ورکنگ ویمن قوانین پر عمل درآمد

اگر پاکستان کے قوانین کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو عورت دشمنی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے...


منظور عباس September 11, 2014

ہمارا معاشرہ موئن جو دڑو کے پہیے اور ہائی ٹیک کے درمیان پھنسا ہوا معلوم نہیں کس سمت بڑھ رہا ہے مگر اس معاشرے کا سچ یہ ہے کہ عورت آج بھی صدیوں پرانے معاشرے میں اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ عورت کی زندگی کو نہ شہر کی جدیدیت متاثر کرتی ہے اور نہ ہی دیہاتوں کی تاریکی، مردانہ معاشرے کا جبر دونوں مقام پر اس پر ایک جیسا ہے۔

ایسے میں عورت کے حق میں اٹھنے والی آواز شہروں میں ایک طبقے میں گونجتی ضرور ہے مگر قاضی شہر کو متاثر کرنے سے قاصر ہے، آج بھی مختاراں مائی انصاف حاصل کرنے میں ناکام ہے، شہر کے آرام دہ ہوٹلوں میں عورت کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آواز کی مدت چائے کے کپ تک زندہ رہتی ہے اگر اثر ہوتا تو ملالہ کو ملک چھوڑنے کی ضرورت پیش نہ آتی اور اس کی ہم عمر لڑکیوں کے اسکول تباہ کرنیوالوں کے ہاتھ روکنے والے موجود ہوتے، ہوٹلوں کے ہالوں میں عورت کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنیوالے اداروں میں کام کرنیوالی لڑکیاں خود کو محفوظ محسوس کر رہی ہوتیں۔ میرے الفاظ نعرے نہیں بلکہ مختلف فیکٹریوں، کارگاہوں یا دفاتر میں کام کرنیوالی با ہمت عورتوں کا نغمہ ہیں جو انتہائی نا مساعد حالات میں ہراسگی کی حالت میں پیداواری عمل میں اپنا حصہ ادا کر رہی ہیں۔

اگر پاکستان کے قوانین کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو عورت دشمنی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے کیونکہ عورت کو اپنے اوپر ہونیوالے جرائم کو خود ثابت کرنا پڑتا ہے جب کہ اس کی اپنی گواہی بھی ان قوانین کی نظر میں آدھی ہے اس لیے عورتوں کے خلاف جرائم میں ملوث بہت آسانی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنیوالی عورت کی نفسیاتی حالت شہر کی فیکٹریوں میں کام کرنیوالی عورتوں سے کئی گنا بہتر ہے کیونکہ اس کو کام کے دوران اپنے ساتھیوں اور سینئر اسٹاف کے ہاتھوں ہراساں تو نہیں ہونا پڑتا۔

پاکستان کی پارلیمانی اور قانون سازی کی تاریخ بتاتی ہے کہ عورتوں کے حقوق کی آواز صرف پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اٹھائی گئی۔2010 ء میں عورتوں کی حقوق کے تحفظ میں ایک اہم قانون وجود میں آیا جسے ''مقام کار پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کا قانون'' کہا جاتا ہے جسے سندھ اسمبلی نے 2013ء میں منظور کیا۔ اس قانون کی اہمیت بڑے شہروں میں زیادہ ہے کیونکہ شہروں میںپڑھی لکھی یا نا خواندہ مگر با ہمت خواتین ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بھر پور کردار ادا کر رہی ہیں اس اہم قانون کو بہت کم اہمیت دیتے ہوئے اس کی تشہیر مطلوبہ پیمانے پر نہیں ہو سکی اس لیے لاعلمی کی وجہ سے ملازمت کرنیوالی خواتین اس قانون سے استفادہ کرنے میں ناکام ہیں اور نہ ہی کارگاہوں میں خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف کمیٹیاں قائم کی جا سکی ہیں ۔

ہمارے ملک میں خواتین کو ہراساں کرنیوالے سے تخفظ حاصل ہے مگر یہ قانون اس خوف کی فضا کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جس کو کم کرنے کے لیے یہ قانون وجود میں آیا تھا۔ یہ صورتحال ایسے اداروں میں بھی روا ہے جہاں ملکی خصوصی طور عالمی معیارات اور اصولوں کو اپنانے کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں مگر ہمارے ملک میں کام کرنیوالے غیر ملکی اداروں یا غیر مقامی اور مقامی تنظیموں میں کام کرنیوالے خواتین بھی ایسے مجموعی معاشرتی رویوں کا ویسے ہی شکار ہیں جیسے ملک کے عام اداروں میں۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ ان اداروں کا دہرا معیار ہے یا جبر اور لا عملی میں پلنے والے نوجوان منیجر کی لاعلمی یا بے حسی، میرے ساتھ حقوق کے علمبردار اور عالمی معیارات کا پرچار کرنیوالے اداروں میں کام کرنیوالی خواتین کے الفاظ موجود ہیں جو انتہائی دکھ سے اپنے ساتھیوں اور سینئر اسٹاف کے رویوں کے متعلق بتاتی ہیں کہ وہ کس اذیت کی حالت میں اپنے ڈیوٹی کے وقت کو گزارتی ہیں۔

ہراساں کرنے کے عمل کو عمومی طور پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر قانونی ڈکشنری میں کام کی جگہ پر ہراساں کرنے سے مراد ہر ایسا عمل جو کام کی جگہ پر کسی خاص گروپ کے ساتھ روا رکھا جائے۔ اس میں رنگ، نسل، جنس، معذوری یا دیگر کسی وجہ سے روا رکھا جانے والا زبانی، تحریری، تصویری، اشاروں سے، جسمانی، نفسیاتی سطح پر متاثر کرنیوالا عمل ہے جو اس ادارے میں ساتھ کام کرنیوالے ورکر، منیجر، سپروائزر، ایجنٹ، گاہک یا کسی اور فرد یا افراد کی طرف سے روا رکھا جاتا ہے، اس میں سب سے خطرناک قسم جنسی طور پر ہراساں کرنا ہے، پاکستان میں کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کے قانون میں ہراساں کرنے سے مراد ''کوئی بھی جنسی پیش قدمی یا دیگر زبانی یا تحریری یا جسمانی روابط یا جنسی رویے جن کی وجہ سے عورت خوفزدہ ہو اور اس کا کام متاثر ہویا ایسا ماحول پیدا کیا جائے۔

جس میں عورت خوف کی فضاء میں اپنی ملازمت کے امور سر انجام دے ان کو ہراساں کرنا تصور کیا جائے گا۔ عورت چونکہ ہمارے معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ ہونے کی وجہ سے ملازمت کی جگہ پر سب سے زیادہ ہراساں ہوتی ہے۔ معاشرے میں روز بروز بڑھتی ہوئی ناہمواری کو ختم کرنے کے لیے میدان عمل میں آنیوالی خواتین کے لیے ہر لمحہ مشکل ہوتا ہے ان میں عورت ہر قسم کی ہراسگی کاسامنا کرتی ہے ہراساں کرنیوالوں میں ساتھی ورکرز سے زیادہ انتظامیہ کے لوگ شامل ہوتے ہیں اپنے روزگار کے تحفظ کے لیے عورتیں ان کے سامنے بے بس ہوتی ہیں ویسے تو فیکٹریوں میں عورتوں کے ساتھ معاوضے کی مد میں برابری کا دعوی کیا جاتا ہے مگر اس کے بر عکس عورت ہونے کی بنیاد پر جو امتیازی سلوک ان کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے ۔

اس کے پیش نظر عورت کو معاوضے کی نسبت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہراساں ہونے کی وجہ سے اس کی تمام ملازمت خوف اور نفسیاتی دباؤ کا شکار رہتے ہوئے وہ اپنے ایسے حقوق بھی حاصل نہیں کر سکتی یہ خوف ان کو یونین سازی کے عمل میں شامل نہیں ہوتی بلکہ اکثر صورتوں اس میں انتظامیہ کی طرف سے ان کو یونین سازی سے دور رکھنے کی ارادی کوشش بھی شامل ہوتی ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے ان پر خوف کو اس طرح استوار رکھا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ ان کے زیر اثر کام کرتی رہیں۔ عورتوں کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کے قانون کے مطابق:اگر کسی عورت کو کار گاہ میں ہراساں کرنے سے روکنے کے لیے کمیٹی قائم کی جائے گی جو کسی عورت کی طرف سے دی جانے والی تحریری شکایت پر تین دن کے اندر انکوائری کر کے اپنی رپورٹ دیگی۔

انکوائری کمیٹی 7دن کے اندر اس فرد سے جواب طلب کریگی۔ اس درخواست پر تحریری اور زبانی گواہی کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر فیصلہ کریگی مگر انکوائری کمیٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ درخواست پر فریقین کا موقف سنے اور ثبوت کے حصول کے لیے دونوں فریق کو تحفظ فراہم کرے تا کہ بغیر کسی دباؤ کے سچائی کو سامنے لایا جا سکے۔ یہ قانون دونوں پارٹیوں کو حق دیتا ہے کہ وہ اپنی مدد کے لیے اگر اس ادارے میں ٹریڈ یونین موجود ہے تو کو اپنا نمایندہ مقرر کر سکتا ہے یا اپنے دوستوں سے مدد لے سکتا ہے۔ کمیٹی شکایت پر ہونے والی انکوائری کو تحریری شکل میں جمع کروائے گی۔

انکوائری کمیٹی ہراساں کرنیوالے فرد کو معطل کر سکتی ہے، اس کی ترقی روک سکتی ہے، اس پر جرمانہ عائد کر سکتی ہے۔ تنزلی ایسے اقدام عمل میں لا سکتی ہے جب کہ ہراساں ہونیوالے فرد کے پاس حق ہے کہ وہ اپنا کیس محتسب اعلی کی عدالت میں بھی پیش کر سکتا ہے۔ اگر اس قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایسے ادارے جن میں خواتین ملازمت کرتی ہیں وہاں ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ دینے والی کمیٹیاں قائم کر دی جائیں تو ایسے واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے جب کہ کارکنوں کی آگاہی کے لیے اس قانون کے بارے میں معلومات ہر کارخانے میں نمایاں جگہ پر آویزان کیا جائے اور اس کے ساتھ ادارے میں بنائی جانیوالی کمیٹی کے ممبران کے نام اور فون نمبر بھی درج ہوں تا کہ ہراساں ہونے والی خاتون آسانی سے ان کے ساتھ رابطہ کر سکے۔

اس وقت پاکستان میں کثیر تعداد میں خدمات فراہم کرنیوالے غیر سرکاری اور غیر ملکی اداروں کے لیے لازم ہے کہ وہ اس قانون کے بارے میں آگاہی کو اپنے پراجیکٹ کے حصہ کے طور پر اپناتے ہوئے اس کے بارے میں آگاہی پھیلائیں اور اپنے اداروں میں ہراساں کرنے سے روکنے کے لیے قائم کمیٹیوں کے نام، فون نمبر کو اپنے ادارے کی ہر شاخ میں نمایاں طور پر آویزاں کریں کیونکہ ان اداروں کی اندرون ملک پھیلی ہوئی شاخوں میں کام کرنیوالی عورت کے حالاتکار سے ہیڈ کوارٹر کے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کو مشکل حالات میں کام کرنے کا اندیشہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |