پانچ ماہ تک جاری قتل کیس میں بالآخر جنوبی افریقا کے جج نے ایتھلیٹ آسکر پسٹوریس کو اپنی گرل فرینڈ کےقتل سمیت تمام الزام سے بری کردیا ہے تاہم انہیں غیر ارادی قتل کیس میں اب بھی مزید مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جج نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ استغاثہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا جس کے باعث عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پسٹوریس نے جان بوجھ کر قتل نہیں کیا انہیں نہیں پتہ تھا کہ ٹوائلٹ کے دروازے کے پیچھے کون تھا، جج اپنے فیصلے میں کہا کہ انسانوں سے غلطی ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ انہوں نے گولیاں چلنے کی آوازیں یا انسانی چیخیں نہ سنی ہوں جب کہ عدالت نے ان دعووں کو بھی غیر اہم اور نامکمل قرارد ے دیا جس میں وکیلِ صفائی کا کہنا تھا کہ پولیس نے ثبوتوں کو کمزور کیا اور جائے وقوعہ سے اہم شواہد غائب کردیئے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آسکر پسٹوریس کوغیر ارادای قتل کرنے کے الزام میں قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن اس بات کا فیصلہ مختصر عدالتی وقفے کے بعد کیا جائے گا کہ پسٹوریس کو غیر ارادی قتل کے الزام میں قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے یا نہیں، دوسری جانب ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس بیان کے بعد پسٹوریس کے خلاف غیر ارادی قتل کا کا الزام ثابت ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر ان پر یہ الزام ثابت ہوتا ہے تو انہیں 25 برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
جج نے جب فیصلہ سنانا شروع کیا تو کٹہرے میں موجود پسٹوریس رو رہے تھے تاہم جب جج نے یہ نوید سنائی کہ قتل کے الزام سے پسٹوریس کو بری کیا جاتا ہے تو ان کے چہرے پر سکون اور خوشی کے تاثرات واضح نظر آنے لگے۔
واضح رہے کہ پسٹوريس پر الزام تھا کہ انہوں نےگذشتہ سال ویلنٹائن ڈے کے موقع پراپنی گرل فرینڈ 29 سالہ ریوا سٹین کیمپ کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا،آسکر پسٹوریس کیس کی ابتدا سے ان الزامات سے انکار کرتے رہے اور ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس خیال سے گولی چلائی کہ ان کےگھر میں کوئی گھس آیا ہے۔