2024

پاکستان ایک نظر میں ایک نئے شو کا آغاز

اگر تمام مسائل کا حل لیونگ آن دی ایچ کا حصہ بننے سے حل ہوسکتے ہیں تو پھر لوگوں چلو چلو عمران کے ساتھ ۔۔۔۔


سدرہ ایاز September 11, 2014
اگر تمام مسائل کا حل لیونگ آن دی ایچ کا حصہ بننے سے حل ہوسکتے ہیں تو پھر لوگوں چلو چلو عمران کے ساتھ ۔

KARACHI:

''لیونگ آن دی ایج'' ان الفاظ سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔ وقار ذکا کی جانب سے شروع کیا گیا شو جس میں ہر وہ انسان، لڑکا لڑکی، بچہ بوڑھا یا جوان کوئی بھی، جو باہمت ہو اور کچھ کر دیکھانے کی صلاحیت رکھتا ہوں دنیا کے سامنے آزمایا جاتا ہے اور جیتنے پر انعامات اور میڈل کا حق دار قرار دیا جاتا ہے۔


لیونگ آن دی ایج ٹی وی پر آنے والے ایک گیم شو کی تک تو ٹھیک ہے لیکن موجودہ حالات میں جب پوری دنیا کی نظریں پاکستان کے دھرنوں اور احتجاج اوپر جمی ہوئی ہیں وہاں اس قسم کی شو کی شروعات کسی حیرت سے کم نہیں۔ خاص کر عمران خان جیسا لیڈر جس نے کرپشن اور بدعنوانی میں لپٹے اس سسٹم کے خلاف اعلان بغاوت کیا وہ اپنےدھرنوں میں اس شو کی پذیرائی کررہا ہے، ناممکن۔


لگتا ہے قارئین کو میری آدھی ادھوری باتیں سمجھ نہیں آرہی تو جناب سب لوگوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ شام 5 بجے بمقام ڈی چوک اسلام آباد پر لیونگ آن دی ایج شو شروع کیا جارہا ہے، جس میں ہمت ہے دھرنے میں پوری دنیا کے سامنے آئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سب سے زیادہ ہمت دیکھانے والے کو کنٹینر کے اوپر لاکھوں لوگوں کے سامنے خان صاحب کے ہاتھوں میڈل بھی دیا جائے کا اور پی ٹی آئی کی بک آف ریکارڈ میں اس کا نام درج کیا جائے گا۔


جی ہاں کیونکہ وقار ذکا نے بذات خود اعلان کیا تھا کہ جب تک محترم نواز شریف صاحب استعفی نہیں دیں گے وہ دوبارہ شو کا آغاز نہیں کریں گے۔ اور عمران خان صاحب ٹھہرے نرم دل انہوں نے فوراَ ڈی چوک میں موجود ''خیمہ بستیوں'' کے لئے خصوصی تفریخ کا انتظام کردیا۔




جی ہاں اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد مجھ پر بھی حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ پہلی بات تو یہ کہ ناچنے گانے، کانسرٹ کرانے، مشہور و معروف سنگرز، اداکاروں کو بلانے حتی کہ ریئلٹی شو کرانے سے بھی کبھی کسی ملک میں تبدیلی یا انقلاب نہیں آتا اور نہ ہی آئے گا۔ مانا کہ خان صاحب کے بہت سے مطالبات غلط نہیں لیکن 28 دنوں سے دنیا بھر کے سامنے پاکستان کا تماشا بنانے سے کیا سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا؟۔


ان دھرنوں کی وجہ سے معیشت کو 800 ارب سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے، ڈالر کی قیمت بڑھتی جارہی ہے، اسٹاک ایکسچینج متاثر ہوا ہے، لوگوں کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، بچوں کی تعلیم مثاثر ہوئی ہے، اسلام آباد میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، چینی صدر کا دورہ پاکستان منسوخ ہوگیا اور ان سب سے بڑھ کر ہم ضرب عضب، آئی ڈی پیز اور سیلاب سے مثاثرہ افراد اور تباہ کاریوں کو بھلا بیٹھے ہیں۔


خان صاحب ٹھنڈے کنٹینرز میں بیٹھ کر تقریر تو ہر کوئی کرسکتا ہے، کچھ کرنا ہی تھا تو خیبر پختونخوا میں ڈیڑھ سال میں دہشت گردی کا خاتمہ کر کے دیکھاتے، کرنا ہی ہے تو اٹھ کر آپریشن سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لئے کچھ کر کے دیکھائیں، سیلاب سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ کیا ہوگیا ہے ہمارے حکمراںوں کو؟ ملک سنگین صورت حال سے گزر رہا ہے اور آپ کو دھرنوں میں شو کرانے سے ہی فرصت نہیں۔


دھاندلی، دھاندلی ، دھاندلی گذشتہ 28 روز سے ہر شام اس لفظ کی بازگشت ہر طرف سنائی دیتی ہے، اب جبکہ سوائے وزیراعظم کے استعفی کے حکومت سے دیگر امور پر اتفاق ہوچکا ہے تو دھرنے کا کوئی خاص جواز نہیں بنتا۔ بلکہ آپ تو استعفی بھی نہیں چاہتے صرف ایک ماہ کے لئے وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں تاکہ تحقیقات کرائی جاسکیں اور اس ملک میں ایک ماہ میں کون سے تحقیقات منظر عام پر آتی ہیں یہ سب کو ہی پتا ہے۔ کہیں یہ تبدیلی اور انقلاب کوئی بہت بڑی سازش تو نہیں تاکہ ملک کے دیگر مسائل سے عوام کی توجہ ہٹائی جائے۔


سوچنے یا لکھنے بیٹوں تو صفحات بھر جائیں گے۔ لیکن درحقیقت مجھے ان دھرنوں سے کوئی غرض نہیں۔ میری نظروں کے سامنے تو بس آپریشن اور سیلاب سے مثاثرہ بچوں کے چہرے ہیں، کسی ماں کے جڑے ہوئے ہاتھ ، کسی باپ کے جھکے ہوئے کندھے، دربدر کی ٹھوکریں کھاتے خاندان، آنکھوں میں امید کے آنسو لئے حکمرانوں کی جانب سے امداد اور تحفظ کے لئے دیکھتے متاثرہ افراد۔ میں جس جانب نظر ڈوراؤں مصیبوں اور مسائل میں گھری بے بس، لاچار عوام اور بے نیاز حکمران ہی نظر آتے ہیں۔


لیکن اگر ان تمام مسائل کا حل لیونگ آن دی ایچ کا حصہ بننے سے حل ہوسکتے ہیں تو پھر لوگوں چلو چلو عمران کے ساتھ ۔۔۔۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں