سید سجاد ظہیر کی یادیں

یہ خلا ان ہندو و سکھ ممبران کی پاکستان سے بھارت ہجرت کے باعث پیدا ہوا تھا۔۔۔


ایم اسلم کھوکھر September 12, 2014

فروری 1948 کا ذکر ہے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا اہم ترین اجلاس کلکتہ میں ہو رہا تھا۔ اجلاس میں جو معاملہ زیر غور تھا وہ یہ تھا۔ قیام پاکستان کے وقت جو تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت عمل میں آئی ہے اس ہجرت کے باعث پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی میں قیادت کا جو خلا پیدا ہوا ہے اس خلا کو کیسے پر کیا جائے۔

یہ خلا ان ہندو و سکھ ممبران کی پاکستان سے بھارت ہجرت کے باعث پیدا ہوا تھا جوکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبران تھے مگر پاکستان کے قیام کے وقت ان ہندو و سکھ ممبران کا آبائی علاقہ پاکستان کا حصہ بن چکا تھا مگر اب قیام پاکستان کے بعد ان لوگوں کا پاکستان میں قیام کرنا ناممکن ہوچکا تھا چنانچہ طویل بحث مباحثے و غور وغوض کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کے لیے سید سجاد ظہیر کو پاکستان بھیجا جائے تاکہ وہ وہاں جاکر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی قیادت کرسکیں۔

یوں بھی سید سجاد ظہیر بلا شبہ اس عہدے کے حق دار تھے کیونکہ ایک تو سید سجاد ظہیر آکسفورڈ یونیورسٹی آف لندن سے تعلیم کی اعلیٰ ڈگری رکھتے تھے دوئم وہ کم سے کم 20 برس سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے وابستہ تھے سوم وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے نہ صرف بانی تھے بلکہ 1935 میں جب عالمی ترقی پسند تحریک کا اجلاس فرانس کے شہر پیرس میں ہوا تھا تو سید سجاد ظہیر ملک راج آنند کے ساتھ اس اجلاس میں بھی بنفس نفیس شرکت کرچکے تھے چنانچہ کلکتہ میں کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے کی روشنی میں سید سجاد ظہیر پاکستان تشریف لے آئے اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی قیادت کی ذمے داری سنبھال لی۔

اس وقت اور آج بھی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی ذمے داریاں نبھانا کوئی آسان امر نہ تھا نہ ہے کیونکہ اس وقت بھی اور آج بھی ایک خاص طبقہ ہے جو 11 اگست 1947 کو بانی پاکستان کی تقریر کو جس میں بانی پاکستان جناب قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی کو نظرانداز کرتے ہوئے اس بات پر زور دے رہا تھا اور زور دے رہا ہے کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے۔ ٹھیک ! پاکستان اگر ایک مذہبی ریاست ہے تو اسے مذہبی ریاست بناؤ مگر یہ مذہبی ریاست مدنی ریاست کی طرز پر ہونی چاہیے نا کسی تفرقہ باز ملا کی خودساختہ شریعت پر مبنی ہو بہرکیف بات ذرا دور نکل گئی۔ تو بات ہو رہی تھی سید سجاد ظہیر کی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی قیادت سنبھالنے کی۔ یہ قیادت یوں بھی مشکل تھی کہ قیام پاکستان کے وقت اور بعد میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان ہی وہ واحد پارٹی تھی جو حزب اختلاف میں تھی۔

1948 میں یوں بھی پارٹی کے لیے کام کرنا مشکل تھا کہ پاکستان نیا نیا معرض وجود میں آیا تھا اور قوم کے سامنے ہر سو مسائل کے انبار تھے اس کے باوجود سجاد ظہیر کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا اشتراکی نظام کا پیغام پھیل رہا تھا جب کہ امام علی نازش، ڈاکٹر اعزاز نذیر و حسن ناصر و دیگر پارٹی ممبران بساط بھر سید سجاد ظہیر کا ساتھ دے رہے تھے کہ 1953 میں حکومت وقت کا تختہ الٹنے کا ایک مقدمہ قائم کیا گیا۔ اس بغاوت کے مقدمے میں سجاد ظہیر کے ساتھ جن لوگوں کو نامزد کیا گیا ان میں جنرل اکبر خان، جنرل نذیر احمد، ایئرکموڈور جنجوعہ، بریگیڈیئر صدیق خان، بریگیڈیئر لطیف، لیفٹیننٹ کرنل نیاز محمد ارباب، لیفٹیننٹ کرنل ضیا الدین، میجر محمد اسحاق، میجر حسن خان، کیپٹن ظفر اللہ پوشنی، کیپٹن خضر حیات، محمد حسین عطا کے علاوہ مشہور شاعر فیض احمد فیض جوکہ اس وقت پاکستان آرمی میں کیپٹن کے عہدے پر فائز تھے ان تمام حضرات کو ایک عرصے تک حیدرآباد جیل میں رکھا گیا۔

نازونعم میں پلے بڑھے سید سجاد ظہیر نے اسیری کی تمام مشکلات کو پامردی سے جھیلا اور ثابت کردیا کہ اگر انسان اپنے نظریات میں صادق ہو تو یہ عارضی مشکلات اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔1954 میں سجاد ظہیر کو جیل سے تو رہائی مل گئی مگر ان کو ملک بدری کے احکامات بھی دے دیے گئے۔

اسی پر بس نہیں بلکہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگادی گئی مگر سجاد ظہیر کی ملک بدری کے باوجود کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان زیرزمین رہ کر بھی اپنا کام کرتی رہی کیونکہ سجاد ظہیر کے بعد بھی کمیونسٹ پارٹی کا جھنڈا بلند رکھنے والوں کی کمی نہ تھی ان لوگوں میں امام علی نازش، ڈاکٹر اعزاز نذیر، سوبھوگیان چندانی، چاچا مولا بخش،13 نومبر 1960 کو لاہور کے شاہی قلعے میں شہید ہونے والے حسن ناصر9 اگست 1980 کو کراچی میں شہادت پانیوالے نذیر عباسی کے علاوہ جو لوگ بقید حیات ہیں ان میں ڈاکٹر مظہر کامریڈ، شوکت کامریڈ، جہانگیر آزاد، حکیم شہاب ، اوسط علی جعفری، کامریڈ رشید، صادق جتوئی، کامریڈ لدھا رام، کامریڈ ڈامزمل وغیرہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری امداد قاضی کی قیادت میں جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

جب کہ 95 سالہ سوبھو گیان چندانی کا آج بھی پختہ یقین ہے کہ پاکستان میں تبدیلی آئے گی اور اقتدار پاکستان کے حقیقی وارثوں کو منتقل ہوگا ۔ دوسری جانب سجاد ظہیر ملک بدری کے بعد بھارت چلے گئے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں متحرک ہوگئے اور ساتھ ہی ساتھ ادبی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ اور پانچ کتابیں تحریر کیں جن میں ذکر حفیظ، انگارے، لندن کی ایک رات، پگھلا نیلم اور روشنائی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار افسانے، مقالے و دیگر مضامین قلمبند کیے اور زندگی کی آخری سانس تک ادب سے وابستہ رہے اور بالآخر 13 ستمبر 1973 کو ال ماتے، سٹی قازقستان میں جہاں وہ ایک ادبی کانفرنس افرو ایشین میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے تھے حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے۔ سجاد ظہیر آزادی نسواں کے زبردست حامی تھے۔

ان کی تحریروں سے یہ پیغام ملتا ہے کہ وہ معاشرے کبھی ترقی نہیں کرسکتے جن معاشروں میں عورت آزاد نہ ہو۔ آج ہم سجاد ظہیر کی 41 ویں برسی کے موقعے پر ان کو دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس پیغام کے ساتھ لڑائی سے پہلے ہارو مت اور جیت کی لگن کے ساتھ لڑو ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں