قاصد کبوتر کی خیریت مطلوب ہے

اب مر تھا کے بارے میں تحقیق کر کے مواد جمع کیا جارہا ہے اور کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔۔۔

rmvsyndlcate@gmail.com

علامہ اقبال نے صحیح گریہ کیا کہ ع
قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے

مگر انسان نے جس بے دردی سے دوسری مخلوقات کو ہلاک کیا ہے وہ بھی قیامت سے کم نہیں ہے۔ ارے وہ تو اب ماحولیات کے جو مسائل ہمیں درپیش ہیں تب کچھ ہوش آیا ہے کہ پرندے اور چوپائے بھی ماحولیات کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کے ہونے نہ ہونے سے بھی یا ان کے تھوڑے رہ جانے سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سو اب حساب لگائے جا رہے ہیں کہ کون کونسے پرندے' کون کونسے جنگلی جانور اب کتنے رہ گئے ہیں۔ کونسی نسلیں نابود ہو گئیں اور کونسی قریب الختم ہیں ظالم و جاہل انسان اندھا دھند انھیں شکار کرتے چلے گئے۔

ابھی ایک ایسی ہی رپورٹ ہماری نظر سے گزری ہے۔ اسے پڑھ کر تو ہم حق دق رہ گئے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں کبوتر کی ایک قسم تھی جسے پسنجر پجن کا نام دیا گیا تھا۔ جتنی کثیر تعداد میں یہ پرندہ امریکا میں موجود تھا اتنی تعداد میں شاید ہی کوئی دوسرا پرندہ اس روئے زمین پر آباد تھا۔ ایک دفعہ نقل مکانی کے چکر میں جب وہ محو پرواز ہوئے تو لگا کہ کوئی گہری گھٹا امنڈ آئی ہے۔ کئی دن تک یہی عالم رہا۔ اندازہ لگایا گیا کہ یہ ڈھائی تین بلین کی تعداد میں تھے۔ لیکن اب سے سو سال پہلے کبوتروں کی یہ نسل نابود ہو چکی تھی۔ اور کیسے نابود ہوئی۔ ایسے کہ اندھا دھند انھیں شکار کیا گیا۔ بھون بھون کے انھیں کھایا۔ پھر دوسرے ملکوں میں انھیں برآمد کیا گیا۔ خاص طور پر مشرقی ملکوں میں۔

حساب لگا کر بتایا گیا ہے کہ 1900ء میں وہ اتنی کم تعداد میں رہ گئے تھے کہ ان کی نسل کو کسی صورت بچایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس نسل کے آخری نر نے 1910ء میں دم توڑا۔ البتہ کبوتری اس کے بعد بھی چند سال زندہ رہی۔ اس کا نام تھا۔ مر تھا۔ پرندوں کے ایک عجائب گھر میں وہ تھوڑا عرصہ جیتی رہی۔ لیکن بغیر جوڑے کے کب تک جیتی۔ آخر دم توڑ گئی۔ لیکن

مر گئے ہم تو زمانے سے بہت یاد کیا

اب مر تھا کے بارے میں تحقیق کر کے مواد جمع کیا جارہا ہے اور کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔
اس پر ہمیں اپنی طرف کا ایک کبوتر بہت یاد آیا۔ اسے بھی اب آنجہانی سمجھو۔ لیکن ہم اپنے ہمجنسوں کا حساب کتاب نہیں رکھتے۔ کبوتر کس چڑیا کا نام ہے۔ خیر اس کبوتر کا نام تھا قاصد کبوتر۔ اس کبوتر نے لمبے عرصے تک نامہ بر کے فرائض انجام دیے۔ شروع میں تو بس عاشقوں نے اس کی قدر کو پہچانا تھا۔ محبوبہ کے نام خط لکھا اور اس کے پروں میں پرو دیا۔

قاصد کبوتر نے عاشقوں کے ساتھ بہت نباہی۔ کتنے عرصے تک وہ عاشقوں کے محبت نامے محبوبوں کو پہنچاتا رہا۔ رفتہ رفتہ جب اس راز سے پردہ اٹھا کہ کس ذریعہ سے عاشقوں کے پیام محبوبوں تک پہنچتے ہیں۔ تب کوششیں شروع ہوئیں کہ کسی طرح سے نامہ و پیام کے اس سلسلہ کو منقطع کیا جائے۔ اس سلسلہ میں کیا اقدامات کیے گئے ان کا اس شعر سے پتہ چلتا ہے ؎


خط کبوتر کس طرح لے جائے بام یار پر
پر کترنے کو لگی ہیں قینچیاں دیوار پر
اس کا جو توڑ دریافت کیا گیا وہ بھی سن لیجیے ؎
خط کبوتر اس طرح لے جائے بام یار پر
خط کا مضمون پر پہ ہو اور پر کٹیں دیوار پر

رفتہ رفتہ قاصد کبوتر کا متبادل دریافت کیا گیا۔ وہ تھی پتنگ۔ نامہ لکھا اور پتنگ کے کنوں کے ساتھ باندھ دیا۔ جس چھت پر یہ پتنگ جھوک کھائے اس پر نظر رکھو۔ وہاں کوئی دوشیزہ کھڑی نظر آئے گی۔ پتنگ غوطہ کھا کر چھت پہ گری۔ دوشیزہ نے بڑھ کر نامہ کنوں سے جدا کیا۔ لیجیے وصل کا سامان پیدا ہو گیا۔

خیر قاصد کبوتر تو پھر بھی فارغ ہو کر نہیں بیٹھے۔ ان کے لیے جنگوں کے وسیلہ سے دوسری مصروفیت نکل آئی۔ جنگ کے زمانے میں جب رسل و رسائل کے سلسلے مسدود ہو جاتے تھے۔ تب ان قاصد کبوتروں کو یہ ذمے داری سونپی جاتی تھی۔ اس انقلاب زمانہ پر غور فرمائیے کہ قاصد کبوتر جب عاشقوں اور معشوقوں کی خدمت سے فارغ ہوا تو اس نے جنگی فرائض انجام دینے شروع کر دیے۔

ہاں قاصد کبوتر کچھ اور خفیہ فرائض بھی انجام دیتا رہا ہے۔ واجد علی شاہ پر تحقیق کرنے والے ایک محقق نے انکشاف کیا کہ اس زمانے میں ریاست حیدر آباد میں کبوتروں کو ایک اور خفیہ کام کے لیے سدھایا گیا تھا۔ ریاست کے خفیہ ایجنٹ دوسری ریاستوں کے علاوہ ریاست اودھ میں بھی متعین تھے۔ ایجنٹ نواب کی سرگرمیوں کی رپورٹ باریک پارچوں پر بہت باریک قلم سے لکھتا تھا۔ پھر ان پارچوں کو قاصد کبوتروں کے پروں کے بیچ چپکا دیتا تھا۔ پھر ان کبوتروں کو لکھنو کی طرف اڑا دیا جاتا تھا۔

اس محقق کی رسائی ان پارچوں تک ہو گئی۔ ان کے واسطے سے اس نے ریاست اودھ کے کتنے حالات اور واجد علی شاہ کی کتنی سرگرمیوں کا احوال معلوم کیا اور اپنی تحقیق کی پرواز پر علما و فضلا سے داد لی۔
مگر اب تو زمانہ ہی اور ہے۔ رسل و رسائل اور نامہ و پیام کے برقی ذرایع نکل آئے۔ انٹیلی جنس کے محکموں کو قاصد کبوتروں کی خدمات کی چنداں ضرورت نہیں۔ اب ہر عاشق کے کان سے موبائل چپکا نظر آتا ہے۔ قاصد کبوتر اور پتنگ دونوں کی عاشقانہ افادیت ختم ہو گئی۔

مطلب یہ کہ نئے زمانے میں جب بے روز گاری نے زور باندھا تو قاصد کبوتر بھی اس کی زد میں آ گئے۔ اب کیسے پتہ چلے کہ قاصد کبوتروں کے روز گار کی اب کیا صورت ہے۔ کبوتر بازوں سے ان کا سودا ہو گیا ہو تو وہ الگ بات ہے۔ بصورت دیگر وہ شکاریوں ہی کی زد میں آئیں گے بلکہ آ چکے ہوں گے۔ یہ تو اب کوئی محقق ہی تحقیق کر کے بتا سکتا ہے کہ قاصد کبوتر نابود ہو چکے ہیں یا باقیات الصالحات کے طور پر کچھ قاصد اب بھی کسی کسی چھتری پر غٹر غوں کرتے نظر آتے ہیں۔

اصل میں قاصد کبوتروں کا مستقبل تو اسی روز تاریک ہو گیا تھا جس روز ٹیلی فون ایجاد ہوا تھا۔ موبائل نے ان کے کاروبار کو بالکل ہی چوپٹ کر دیا۔
Load Next Story