بات کچھ اِدھر اُدھر کی مجھے پاکستان سے پیار ہے

جو لوگ میچز جیتنے پراورآزادی پرروشنیاں کرتے ہیں مگرآج کے دن وہ قائداعظم کو یادرکھنے کے بجائےامریکیوں کو یادکرتے ہیں۔


اُن لوگوں کی محب الوطنی اُس وقت سامنے آئی جو کرکٹ میچز کے جیتنے پر اور 14 اگست کو آزادی کے موقع پر جشن مناتے اور شور غوغہ کرتے تھے جو 11 ستمبر کو قائداعظم کو یاد رکھنے کے بجائے امریکہ میں حادثے کا شکار لوگوں پر آنسو بہاتے پائے گئے۔ فوٹو: ایکسپریس

سلمان کو پاکستان سے شدید محبت ہے، وہ مختلف مواقع پر اس کا اظہار کرتا رہتا ہے، ہاں یاد آیا۔ گزشتہ دنوں جب پاکستان ٹی ٹوئنٹی میچ جیتا تو سلمان نے اپنے دوستوں کے ساتھ اس خوشی کے موقع پر اپنے پاکستان سے محبت کا بھرپور اظہار کیا۔ سلمان اور اس کے لنگوٹیے یاروں نے موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکال کر خوب جشن منایا۔ وہ ساری رات کراچی کی سڑکوں پر پاکستانی پرچم کمر پر باندھے اس خوشی کو مناکر پوری دنیا کو یہ پیغام دیتے رہے کہ وہ پاکستان کے چاہنے والے ہیں اور اس پر جان نچھاور کرنے والے ہیں۔ ہاں بھائی یاد ہے۔۔۔ ہمیں کہ سلمان کے پڑوس میں رہنے والے امجد صاحب کی طبیعت خراب تھی اور وہ سلمان کے شور شرابے سے بیزار تھے۔۔۔ مگر یہ اتنی بڑی بات نہیں کہ جس کی وجہ سے خوشی کے اس موقع کو ضائع کردیا جائے! ویسے امجد صاحب کو بھی نوجوانوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔۔۔ اکیلے دنیا میں وہ بیمار تھوڑی ہیں!


ارے ان سے ملئے! یہ ہیں عاطف میاں۔۔۔ ان کی حرکتوں سے لگتا ہے جیسے یہ پاکستان کے نظریاتی محافظ ہیں۔۔۔ انہیں بھی پاکستان سے شدید قسم کی محبت ہے، ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ ہر چودہ اگست کو پورے گھر اور محلے کو جھنڈیوں سے بھر دیتے ہیں، تیرا اگست کی رات کو ساحل سمندر پر دوستوں کے ساتھ اس دن کو منانا یہ اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں، ان کا بس چلے تو پورے پاکستان کو ہری جھنڈیوں سے بھردیں۔ خود یہ یونی ورسٹی کے طالب علم ہیں لیکن ایک بار بھائی نے رات سوتے وقت ان سے دو قومی نظریے کا پوچھا تو موصوف نے بڑے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت سختی کے ساتھ ڈانٹ دیا اور کہا: ''جلدی سوجاواور مجھے بھی سونے دو، مجھے صبح یونی ورسٹی جانا ہے''۔۔۔ خیر یہ بات بتانے کی تو نہیں ہے لیکن بتانے میں ہرج بھی نہیں۔۔۔ اس رات عاطف میاں رات تین بجے تک ایف ایم پر کمارسانو کی زندگی کے مختلف گوشوں پر سیر حاصل بحث کو سنتے رہے۔۔۔ صبح جب یونی ورسٹی میں وہ اپنے دوستوں کو کمار کی زندگی کے نشیب وفراز بتا رہے تھے تو اس سے اندازہ ہوا کہ واقعی رات ایف ایم والی گفتگو سے انہوں نے خوب استفادہ کیا ہے۔


اور یہ ہیں فیضان عباسی۔۔۔ انہوں نے آج تک اپنے عمل سے کبھی یہ ثابت نہیں کیا کہ یہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور نہ ہی یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کے عاشق ہیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے اور یقیناًآپ اس سے اختلاف رکھ سکتے ہیں۔ لیکن نجانے کیوں مجھے فیضان کچھ مشکوک سا لگتا ہے، ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب فیضان کو میں نے بائیک چلاتے ہوئے دیکھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ نیب کا ڈپٹی چیئر مین دفتر سے گھر تک سرکاری کار میں آتا ہے اور پھر گھر کے کاموں کے لیے وہی اْجڑی ہوئی بائیک استعمال کرتا ہے، جب ہم نے استفسار کیا تو انہوں نے سرکاری خزانے کو قوم کی امانت بتایا۔۔۔ لیکن جب ہم نے ان کی توجہ ماجد سیٹھ کے بیٹے کی جانب دلوائی کہ وہ تو اتوار کے دن بھی سرکاری گاڑی میں سفر کرتا ہے اور دوستوں کے ساتھ گھومنے جاتا ہے۔۔۔ لیکن حرام ہو جو یہ بات سن کر فیضان کے کان پر جوں تک رینگی ہو، اس نے ہمیشہ کی طرح ''اللہ حرام سے بچائے'' کا ایک دقیانوسی جملہ کہہ کر اپنی جان بچائی۔


گزشتہ کئی عرصے سے میں سلمان اور عاطف کی زندگی پر رشک کرتا رہا، اور ان کی وطن سے محبت کی داد دیتا رہا۔۔۔ لیکن آج گیارہ ستمبر کو جب میں نے عاطف اور سلمان کو نائن الیون کے واقعے میں ہلاک ہونے والے امریکیوں کی یاد میں دیے جلاتے اور فیضان کو قائد اعظم کی تصویر پر اپنے گرم گرم آنسو بہاتے ہوئے دیکھا تو یوں لگا جیسے کوئی چیز چھناکے سے ٹوٹ گئی ہو۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں