جمود کا شکار معیشت کو نچوڑیں تو مزید 4 پیسے نکل آئیں گے مگر معاشی ترقی ممکن نہیںچیئرمین ایف بی آر
ریفنڈز باری آنے پر ادا کیے جا رہے ہیں، ٹیکس گزاروں کو مراعات اورنادہندگان سے زائد شرح سے ٹیکس لیں گے، طارق باجوہ
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین محمد طارق باجوہ نے کہا ہے کہ ہمارے محاصل حکومتی روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی ہیں اسی لیے حکومت کو اخراجات کے لیے قرضہ لینا پڑتا ہے۔
بجٹ میں سب سے زیادہ خرچ 34 یا 35 فیصد صرف قرضوں کی مد میں ہوتا ہے، ٹیکس گزاروں کے لیے نادرا کی مدد سے ٹیکس پیئر کارڈ بنا کر دیں گے اور انہیں مالیاتی و مراعاتی فوائد دیں گے، ٹیکس گزاروں پر ٹیکسوں کی شرح بتدریج کم جبکہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں پر ٹیکسوں کی شرح بڑھائیں گے اور ان سے ٹیکس بھی وصول کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ماڈل کسٹم کلکٹریٹ میں نئی تعمیر شدہ عمارت کی افتتاحی تقریب، ایوان تجارت و صنعت ملتان اور پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے اراکین سے الگ الگ خطاب میں کیا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اگر جمود کا شکار معیشت کو نچوڑیں تو 4 پیسے مزید نکل آئیں گے مگر معاشی ترقی ممکن نہیں، ملکی معیشت کی ترقی سے قرضوں کا بوجھ بھی کم ہو گا، لاکھوں کروڑوں افراد جو اس وقت ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لائیں گے، ٹیکس پیئر کارڈ ہولڈر کو زمین، گاڑیوں کی خریداری و دیگر معاملات میں مراعات ملیں گی جو لوگ ٹیکس دیں گے ان کے کاروباری اخراجات بھی کم کرائیں گے جو ٹیکس نہیں دیں گے ان کے کاروباری اخراجات میں اضافہ ہوتا جائے گا، 100 بڑے ٹیکس گزاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے وزیراعظم نے انہیں سرٹیفکیٹ دیے ہیں، ٹیکس گزار بھی ٹیکس پیئر کارڈ ہولڈر کو مزید مراعات کی فراہمی کے بارے میں تجاویز دیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدیں بہت طویل ہیں، سرحدوں پر جو صورتحال ہے وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اسمگلنگ کو سرحدوں پر جا کر روکیں، اس کے لیے اینٹی اسمگلنگ اور کسٹم انٹیلی جنس کو فعال کردار ادا کرنا ہو گا، ایف بی آر میں سیاسی مداخلت ختم کر دی گئی ہے، ملتان انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے فعال ہونے اور ریلوے ڈرائی پورٹ کے قیام میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے متعلقہ حکام سے بات کریں گے۔
کسٹم کا شعبہ ریونیو وصولیوں میں اہم کردار ادا کر رہا ہے جس کا شیئر 11 فیصد ہے جبکہ امپورٹ سطح پر ریونیو کے حوالے سے یہ حصہ 40 فیصد تک ہے، یہ شعبہ معاشی سرحدوں کا بھی محافظ ہے، کسٹم حکام اسمگلرز سے دو قدم آگے بڑھ کر کام کریں، یکم جولائی 2014 سے لیکر اب تک 35 ہزار نئے ٹیکس گزار سامنے آئے ہیں، ہر ماہ ٹیکس پیئر لسٹ اپ ڈیٹ کریں گے، ٹیکس ریفارمز کمیشن بنا رہے ہیں جس میں موجودہ سیاسی حالات کی وجہ سے تھوڑی تاخیر ہو گئی ہے، یہ کمیشن ٹیکس اصلاحات لائے گا جس میں چیمبرز آف کامرس کو بھی نمائندگی دیں گے، کمیشن کی سفارشات پر ٹیکس پالیسیاں بنائی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہر کسی کو اس کی باری پر ریفنڈز ادا کیے جا رہے ہیں، 30 ستمبر 2014 تک ٹیکسٹائل سیکٹر کے تمام ریفنڈز واپس کر دیں گے، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرینورز کے 10 لاکھ روپے تک کے ریفنڈ کیس کلیئر کر دیے ہیں، ایف بی آر جو محاصل اکٹھے کرتا ہے اس سے ساڑھے 57 فیصد صوبوں کو دے دیتے ہیں، اسمگلنگ کی روک تھام کیلیے سخت اور یومیہ بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنولہ پر 5 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے معاملے پر پی سی جی اے اور آئل ملز ایسوسی ایشن کا وفد ان سے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں ملاقات کیلیے آئے۔
بجٹ میں سب سے زیادہ خرچ 34 یا 35 فیصد صرف قرضوں کی مد میں ہوتا ہے، ٹیکس گزاروں کے لیے نادرا کی مدد سے ٹیکس پیئر کارڈ بنا کر دیں گے اور انہیں مالیاتی و مراعاتی فوائد دیں گے، ٹیکس گزاروں پر ٹیکسوں کی شرح بتدریج کم جبکہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں پر ٹیکسوں کی شرح بڑھائیں گے اور ان سے ٹیکس بھی وصول کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ماڈل کسٹم کلکٹریٹ میں نئی تعمیر شدہ عمارت کی افتتاحی تقریب، ایوان تجارت و صنعت ملتان اور پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے اراکین سے الگ الگ خطاب میں کیا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اگر جمود کا شکار معیشت کو نچوڑیں تو 4 پیسے مزید نکل آئیں گے مگر معاشی ترقی ممکن نہیں، ملکی معیشت کی ترقی سے قرضوں کا بوجھ بھی کم ہو گا، لاکھوں کروڑوں افراد جو اس وقت ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لائیں گے، ٹیکس پیئر کارڈ ہولڈر کو زمین، گاڑیوں کی خریداری و دیگر معاملات میں مراعات ملیں گی جو لوگ ٹیکس دیں گے ان کے کاروباری اخراجات بھی کم کرائیں گے جو ٹیکس نہیں دیں گے ان کے کاروباری اخراجات میں اضافہ ہوتا جائے گا، 100 بڑے ٹیکس گزاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے وزیراعظم نے انہیں سرٹیفکیٹ دیے ہیں، ٹیکس گزار بھی ٹیکس پیئر کارڈ ہولڈر کو مزید مراعات کی فراہمی کے بارے میں تجاویز دیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدیں بہت طویل ہیں، سرحدوں پر جو صورتحال ہے وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اسمگلنگ کو سرحدوں پر جا کر روکیں، اس کے لیے اینٹی اسمگلنگ اور کسٹم انٹیلی جنس کو فعال کردار ادا کرنا ہو گا، ایف بی آر میں سیاسی مداخلت ختم کر دی گئی ہے، ملتان انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے فعال ہونے اور ریلوے ڈرائی پورٹ کے قیام میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے متعلقہ حکام سے بات کریں گے۔
کسٹم کا شعبہ ریونیو وصولیوں میں اہم کردار ادا کر رہا ہے جس کا شیئر 11 فیصد ہے جبکہ امپورٹ سطح پر ریونیو کے حوالے سے یہ حصہ 40 فیصد تک ہے، یہ شعبہ معاشی سرحدوں کا بھی محافظ ہے، کسٹم حکام اسمگلرز سے دو قدم آگے بڑھ کر کام کریں، یکم جولائی 2014 سے لیکر اب تک 35 ہزار نئے ٹیکس گزار سامنے آئے ہیں، ہر ماہ ٹیکس پیئر لسٹ اپ ڈیٹ کریں گے، ٹیکس ریفارمز کمیشن بنا رہے ہیں جس میں موجودہ سیاسی حالات کی وجہ سے تھوڑی تاخیر ہو گئی ہے، یہ کمیشن ٹیکس اصلاحات لائے گا جس میں چیمبرز آف کامرس کو بھی نمائندگی دیں گے، کمیشن کی سفارشات پر ٹیکس پالیسیاں بنائی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہر کسی کو اس کی باری پر ریفنڈز ادا کیے جا رہے ہیں، 30 ستمبر 2014 تک ٹیکسٹائل سیکٹر کے تمام ریفنڈز واپس کر دیں گے، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرینورز کے 10 لاکھ روپے تک کے ریفنڈ کیس کلیئر کر دیے ہیں، ایف بی آر جو محاصل اکٹھے کرتا ہے اس سے ساڑھے 57 فیصد صوبوں کو دے دیتے ہیں، اسمگلنگ کی روک تھام کیلیے سخت اور یومیہ بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنولہ پر 5 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے معاملے پر پی سی جی اے اور آئل ملز ایسوسی ایشن کا وفد ان سے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں ملاقات کیلیے آئے۔