حکمرانوں میں سادگی کا فقدان

اس پر وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت تک ہی عمل ہوا اور بعد میں آنیوالوں نے...

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ملک کا پہلا گورنر جنرل بننے کے بعد سادگی سے حکمرانی کی جو مثال قائم کی تھی اور سرکاری وسائل سرکاری کاموں ہی کے لیے وقف رکھنے اور نہایت احتیاط سے استعمال کرنے کا درس دیا تھا۔

اس پر وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت تک ہی عمل ہوا اور بعد میں آنیوالوں نے اس سلسلے میں قائد اعظم کی ہدایات اور مثالیں ہوا میں اڑا دیں اور ملک کے سرکاری وسائل کو بیدردی سے نہ صرف اپنی ذات اور اپنے خاندان پر بلکہ عزیزوں اور دوستوں پر لٹایا اور اقربا پروری کی جو بدترین مثالیں قائم کیں اس کے نتیجے میں جو سلسلہ شروع ہوا اس نے نہ صرف قومی سرمایہ ضایع کیا بلکہ بعد میں ہر سویلین اور فوجی حکمران نے اپنا یہ حق سمجھ لیا کہ اقتدار میں آ کر ملک میں موجود قومی خزانے کو ذاتی جاگیر سمجھ لیا جائے جو صرف لٹانے کے لیے ہو اور کرپشن کے ذریعے جو مال کمایا جائے وہ غیر ممالک میں اپنے مستقبل کے لیے محفوظ کر لیا جائے جو ان کے مرنے کے بعد ان کی اولاد کے کام آ سکے۔

1958ء میں ملک میں جو پہلا مارشل لا جنرل ایوب خان نے لگایا تھا اس کی وجہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اقتدار کی ہوس تھی جس کی وجہ سے حکومتیں تبدیل ہونا معمول تو بن گیا مگر اس وقت تک کرپشن حکمرانوں کا فرض اولین بنی تھی نہ حکمرانوں میں سادگی کا فقدان ہوا تھا اور ایوب خان کے دس سالہ دور میں ملک میں جو صنعتی ترقی ہوئی اس جیسی ترقی کسی سیاسی دور میں نہیں ہوئی اور نہ ایوب خان کے خاندان پر کسی بڑی کرپشن کا الزام لگا اور نہ مہنگائی نے عوام کو پریشان کیا تھا۔

ایوب خان کے دور میں چینی پر چار آنے بڑھے تھے تو ملک میں بڑا شور ہوا تھا۔ ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کے بعد بھٹو حکومت میں کرپشن کم مگر من مانیاں زیادہ رہیں مگر بھٹو صاحب بھی سادگی کا مظاہرہ کرتے تھے جس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نواز شریف، جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری طویل عرصہ اقتدار میں کوئی بھی حکمران سادہ زندگی کا حامل نہیں تھا۔ البتہ جنرل ضیا الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں سوٹ پہننے کا مقابلہ کم اور سادگی نظر آتی تھی۔ دونوں نے قومی لباس کو فروغ دیا اور خود بھی سادہ لباس میں اکثر نظر آتے تھے۔

حکمران سوٹ پہن کر خود کو عوام سے بلند و بالا سمجھتے ہیں تاکہ وہ منفرد نظر آئیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ غریب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر مسلسل اقتدار میں رہنے والوں کو اپنی مطلق العنانی نظر نہیں آتی اور اقتدار سے باہر آ کر دوسروں کی من مانیاں ضرور نظر آ جاتی ہیں۔ راقم کو ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں وہاں کے بادشاہ کے محل کے سامنے تفریحی مقام دیکھنے کا موقعہ ملا تھا جہاں لوگ بسوں، ٹیکسیوں میں بھی آ رہے تھے اور باہر سے شاہی محل کا نظارہ کر کے اس کے سامنے تصویریں کھنچوا رہے تھے۔


ابوظہبی میں بھی راقم کو وہاں کے سلطان کے نام سے منسوب خوبصورت محل نما عمارت دیکھنے کا موقع ملا تھا جس میں ایک ریسٹورنٹ بھی قائم تھا اور لوگ وہاں بھی تصاویر بنوا رہے تھے مگر پاکستانی حکمرانوں کے محلات کے سامنے ایسا کچھ ممکن نہیں۔ کراچی میں تو صدر بنتے ہی آصف علی زرداری کی ذاتی رہائش گاہ بلاول ہاؤس کے سامنے کی سڑک بھی دیوار بنا کر بند کر دی گئی تھی جسے سابق صدر ہو جانے کے باوجود عدالتی حکم بھی نہ کھلوا سکا اور تحریک انصاف بھی شور مچا کر رہ گئی تھی۔

وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد کی خوبصورت عمارت بلاشبہ کسی شاہی محل سے کم نہیں ہے اور اس میں رہنے والے وزرائے اعظم کے احکامات بھی کسی بادشاہ سے کم نہیں ہوتے اور اتنی بڑی اور خوبصورت عمارت باہر سے دیکھ کر ہی دیکھنے والوں کے منہ سے نکلا اچھا یہاں بادشاہ رہتا ہے۔

اسلام آباد میں ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کی شاندار خوبصورت اور بڑی عمارتوں کے علاوہ کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور میں بڑی بڑی شاہی عمارتوں کے گورنر ہاؤس بھی ہیں جو کئی کئی ایکڑ اراضی پر پھیلے ہوئے ہیں جب کہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے پاس جو چیف منسٹر ہاؤسز ہیں وہ گورنر ہاؤسز کی طرح بڑے، وسیع اور خوبصورت تو نہیں مگر وہاں رہنے والوں کے لیے تمام آسائشیں وہاں موجود ہیں۔ ڈویژنل صدر مقامات پر بنے ہوئے بعض کمشنر ہاؤس اور بعض ڈپٹی کمشنروں کی رہائش گاہیں بھی بڑی بڑی اور دیکھنے کے قابل ہیں اور اسی لیے وہاں رہنے والوں کے کروفر بھی دیکھنے والے ہوتے ہیں اور سادگی ان کے قریب سے بھی نہیں گزری۔ امریکا میں گورنروں کے پاس بھی اتنی بڑی رہائش گاہیں نہیں جو ہمارے کمشنروں کے پاس ہیں۔

برطانیہ سمیت بڑے ملکوں کے وزرائے اعظم بھی ہمارے پرائم منسٹر ہاؤس کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کیونکہ ان کی سرکاری رہائش گاہیں ہمارے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ راقم کو 1981ء میں آزاد کشمیر کے صدر برگیڈیئر محمد حیات اور 1986ء میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام صاحب لسبیلہ غلام قادر سے ملاقات میں ان کے سادہ دفاتر دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔ پاکستان کے مقابلے میں بھی بھارت کے حکمران نہ صرف سادہ نظر آتے ہیں بلکہ وہ سادگی سے زندگی گزارتے ہیں وہ کبھی سوٹ میں نظر نہیں آتے ان کی سرکاری رہائشگاہیں بھی سادہ ہوتی ہیں اور بھارتی حکمرانوں میں انکساری واضح طور پر نظر آتی ہے جب کہ پاکستانی حکمرانوں تو کیا ایک ضلع کے حکمران ڈپٹی کمشنر کے ٹھاٹ باٹ بھی دیکھنے والے ہوتے ہیں، پاکستان کے ایک چھوٹے ضلع کا ڈپٹی کمشنر بھی ہمیشہ سوٹ میں رہ کر خود کو منفرد ثابت کرتا دکھائی دیتا ہے۔

سابق زرداری دور میں تو صدر مملکت اور وزرائے اعظموں میں قیمتی سے قیمتی سوٹ پہننے کا مقابلہ دیکھنے میں آتا تھا جب کہ ایک آمر کہلانے والے جنرل ضیا الحق 11 سال اقتدار میں رہتے ہوئے بھی فوجی وردی کے علاوہ شیروانی میں اکثر نظر آتے تھے جب کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی سوٹ میں رہنے کا شوق تھا۔ سیاسی حکمرانوں کو اقتدار میں آ کر عوام سے دور رہنے کا شوق لاحق ہو جاتا ہے یہ شوق موجودہ وزیر اعظم کو تھوڑا کم ہے مگر وہ رہتے بادشاہوں جیسے محل میں ہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے واحد صوبے ہیں۔

جہاں سوٹ کم پہنے جاتے ہیں اور وہاں وزیروں سے ملنا بھی آسان ہے جب کہ سندھ اور پنجاب کے وزیر اور سندھ کے وزیر اعلیٰ زیادہ تر سوٹ میں رہ کر زیادہ خوش نظر آتے ہیں اور سوٹ پہننے کے شوقین عوام میں منفرد نظر آنے کے لیے سوٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ 98 فیصد عوام کی نمایندگی کے دعویدار بھی عام لوگوں جیسا لباس زیب تن کرنے کی بجائے سوٹ میں نظر آتے ہیں لگتا ہے کہ ہمارے حکمران سوٹوں میں منفرد نظر آنے اور بہترین سرکاری رہائش گاہوں میں رہنے اور پروٹوکول انجوائے کرنے کے لیے ہی اقتدار حاصل کرتے ہیں مگر کبھی عوام جیسے نہیں رہتے۔
Load Next Story