بات کچھ اِدھر اُدھر کی کیا آپ کی بیٹی زندہ ہے

زمانہ قدیم میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفنا دینے کا رواج ہی ٹھیک تھا۔

زمانہ قدیم میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفنا دینے کا رواج ہی ٹھیک تھا۔ فوٹو فائل

آج پھر ایک اور گئی۔ کتنا سکون ہو گیا ہے۔ کیا ایک اور گئی؟جی ہاں 22 سالہ دختر اسلامی جمہوریہ پاکستان، صائمہ اقبال(فرضی کردار) نے بھی وہی کیا۔ اور وہ کرتی بھی کیا،کوئی اور آپشن تھا اس کے پاس؟ اب تو یہ روایت بن چکی ہے اس سے پہلے ڈیرہ غازی خان کی ہی ایک 17، 18 سالہ دختر پاکستان نے بھی جل مرنے کو ترجیح دی تھی۔اگر میں اس طرح کے واقعات قلم بند کرنے پر آؤں تو صفحات بھرتے جائیں اور تھک کر میں شام میں اٹھوں تو اگلی صبح ان میں دو چار کا اضافہ ہی ہو چکا ہوگا لیکن کبھی کمی نہیں ہوگی۔

ایسی بہت سی زندگیوں کے گل ہونے کی خبریں ہر چینل ہر آئے روز دیکھتے ہیں اور کچھ دن بعد اسے بھول کر آگئے بڑھ جاتے ہیں۔ عورت کی حرمت کی تذلیل انفرادی یا اجتماعی طور پر کرنے کاجو سلسلہ چل نکلا ہے ان کا انجام بے حد بھیانک ہے۔عزت دی ہے تو جان بھی دینی ہو گی۔تذلیل کرنے والے،اسلحہ لہراتے، اپنی مردانگی و بہادری کا ثبوت دیتے ہیں لیکن اس کے بعد کا سفر تو اس ٹوٹے پھوٹے وجود کو تنہا ہی کرنا ہوتا ہے۔اب اس کے سامنے ایک راستہ تو یہ بچتا ہے کہ وہ انصاف کی بلند ہ بالا چٹانوں پر چڑھنا شروع کرے اور آغا ز ہوتا ہے پہلی سیڑھی سے جسے مہذب الفاظ میں پولیس اسٹیشن کہا جاتا ہے۔

یہاں اس وجود کو جو کبھی کسی کی بیٹی، کسی کی بہن، کسی کی بیوی، کسی کی ماں کا تھا وہ سب چھین لئے جاتے ہیں۔اب وہ مہذب معاشرے پر ایک سیاہ دھبہ بن کر پولیس اسٹیشن کے بینچ پر بیٹھی ہے۔اب اس کا ذکر متاثرہ خاتون کے نام سے ہوتا ہے۔دوسری طرف سب کچھ نظر آنے کے با وجود قانون اپنی آنکھیں پھیر لیتا ہے اور جب وہ متاثرہ باہر بینچ پر اپنی باری کا انتظار کر رہی ہوتی ہے ٹھیک اسی وقت مجرمان اسی تھانے کے مالکوں کے ساتھ چائے اور بسکٹ کھا رہے ہوتے ہیں اور دونوں کی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے تو رپورٹ کا عمل اتنا دشوار کر دیا جائے اور دوسرا یہ تو تھی ہی ایسی۔بات ختم۔


متاثرہ عورت کو اتنے چکرلگوائے جاتے ہیں کہ اس کی روح بھی چھلنی ہو جاتی ہے۔ اس کی تذلیل کی کہانی بار بار چینلز پر دکھائی جاتی ہیں۔ قسمت سے اگرکسی وزیر مشیر نے دیکھ لی یا سن لی تو ایک دم سے رخت سفر باندھا اور ایک اور فلم شروع جس کا خاتمہ تھانے کے اسٹاف کی ڈانٹ ڈپٹ سے ہوتا ہے۔اور متاثرہ خاتون کے سر پر ہاتھ رکھ کر مبلغ 50 ہزار کا چیک دے کر ہیلی کاپٹر پر بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔کوئی ایک بھی ایسا کیس دکھائیں جس میں سزا ہوئی ہو۔عزت و ناموس کی دھجیاں اڑانے والے عناصر کو ملزم سے مجرم ثابت نہیں کیا جاتا کیونکہ نہ کوئی شہادت موجود ہے اور نہ کوئی ثبوت۔کیا ایک شخص جو چوری کا پلان کر کے آتا ہے وہ سب کے سامنے چوری کرے گا؟۔

میرا سوال صرف یہ ہے کہ حکمرانوں نے حوا کی بیٹی کی عزت کے نام 50 ہزار کے کتنے چیکس رکھے ہیں ؟ کب تک یہ بیٹیاں روز مرتی رہیں گی؟ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ زمانہ قدیم میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفنا دینے کا رواج ہی ٹھیک تھا ، کم ازکم ماں پاب کو ساری عمر کی ذلت اور رسوائی کا سامنا تو نہ کرنا پڑتا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story