پاکستان ایک ںظر میں سیلاب تو پچھلے سال بھی آیا تھا
جب تک ’’ میری پارٹی میرے صوبے میرا مسلک میرا پیر‘‘ کا طرزعمل چلتا رہے میرا خیال ہے کہ سیلاب بھی آتے ہی رہیں گے۔
KUALA LUMPUR:
سیلاب پچھلے سال بھی آیا تھا اور اُس سے پچھلے سال بھی
اورحالات اور تیاریاں دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ اگلے سال بھی آئے گا ۔
جس نریندر مودی کی والدہ کو حکومت نے ساڑھیاں گفٹ کیں
جن سے کاروبار کی خاطر بھاشا ڈیم کو 2037 تک ملتوی کیا
وہ ہرسال ہزاروں کیوسک پانی چھوڑتے ہیں ۔
کسی دور میں اس سیلاب سے بچنے کے لیے بڑے بڑے نالے ہوا کرتے تھے
شلوار میں ڈالنے والے نالے نہیں
وہ نالے جن میں پانی بہتا ہے ۔
لیکن سنا ان پہ قبضہ مافیا نے قبضہ کرکے ختم کردیا
ادھر کالونیاں بن گئیں
سیلاب کے آنے سے کئی دن پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ سیلاب آنے کا خدشہ ہے
پاکستان عوام کے ٹیکیسوں سے چلنے والے بے شمار ادارے بشمول '' کرائسس منیجمنٹ ''
ہیں جن کا کام ہی جدید سائنسی آلات سے قدرتی آفات کا آنے سے پہلے ادراک کرنا ۔
لیکن سیلاب آیا تو سوائے فوج کے کوئی ادارہ نظر نہیں آیا
سوائے وزیراعظم کی ہیلی کاپٹر والی ایک تصویر کے
یا لکشمی چوک کے پانی میں واٹر پروف جوتے پہنے قوم کا ایک خادم
جو چھ سال پہلے بھی اسی جگہ کھڑا تھا جس کے بارے میں سینکڑوں اشتہارات
چھپوا کر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ یہ '' گڈ گورننس '' کی اعلی مثال ہے ۔
جس خاندان کی پچھلے اکتیس برس سے پنجاب پر حکومت ہے
وہ اتنا نہیں کرسکے کہ لاہور کا سیوریج سسٹم ہی ٹھیک کروالیں
آخر وہ قرضے کہاں ہیں جو ان حکمرانوں نے کے قوم کے روشن مستقبل کیلیے لیے ہیں؟
پوچھوں گا تو لوگ عمران خان کا حمایتی یا ڈاکٹر قادری کا انقلابی قرار دے دیں گے ۔
کچھ عظیم دماغ مشورہ دے رہے ہیں کہ عمران خان اور ڈاکٹر قادری سیلاب زدگان کی مدد کے لیے روانہ ہو جائیں ۔
اگر چہ انکی ٹیمیں گئی بھی ہیں
مگر اگلے سال پھر سیلاب آئے گا اسکا کیا کرو گے ؟
ہندوستان سے بات کرنہیں سکتے حکومت کا باڈر پار کاروبار متاثر ہوگا
ڈیم بنانا نہیں ہے اسکے لیے حوصلہ چاہیئے کیونکہ ڈیم اگلی حکومت کے دور میں مکمل ہوگا تو اخبارات میں اشتہارات کیسے چھپوائیں گے
حکومتی ادارے کہاں ہیں ؟ بیرونی ممالک سے لیے گئے بھاری قرضے کہاں ہیں ؟
یہ عذاب کی نشانیاں ہیں اس قوم نے جو نعمت خداوندی '' پاکستان '' کے ساتھ جو کیا اسکی تو سزا ملے گی ۔ چھ سو خاندان اس ملک کو چوستے رہے مگر عوام کو ہوش نہ آئی ۔
پاکستان کو تو کچھ نہیں ہوگا
لیکن پاکستانی اپنی خیر منائیں
ظالم کے خلاف چپ رہنے والے گونگے شیطان کہلاتے ہیں
جب عذاب آتے ہیں تب تو '' اچھے '' بھی نہیں بچتے ادھر تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے
عمران خان اور ڈاکٹر قادری اس قوم کے لیے آخری حجت تھے کہ ظلم کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہو جاو
مگر کسی کو عمران خان سے نفرت ہے تو کسی کو ڈاکٹر قادری کے '' مسلک '' سے اختلاف
قوم اتنی تقسیم ہوچکی ہے کہ ہر کسی نے اپنے '' بت '' بنا رکھے ہیں
جب تک '' میری پارٹی میرے صوبے میرا مسلک میرا پیر'' یہی بات نہیں کریے گا میں نہیں مانو گا
نہ مانو نہ کرو
مگر وارننگ آچکی
صفائی تو ہونی ہے
لڑائی تو شروع ہوچکی
ایک وہ جن کے دماغ بند ہو چکے ہیں اور غلامی کے اندھیروں سے نکل کر انکی زندگی عذاب ہو جائے گی
اور دوسرے پاکستان پہ مسلط چھ سو خاندان اور انکے چیلے چانٹے
وقت کا تقاضا ہے
رات کے بعد دن چڑھنا لازمی ہے
روشنی پھیل رہی ہے بڑھ رہی ہے
بس اعلان باقی ہے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
سیلاب پچھلے سال بھی آیا تھا اور اُس سے پچھلے سال بھی
اورحالات اور تیاریاں دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ اگلے سال بھی آئے گا ۔
جس نریندر مودی کی والدہ کو حکومت نے ساڑھیاں گفٹ کیں
جن سے کاروبار کی خاطر بھاشا ڈیم کو 2037 تک ملتوی کیا
وہ ہرسال ہزاروں کیوسک پانی چھوڑتے ہیں ۔
کسی دور میں اس سیلاب سے بچنے کے لیے بڑے بڑے نالے ہوا کرتے تھے
شلوار میں ڈالنے والے نالے نہیں
وہ نالے جن میں پانی بہتا ہے ۔
لیکن سنا ان پہ قبضہ مافیا نے قبضہ کرکے ختم کردیا
ادھر کالونیاں بن گئیں
سیلاب کے آنے سے کئی دن پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ سیلاب آنے کا خدشہ ہے
پاکستان عوام کے ٹیکیسوں سے چلنے والے بے شمار ادارے بشمول '' کرائسس منیجمنٹ ''
ہیں جن کا کام ہی جدید سائنسی آلات سے قدرتی آفات کا آنے سے پہلے ادراک کرنا ۔
لیکن سیلاب آیا تو سوائے فوج کے کوئی ادارہ نظر نہیں آیا
سوائے وزیراعظم کی ہیلی کاپٹر والی ایک تصویر کے
یا لکشمی چوک کے پانی میں واٹر پروف جوتے پہنے قوم کا ایک خادم
جو چھ سال پہلے بھی اسی جگہ کھڑا تھا جس کے بارے میں سینکڑوں اشتہارات
چھپوا کر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ یہ '' گڈ گورننس '' کی اعلی مثال ہے ۔
جس خاندان کی پچھلے اکتیس برس سے پنجاب پر حکومت ہے
وہ اتنا نہیں کرسکے کہ لاہور کا سیوریج سسٹم ہی ٹھیک کروالیں
آخر وہ قرضے کہاں ہیں جو ان حکمرانوں نے کے قوم کے روشن مستقبل کیلیے لیے ہیں؟
پوچھوں گا تو لوگ عمران خان کا حمایتی یا ڈاکٹر قادری کا انقلابی قرار دے دیں گے ۔
کچھ عظیم دماغ مشورہ دے رہے ہیں کہ عمران خان اور ڈاکٹر قادری سیلاب زدگان کی مدد کے لیے روانہ ہو جائیں ۔
اگر چہ انکی ٹیمیں گئی بھی ہیں
مگر اگلے سال پھر سیلاب آئے گا اسکا کیا کرو گے ؟
ہندوستان سے بات کرنہیں سکتے حکومت کا باڈر پار کاروبار متاثر ہوگا
ڈیم بنانا نہیں ہے اسکے لیے حوصلہ چاہیئے کیونکہ ڈیم اگلی حکومت کے دور میں مکمل ہوگا تو اخبارات میں اشتہارات کیسے چھپوائیں گے
حکومتی ادارے کہاں ہیں ؟ بیرونی ممالک سے لیے گئے بھاری قرضے کہاں ہیں ؟
یہ عذاب کی نشانیاں ہیں اس قوم نے جو نعمت خداوندی '' پاکستان '' کے ساتھ جو کیا اسکی تو سزا ملے گی ۔ چھ سو خاندان اس ملک کو چوستے رہے مگر عوام کو ہوش نہ آئی ۔
پاکستان کو تو کچھ نہیں ہوگا
لیکن پاکستانی اپنی خیر منائیں
ظالم کے خلاف چپ رہنے والے گونگے شیطان کہلاتے ہیں
جب عذاب آتے ہیں تب تو '' اچھے '' بھی نہیں بچتے ادھر تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے
عمران خان اور ڈاکٹر قادری اس قوم کے لیے آخری حجت تھے کہ ظلم کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہو جاو
مگر کسی کو عمران خان سے نفرت ہے تو کسی کو ڈاکٹر قادری کے '' مسلک '' سے اختلاف
قوم اتنی تقسیم ہوچکی ہے کہ ہر کسی نے اپنے '' بت '' بنا رکھے ہیں
جب تک '' میری پارٹی میرے صوبے میرا مسلک میرا پیر'' یہی بات نہیں کریے گا میں نہیں مانو گا
نہ مانو نہ کرو
مگر وارننگ آچکی
صفائی تو ہونی ہے
لڑائی تو شروع ہوچکی
ایک وہ جن کے دماغ بند ہو چکے ہیں اور غلامی کے اندھیروں سے نکل کر انکی زندگی عذاب ہو جائے گی
اور دوسرے پاکستان پہ مسلط چھ سو خاندان اور انکے چیلے چانٹے
وقت کا تقاضا ہے
رات کے بعد دن چڑھنا لازمی ہے
روشنی پھیل رہی ہے بڑھ رہی ہے
بس اعلان باقی ہے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔