عمران خان کی جلد بازی

میں نے اتنے مختلف لوگوں کو ایک ساتھ روتے اور کرلاتے پہلی بار سنا...


Abdul Qadir Hassan September 11, 2014
[email protected]

آج ہم اپنے بابا کا 66 واں یوم وفات منا رہے ہیں۔ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ آج ہم قوم کو یاد دلا رہے ہیں کہ تمہارا بابا تمہارے ملک کا بانی محمد علی جناح 66 برس پہلے فوت ہو گیا تھا اور ہمیں اپنے کھوٹے سکوں کے حوالے کر گیا تھا۔ قدرت کو یہی منظور تھا ورنہ ہمارے بابے کا بہت سارا کام ابھی ادھورا پڑا تھا اور اس کا اسے شدید احساس بھی تھا مگر جب اس کے بیمار اور ضعیف بدن کو لایا جا رہا تھا تو پرانی ایمبولینس کراچی کی سڑک پر خراب ہو گئی۔ عین اسی وقت پاکستان ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان وہاں سے گزر رہے تھے۔

انھوں نے اپنی گاڑی روکی تو پتہ چلا کہ اس ایمبولینس میں تو ان کے ملک کا بانی اور برصغیر کے مسلمانوں کا واحد غیر متنازعہ قائد آخری سانس لے رہا ہے۔ ہمارے اس قائد کے متوقع جانشین یہ دیکھ سن کر بہت مطمئن ہوئے کہ اس الجھن سے ان کی جان چھوٹی۔ اس دن صبح کے وقت میں سرگودھا شہر کے کمپنی باغ کی دیوار کے قریب سے گزر رہا تھا اور سامنے کی دکان پر ریڈیو سے جب ان کی وفات کا اعلان ہوا تو ہر طرف کہرام مچ گیا۔

میں نے اتنے مختلف لوگوں کو ایک ساتھ روتے اور کرلاتے پہلی بار سنا۔ اس کے بعد پاکستان کے ساتھ جو ہوا وہ ہماری آپ کی دیکھی بھالی حالت ہے۔ رونے دھونے کی اس کیفیت کو یہیں چھوڑ کر ایک پیغام آپ تک پہنچاتے ہیں کہ اگر اسپین کے مسلمان حاکم طارق بن زیاد کی عمران خان سے ملاقات ہو جاتی تو وہ اس سے یہ ضرور کہتے کہ اپنی تقریروں میں بار بار میری کشتیاں جلانے کا ذکر نہ کیا کریں کیونکہ کشتیاں جلانے اور بھنگڑے ڈالنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

جناب عمران کا ذکر آیا ہے تو ان کے ایک قریبی ساتھی کی بات سن لیں کہ عمران خان بہت جلدی میں ہے اور آیندہ تین برسوں میں نئے الیکشن کی امید لگائے بیٹھا ہے جن میں وہ اپنی کامیابی کو یقینی سمجھتا ہے اور وزیراعظم بننے والا ہے۔وہ اپنی عمر کا حساب لگاتا ہے اور ساتھیوں سے کہتا ہے کہ میں جلدی نہ کروں تو کیا کروں۔ وزارت عظمیٰ کے چند برس تو دیکھ لوں۔ یاد آتا ہے کہ بھٹو صاحب بھی ہمیشہ جلدی میں تھے اور بتاتے تھے کہ ان کے خاندان کی اوسط عمر کتنی ہے اور وہ اس اوسط تک جلد ہی پہنچنے والے ہیں۔ وہ حسین شہید سہروردی کی طرح عمر بھر اپوزیشن میں نہیں رہ سکتے اس لیے جلدی میں ہیں۔

انھوں نے اپنا مقصد پا لیا۔ وزیراعظم رہے اور ایک یاد گار واقعے پر ان کی خاندانی اوسط عمر ختم ہوئی۔ ان سے اور ان کی بیٹی سے سیاسی اختلاف کے باوجود مجھے اعتراف ہے کہ یہ دونوں بہت بہادر تھے۔ سیاستدان موت کو سامنے دیکھ کر بھاگتے ہیں انھوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا استقبال کیا۔

میں ان دنوں فیس بک وغیرہ بھی دیکھ لیتا ہوں ایک واقعہ سنئے جو فیس بک میں درج کیا گیا ہے۔ فرانس کی ایک سپر مارکیٹ میں نقاب میں ایک عورت خریداری کررہی تھی۔ اس نے اپنا پورا جسم ڈھانپ رکھا تھا۔ جب وہ اپنا مطلوبہ سامان جمع کر کے بل ادا کرنے والے کاؤنٹر پر پہنچی تو وہاں چست لباس میں عرب نقش والی ایک لڑکی کھڑی تھی۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے گاہک کا سامان چیک کیا اور حساب بنانے لگی۔ ساتھ ہی اس حجاب والی لڑکی کو حقارت سے دیکھتے ہوئے کام کرتی رہی لیکن خریدار لڑکی خاموش سب کچھ دیکھتی رہی۔ اس کی خاموشی اس سیلز گرل کے لیے مزید الجھن کا باعث بن گئی اور وہ کہنے لگی کہ پہلے ہی ہم مسلمانوں کے لیے یہاں مسائل کیا کم ہیں ہر روز ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ تمہارا یہ نقاب ہمارے مسائل کی جڑ ہے۔

ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم یہاں فرانس میں تجارت یا سیاحت کے لیے آتے ہیں دین کی اشاعت کے لیے نہیں۔ اگر تم میں اتنی دینداری ہے تو واپس جاؤ اور اپنے وطن میں جیسی چاہو رہو، ہماری جان چھوڑو۔ یہ سب سن کر خریدار لڑکی نے چہرے پر سے نقاب اٹھایا۔ سنہرے بال اور نیلی آنکھیں سیلز گرل کے سامنے تھیں۔ وہ بولی میں خاندانی فرانسیسی ہوں۔ فرانس تمہارا نہیں ہمارا وطن ہے اور میرا دین اسلام ہے۔ بات کچھ اور نہیں صرف یہ ہے کہ تم لوگوں نے اپنا دین بیچ دیا اور ہم نے خرید لیا۔

........................
فیس بک کا ایک اور تحفہ۔ کسی نے مشہور و معروف انور مقصود سے پوچھا کہ بتائیے پاکستانی سیاستدانوں کو الیکشن میں کیسے چنا جائے الیکشن قریب ہیں رہنمائی کیجیے۔ انور مقصود نے جواب دیا جیسے اکبر بادشاہ نے انار کلی کو چنا تھا۔ دیوار میں۔
........................
ایک خان صاحب کا بیٹا رات کو دو فالتو چارپائیاں بچھانے لگا تو باپ نے پوچھا کون مہمان آ رہا ہے۔ بیٹے نے جواب دیا، ایک امی کا بھائی اور ایک میرے ماموں۔ اچھا تو بیٹے پھر ایک چارپائی اور بھی بچھا دو میرے سالے کے لیے۔
........................
صاحب کہنے لگے کہ ڈیڑھ سال ہوا میرا بیوی سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ میں ایک خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا کہ نہ جانے میری خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی اور کل شام سے میرے گھر میں پھر سے جھگڑا اور لڑائی شروع ہوگئی۔ دوست یہ سن کر بولا کہیں اس تبدیلی کی وجہ عمران خان کا دھرنا تو نہیں۔ ایک تو تم ہر بات میں عمران کو لے آتے ہو، شوہر بولا۔ دراصل میری بیوی ڈیڑھ سال بعد کل شام میکے سے آئی ہے۔
........................
سیلاب عظیم کا ذکر کل۔ سیلاب زدگان کے ساتھ ساتھ سیلاب زدگان کی دیکھ بھال کی کہانیاں بھی کل۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں