’’ای۔ کولی‘‘ بیکٹیریا جس سے پلاسٹک کی تیاری میں مدد لی جائے گی

سائنسدانوں نے ای-کولی بیکٹیریا میں جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے اسے بیوٹین ڈائی اول (BDO) بننے پر ’مجبور‘ کردیا ہے۔

سائنسدانوں نے ای-کولی بیکٹیریا میں جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے اسے بیوٹین ڈائی اول (BDO) بننے پر ’مجبور‘ کردیا ہے۔ فوٹو: فائل

HERAT:
پلاسٹک کئی شکلوں میں ہماری مختلف ضروریات پوری کر رہا ہے اور اس سے تیار کردہ مصنوعات ہمارے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔

ہمارے اردگرد موجود اور ذاتی استعمال کی مختلف اشیا میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو، جس میں پلاسٹک شامل نہ ہو یا جس کی تیاری کے کسی نہ کسی مرحلے میں پلاسٹک کا کردار نہ رہا ہو۔ یہ نامیاتی مرکب مخصوص طریقے سے پلاسٹک کی شکل میں گھروں، دفاتر اور دیگر جگہوں پر ہمارے استعمال میں آتا ہے۔ دوسری جانب توانائی کی مختلف شکلوں کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور جہاں اشیائے خورونوش مہنگی ہوئی ہیں، وہیں پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث پلاسٹک اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔

مستقبل میں توانائی کے حصول کی مختلف شکلوں سے متعلق غیریقینی صورت حال کے پیش نظر پلاسٹک ساز کمپنیوں کی کوشش ہے کہ ایسے طریقے وضع کیے جائیں، جن سے پلاسٹک کی تیاری میں استعمال ہونے والے مرکبات کی پیداواری لاگت میں کمی کی جاسکے۔ اس سلسلے میں امریکی ریاست سان ڈیاگو میں قائم کمپنی ''جینومیٹکا ان کارپوریشن'' کے انجینئرنگ کے ماہرین نے بے حد اہم کام یابی حاصل کی ہے۔

Escherichia coli، جسے ای۔کولی بھی کہا جاتا ہے، وہ بیکٹیریا ہے جو انسانوں کے لیے زہر ہے۔ یہ فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافے کا سبب بنتا ہے۔ سائنس دانوں نے اس بیکٹیریا میں جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے اسے بیوٹین ڈائی اول (BDO) بننے پر 'مجبور' کردیا ہے۔ بی ڈی او پلاسٹک کی تیاری میں استعمال ہونے والا بنیادی کیمیائی مرکب ہے۔ اس مرکب کی پیداوار کے موجودہ طریقوں میں بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں جہاں پیداواری لاگت بڑھتی ہے، وہیں تیل یا قدرتی گیس کا استعمال کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا سبب بھی بنتا ہے۔

یہ ماحول کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ تیل اور گیس کے نرخ بڑھنے سے بی ڈی او کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں اور اسی نسبت سے پلاسٹک کی مصنوعات بھی منہگی ہوئی ہیں۔ بی ڈی او تیار کرنے والی دنیا کی بڑی فیکٹریوں میں سے ایک میں کیمیا داں کے طور پر سرگرم ہربرٹ ای کسنر کے مطابق پچھلے ایک برس میں بی ڈی او کے تھوک نرخ ایک ڈالر فی پونڈ سے بڑھ کر 1.22 ڈالر فی پونڈ ہوگئے ہیں اور اگر تیل و گیس کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اسی نسبت سے بی ڈی او کے نرخ بھی بڑھ جائیں گے۔




جینومیٹکا کے بایو انجینئرز نے ای کولی میں جو تبدیلیاں کی ہیں، ان کے بعد یہ بیکٹیریا جتنا زیادہ بی ڈی او پیدا کرتے ہیں، اتنی ہی تیزی سے ان کی نشوونما ہوتی ہے۔ ان جراثیموں کی بڑے ٹینکوں میں نشوونما کی جاسکتی ہے۔ یہ ٹینک اسی طرز کے ہوں گے جو مکئی سے ایتھانول کشید کرنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ بایو انجینئر کرسٹوفر شلنگ کہتے ہیں کہ ان ٹینکوں میں ای کولی شوگر اور سیلولوز کو عام دباؤ اور 40C درجۂ حرارت پر، بی ڈی او میں تبدیل کردیتے ہیں۔ ابتدا میں ان بیکٹیریا کا پیدا کردہ بی ڈی او رقیق اور مطلوبہ معیار سے کم تھا، بعدازاں انھیں ایک بار پھر جینیاتی تبدیلیوں کے عمل سے گزارا گیا اور اب یہ جراثیم گاڑھا اور معیاری بی ڈی او پیدا کرسکتے ہیں۔

بی ڈی او کے مہنگا ہونے کی وجہ اس کی پیداوار کے موجودہ طریقوں میں توانائی کا بے تحاشا استعمال ہوتا ہے، تاہم جینومیٹکا کا دعویٰ ہے کہ ان کے وضع کردہ طریقے سے بی ڈی او کی تیاری کے لیے صرف برٹش تھرمل یونٹ (بی ٹی یو) توانائی درکار ہوتی ہے، جو کہ مروجہ طریقوں کے مقابلے میں 30 فی صد کم ہے، جب کہ اس مقدار میں خام مال لانے کے لیے ٹرانسپورٹ میں خرچ ہونے والی توانائی بھی شامل ہے۔

ای کولی پر کام یاب تجربے کے دوران سائنس دانوں نے دو کلو گرام اعلیٰ معیار کا بی ڈی او حاصل کیا۔ بی ڈی او بنانے والی کئی بڑی کمپنیوں نے جینومیٹکا کی اس کام یابی میں دل چسپی ظاہر کی ہے اور آئندہ برس صنعتی پیمانے پر ای کولی سے بی ڈی او حاصل کرنے کے لیے آزمائشی پلانٹ قائم کر دیا جائے گا۔

جراثیموں کو پلاسٹک میں تبدیل کرنے میں کام یابی اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ ماہرین مستقبل میں توانائی کے قدرتی ذخائر کے ناپید ہوجانے کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ روایتی ایندھن پر انحصار کو کم سے کم کیا جائے۔ ای کولی سے صنعتی پیمانے پر پلاسٹک کی تیاری میں استعمال ہونے والے بنیادی مرکب کا حصول آئندہ برسوں میں نہ صرف بے شمار مصنوعات کے سستا ہونے کا سبب بنے گا بلکہ اس سے صنعتوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی کمی آئے گی۔
Load Next Story