انھوں نے کہا تھا کہ ''جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان میں بھی تو پٹھان، پنجابی، شیعہ اور سنی وغیرہ وغیرہ موجود ہیں، اس طرح ہندوؤں میں بھی برہمن، ویش، کھتری ہیں اور بنگالی، مدارسی ہیں، سچ پوچھیں تو یہی چیزیں ہندوستان کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ تھیں اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہو گئے ہوتے۔ گیارہ اگست1947کی اس خطاب میں جو حصہ نظریہ پاکستان کے مخالف استعمال کرتے ہیں ''جیسے جسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان، مسلمان۔'' اس کے بعد قائد اعظم کے اُن حصوں سے عوام کو آگاہ نہیں کیا جاتا کہ انھوں ایسا کیوں کہا، انھوں نے کہا تھا کہ ''مذہبی اعتبار سے نہیں، کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے'' قائد اعظم نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے جب خطاب کیا تو انھوں نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ ''حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تا کہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل تحفظ دے سکے۔''
امن و امان کے بعد انھوں نے رشوت ستانی اور بد عنوانی کو بڑی لعنت قرار دیتے ہوئے ایسے زہر قرار دیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ اس لعنت کا نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کر دینا چاہیے۔ تیسرے اہم نقطے میں قائد اعظم نے جس قومی برائی کی نشاندہی کی وہ چور بازاری کی لعنت کو معاشرے کا سب سے بڑا جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''جب کوئی شہری چور بازاری کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ بڑے سے بڑے جرم سے بھی زیادہ گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔'' قائد اعظم آنے والے حالات اور تقسیم ہندوستان کے بعد کے مسائل سے کماحقہ آگاہ تھے اس لیے نئے پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے انسانی و مذہبی حقوق کے تحفظ کو مملکت کی ذمے داری اس لیے قرار دیا کیونکہ بھارت میں بھی مسلمان اقلیت میں تھے اور ہندو ان کے ساتھ اور بُرا سلوک کرتے اس لیے انھوں نے سب سے پہلے پاکستانی ہندوؤں اور اقلیتوں کو مکمل تحفظ کا یقین دلایا، جیسے پاکستان دشمن عناصر نے دوسرے معنوں میں لے کر نظریہ پاکستان اور اساس کو ہی مشکوک بنانے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔
نظریہ پاکستان کیا تھا ایسے خود ہندو قوم پرست بتاتے ہیں۔ یکم نومبر 1941 کو لدھیانہ میں اکھنڈ بھارت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت ہندوؤں کے مشہور رہنما ء مسٹر منشی نے کی۔ انھوں نے کہا ''تمھیں معلوم بھی ہے کہ پاکستان ہے کیا؟، نہیں معلوم تو سن لیجیے کہ پاکستان کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس کا حق حاصل ہے کہ وہ ملک کے ایک یا ایک سے زیادہ علاقوں میں اپنے لیے ایسے مسکن بنا لیں جہاں طرز حکومت ''قرآنی اصولوں'' کے ڈھانچے میں ڈھل سکے اور جہاں 'اردو' ان کی قومی زبان بن سکے، مختصرا یوں سمجھیے کہ پاکستان مسلمانوں کا ایک ایسا خطہ ارض ہو گا جہاں اسلامی حکومت ہو گی۔)ٹریبیون 2 نومبر1941) ۔
1936 سے 1938تک سر اقبال نے جتنے مکتوب جناح کو بھیجے ہیں اس میں بھی دو قومی نظریے کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ محمد علی جناح خود دو قومی نظریے کے سب سے بڑے حامی تھے انھوں نے نہ صرف آل انڈیا نیشنل کانگریس کی تاحیات صدر بننے کی پیش کش کو مسترد کیا بلکہ علمائے دیو بند اور مسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی مخالفت بھی مول لی اور اسی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا۔ قائد اعظم کے نظریات وہی ہیں جو اسلام کے ہیں۔ اسلام تمام مذاہب کا احترام، عبادات کی مکمل آزادی، تفرقوں سے نفرت اور امن و سلامتی کا درس دیتا ہے تاریخی طور پر تو جنگ آزادی1857کے دس سال بعد 1867میں سید احمد خان نے اردو، ہندی جھگڑے کے باعث ہندو، مسلم علیحدہ علیحدہ اور کامل قوموں کا نظریہ پیش کر دیا تھا۔ یہ نظریہ انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے والوں کے لیے دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا اور پاکستان کی تخلیق کے لیے اس نظریہ کو اخذ کر کے 1947میں پاکستان کو ہندوستان سے الگ مملکت میں ڈھالا گیا۔ حیدر آباد (دکن) میں عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبا کو 1941 میں کچھ یوں بیان کیا کہ جس کے بعد کچھ اور کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔