کاش کوئی انھیں سمجھاتا
لاکھوں ایکڑزمین زیر آب آئی ہے اور ان پرکھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں ...
پانی چڑھا ہے، تو ایک روز اتر ہی جائے گا ۔ ہر طوفان جو اٹھتا ہے وہ ڈھلتا بھی ضرور ہے ، مگر اپنے پیچھے حکمرانوں کی نااہلی کی ان گنت داستانیں ضرور چھوڑ گیا ہے ۔ابھی اس سیلاب کی حشر سامانیاں صرف آزاد کشمیراور پنجاب تک محدود ہیں ۔ جب سندھ میں داخل ہوگا تو کیا غضب ڈھائے گا ، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اب تک کی رپورٹ کے مطابق سیکڑوں لوگ جاں بحق، ان گنت گھر زمیں بوس ہوئے ، ہزاروں لوگ بے گھرہو چکے ہیں۔
لاکھوں ایکڑزمین زیر آب آئی ہے اور ان پرکھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں ۔کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا کہ اس نے تنکا تنکا جمع کرکے کئی دہائیوں میں جو کچھ بنایا تھا وہ یوں لمحوں میں دیکھتے دیکھتے زمیں بوس ہوجائے گا ۔ ہرسال دو سال بعد مون سون میں آنے والے سیلاب ہر بار اپنے پیچھے ان گنت سوالات چھوڑجاتے ہیں ۔ مگر ہر بار حکمران پچھلوں پر الزام عائد کرکے خواب خرگوش میں محو ہو جاتے ہیں۔ مگر متاثرہ عوام پھر تنکا تنکا جمع کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ آج کے سائنسی دور میں جب آنے والی صدیوں میں رونماء ہونے والی ہر آفت ، ہر طوفان کا پتہ چل سکتا ہے ، تو پھر چند ہفتوں قبل تک ہمارے حکمران اس طوفان بلاکی آمد سے کیوں بے خبر تھے ؟ کیا انھیں محکمہ موسمیات نے باخبر نہیں کیا تھا ؟ لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے پشتے اور بند اتنے کمزور کیوں ہیں کہ اپنی متعینہ قوت مزاحمت سے پہلے ہی زمیں بوس ہوجاتے ہیں؟یہ بھی ایک سوال ہے کہ مناسب مقامات پر شگاف ڈال کر سیلابی ریلے کا رخ موڑنے اورآبادیوں اور فصلوں کو بچانے کی پہلے سے منصوبہ بندی کیوں نہیں کی گئی ؟ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جب آج تک کوئی بھی حکومت ہر سال مون سون میں ہونے والی بارشوں سے نمٹنے کی پائیدار حکمت عملی کیوں مرتب نہیں کرسکی ہے ؟ تو ان سے ملک کو دیگر دیگر مسائل سے نمٹنے کی کس طرح توقع کی جاسکتی ہے ؟
پاکستان میں دریاؤں پر بنائے گئے بیراجوں، بندوں اور پشتوں کی تعمیر میں جس طرح گھپلے ہوئے ہیں اور ان کی مرمت میں جس اندازمیں غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ، اس کا اندازہ سولہ برس قبل ایک سندھی اخبارمیں شایع ہونے والے ایک انٹرویو سے بخوبی کیا جاسکتا ہے ۔ مرحوم ولی محمد انصاری جنہوں نے1932 میں سکھر بیراج کی تعمیر کے وقت بطوراسسٹنٹ انجینئر اپنے کیرئیرکا آغاز کیا تھا اور 1972 میں چیف انجینئرکے طورپر ریٹائر ہوئے تھے ۔ مرحوم کے مطابق بیراج کی تعمیر کے وقت یہ فیصلہ کیا گیا تھاکہ ہر دس برس بعد اس کے دروازوں اور دریا کی گذرگاہ کی صفائی کی جائے گی۔ 1942 میں اس لیے صفائی نہیں ہوسکی کہ برطانوی حکومت دوسری عالمی جنگ میں مصروف تھی ۔ مگر قیام پاکستان کے بعد آج تک کسی بھی پاکستانی حکومت نے دریا کی صفائی کے بارے پرسوچناگوارا نہیں کیا۔ اس دوران کئی نئے بیراج اور ڈیم تیار ہوئے، جن پر اربوں روپے لاگت آئی،لیکن کسی بھی حکومت نے دریائی گذرگاہوں کی صفائی اور پشتوں کی مرمت پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی۔بلکہ اس مد میں مختص کی گئی رقم کی بڑے پیمانے پر خورد برد کی گئی ۔ نتیجتا ًقیام پاکستان کے بعد تعمیر ہونے والے پشتوں اور بندوں کی تعمیر اسقدر ناقص ہے کہ ان میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ کسی بڑے سیلابی ریلے کو روک سکیں ۔ حالیہ سیلاب میں ہونے والے وسیع نقصان کا بنیادی سبب بھی کرپشن اور مجرمانہ غفلت ہی ہے ۔
تاریخ عالم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قدرتی آفات کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا ۔ اس لیے یہ ایک اٹل حقیقت ہیں ، ان سے انکار ممکن نہیں ۔ مگر انسان نے اپنے عقل وشعور ، تحقیق و تجسس اور جہد ِ مسلسل سے ان آفات پر قابو پانے یا کم ازکم ان کے نقصانات کو کم کرنے کی کوشش ضرور کی ہے ۔ دنیا کے کئی ممالک نے سیلابوں ، زلزلوں اور آتش فشاں جیسی قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کی کامیاب کوششیں کیں ہیں ۔
جن میں سب سے اہم مثال جاپان کی ہے ، جو زلزوں کی سرزمین کہلاتا ہے اور جہاں ہر چند سال بعد زلزلے بدترین تباہی مچایا کرتے تھے ۔ مگر اس قوم نے اپنی فکر دانش اور عزم وحوصلے سے زلزلوں کی تباہ کاریوں کو اس قدر کم کر دیا کہ آج زلزلوں سے ہونے والے نقصان کی شرح نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ۔اس عمل میں سائنسدانوں کے تحقیق وتجربے اور قیادت کے فکر و تدبر اور سیاسی عزم و بصیرت نے نمایاں کردار ادا کیا ۔اس مثال سے یہ سبق ملتاہے کہ ز ندہ اور قومی حمیت سے سرشار قومیں ہر چھوٹے بڑے مسئلے پر اغیارکے آگے جھولی پھیلانے کے بجائے اپنے وسائل اور ذہنی مہارتوں کو نیک نیتی اور دیانتداری کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے نہ صرف کسی قدرتی آفت سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرتی ہیں، بلکہ آیندہ ایسی کسی تباہی سے بچنے کے لیے پیش بندی بھی کرتی ہیں ۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس صلاحیت سے محروم ہیں ، جومستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے درکار ہوا کرتی ہے ۔ ہم میں اتنی بھی اہلیت نہیں کہ قومی مسائل کی ترجیحات ترتیب دے کر ان کے حل کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرسکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایڈہاک بنیادوں پر فیصلے کرنے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ طویل المعیاد منصوبہ بندی کی طرف ہمارا ذہن مائل ہی نہیں ہوتا ۔ہم نے67برسوں کے دوران بڑی بڑی عمارتیں تو تعمیر کرلیں ، مگر نئے قومی اداروں کی تشکیل تو دور کی بات ، ہم نے ان اداروں کو بھی تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے ، جو انگریزوں سے ورثے میں ملے تھے ۔
بات پھر ہندوستان کی آئے گی اور کیوں نہ آئے ، ہم نے آٹھ سو برس ساتھ گذارے ہیں ، مگر چھ دہائیوں کے دوران مزاج میں اتنا بڑافرق آ جائے گا ، سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔ وہاں اداروں کی تشکیل اور تحفظ پر بے پناہ توجہ دی جاتی ہے جب کہ ہم اپنے ہاتھوں ادارے برباد کر رہے ہیں ۔ ریلوے ہی کو لیجیے ہندوستان نے آزادی کے بعد ان گنت نئے ٹریک بچھائے اور نئی نئی ٹرینیں شروع کیں ۔ ہمارے یہاں ریلوے ٹریک کم ہوا ہے اور ٹرینوں میں سہولیات کے بجائے خستگی میں اضافہ ہواہے ۔ جب کہ ہمارے یہاں ریلوے کسمپرسی کی انتہاء کو پہنچ چکی ہے ۔ جو ٹرینیں چل رہی ہیں وہ اللہ توکل چل رہی ہیں ، کیونکہ نہ پٹری اس قابل ہے کہ اس پر تیز رفتار ٹرین چل سکے اور نہ ہی ندی نالوں پر تعمیر پل اس حالت میں ہیں کہ ان سے ٹرین تیز رفتاری سے گذر سکے ۔
ہماری غیر سنجیدگی اور غفلت کا یہ عالم ہے کہ کوٹری کے قریب دریائے سندھ پر1898 میں تعمیر ہونے والے ریلوے پل میں ایک کیل کا بھی اضافہ نہیں ہوسکا ہے، جو کسی بھی وقت بہت بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے ۔ مگر اس جانب توجہ دینے کی کسی کو فکر نہیں ہے ۔ ریلوے کا محکمہ اورحکمران اس وقت جاگیں گے جب خدانخواستہ یہ پل کسی بڑے نقصان کا سبب بنے گا ۔ دراصل ہمارا ذہن Reactiveہو چکا ہے ، جس کی وجہ سے ہم Proactive انداز میں سوچنے کے عادی نہیں ہیں ۔ یہ ایک مثال ہے، ایسی ان گنت مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔ سرکاری تعلیمی اداروں ہی کو لیجیے، ہندوستان میں تعلیم کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ سرکاری مدارس ہی ہیں ، جہاں معیاری تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے ۔ مگر ہمارے یہاں سرکاری اسکولوں کی جو حالت ہے ، وہ سب کے سامنے ہے ۔ یہ تعلیمی ادارے جو ملک کی غریب اور نچلے متوسط طبقے کوزیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا ذریعہ ہیں ، زبوں حالی کا شکار ہیں،لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔دراصل حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کو ایک دوسرے سے لڑنے اور نیچا دکھانے سے فرصت ملے تو اداروں کو بچانے اور نئے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر توجہ دسکیں ۔
افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاسی قیادتیں دنیا میں رونماء ہونے والے موسمیاتی تغیر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے آبی مسائل سے قطعی بے بہرہ ہیں۔ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ آنے والے برسوں میں پانی کتنا بڑا مسئلہ بننے جا رہا ہے ۔ نیپال جیسے پسماندہ ملک نے صرف چند برسوں میں ذخیرہ آب کے کئی منصوبے مکمل کرلیے ہیں اور کسی بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اس نے کئی مہینوں کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے ۔ اگرہمارے یہاں اس مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جاتا اور نیک نیتی اور دیانتداری کے ساتھ کام کیا جاتا تو اب تک ذخیرہ آب کے کئی منصوبے پائے تکمیل کو پہنچ چکے ہوتے ۔ ہم آج تک کالاباغ ڈیم کی سیاست سے باہر نہیں نکل پا رہے کہ دوسرے متبادل ذرایع کے بارے میں غور وفکر کر سکیں ۔
حالیہ سیلاب سے پہلے ، جس کے بارے میں عالمی ادارے کئی ماہ پہلے سے خبردار کرچکے تھے ، اگر پیش بندی کرلی جاتی تو اتنا نقصان بھی نہیں ہوتا اور یہ پانی جو کل ضایع ہوچکاہوگا، خشک سالی کے دنوں کے لیے محفوظ کرلیا گیاہوتا ۔ اسی طرح ہر سال مون سون میں ہونے والی بارشوں کے پانی کو بھی بہتر اندازمیں ذخیرہ کرکے قلت کے دور کے لیے محفوظ کیاجا سکتا ہے ۔ مگر ان کاموں کے لیے سیاسی عزم وبصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، جس کاہمارے حکمرانوں اور رہنماؤں میں فقدان ہے ۔ اب دھرنے پر بیٹھے سیاسی رہنماؤں ہی کو لیجیے ۔انھیں تو کچھ عرصے کے لیے دھرنے کو موخر کر کے عوام کی داد رسی کے عمل کا فوری حصہ بننے کی کوشش کرنا چاہیے۔یہی وقت کا تقاضا ہے۔