استنبول کے اداس سائے

دو دن تک استنبول آگ میں جھلستا رہا۔ پاموق نے اس واقعے کی ایسی منظر نگاری کی ہے کہ پڑھنے والے۔۔۔


منظور ملاح September 12, 2014

آج یہاں میں جس نوبل لاریٹ ناولسٹ کی کتاب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں ان کا تعلق بھی ترکی سے ہے۔

نام اورہان پاموق، حال ہی میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی میں تقابلی ادب اور لکھنے کے فن پر بطور پروفیسر پڑھاتے ہیں، اور ہندوستان کی ''دی انھیریٹنس آف لاس'' پر بوکر پرائز حاصل کرنے والی لکھاری کرن ڈیسائی کے ساتھ معاشقہ چل رہا ہے۔ ان کا نام اورہان ان کی والدہ نے سلطنت عثمانیہ کے دوسرے سلطان اورہان کے نام پر رکھا، جس نے سلطنت عثمانیہ کے دوسرے سلطانوں کی بہ نسبت اپنے عوام کا زیادہ خیال رکھا اور سادہ زندگی گزارنے کو ترجیح دی، 1952 میں پیدا ہونیوالے پاموق نے 1974 میں لکھنا شروع کیا۔ رسیت اکرم ککو، احمت رسیم، فرانزکافکا، نوبوکوف اور سارتر وغیرہ جیسے جینئس لکھاریوں سے متاثر اس لکھاری نے دی بلیک بک، دی سنو، دی وائٹ کاسٹل، مائی نیم از ریڈ، دی نیو لائف، استنبول اور دی میوزیم آف انوسینس جیسی زبردست کتاب لکھی۔ جن کا بین الاقوامی ادب میں ایک خاص مقام ہے، لیکن مائی نیم از ریڈ (ناول) اور استنبول (بائیوگرافی) ماسٹر پیسز ہیں۔

2006 میں نوبل پرائز حاصل کرنیوالے اس لکھاری کی کئی کتابیں دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ لیکن یہاں ہم اس لارجر دین لائف لکھاری کی کتاب استنبول کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ 348 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مورین فریلی نے ترجمہ کیا ہے، جسے فیبر اینڈ فیبر لندن والوں نے چھاپا ہے، 1948 میں نوبل پرائز حاصل کرنیولے اور دی ویسٹ لینڈ جیسی شاہکار نظم لکھنے والے انگریز شاعر ٹی ایس ایلیٹ نے بھی اس ادارے میں نوکری کی تھی۔ کتاب استنبول کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے، پہلا حصہ ان کے پچپن، خاندانی پس منظر، معاشقے، اور مختلف اداروں میں پڑھنے کے دوران ان کی یادداشتوں پر مشتمل ہے، جب کہ دوسرا حصہ استنبول شہر کی تاریخ، ثقافت، تہذیب اور ڈیموگرافی کو بیان کرتا ہے، لیکن پاموق کا کمال یہ ہے کہ وہ دونوں حصوں میں توازن برقرار رکھتے ہوئے تسلسل میں بڑھتا جاتا ہے۔ یہ کتاب پاموق کے ذہن میں سے اٹھتے ہوئے وہموں، سوچوں، خدشات، شہر کے اداس اور دھندلے عکس، دکھی مناظر اور اندر کو ہلا دینے والی یادداشتوں کا مجموعہ ہے، جس میں Melancholy کا ذکر کیا گیا ہے، جسے وہ ترک زبان میں حزن کہتے ہیں۔ جس کا ایک اسلامی پس منظر ہے، کہ جس سال حضرت خدیجہ اور ابو طالب وفات کر گئے، اسے حضورﷺ نے حزن کا سال کہا ۔

اس کتاب میں پاموق نے اپنے پیشرو لکھاریوں جیسے اپنی یادداشت لکھنے والے عبدالحق حصار، شاعر یحییٰ کمال، ناول نگار احمد حامدی اور تاریخ دان و صحافی رسیت اکرم ککو کی استنبول شہر کی اداسی کے متعلق لکھی ہوئی تصانیف کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے جنہوں نے سلطنت عثمانیہ کے دور کے متعلق مفید معلومات دی ہیں، جن کی تصانیف میں بھی وہی درد فراق موجود ہے۔ پاموق کو بھی وہی حزون(حزن) بچپن سے استنبول کی پرانی بازاروں، اجڑی ہوئی گلیوں، قدیم عمارتوں ان میں رہتی ہوئی اداس عورتوں، بازار میں گھومنے والے غریبوں، سلطنت عثمانیہ کے دور کی اجڑی ہوئی شاندار عمارتوں، قبرستانوں، مساجد، چرچوں، سمندر کے کنارے موجود لکڑیوں کی بنی ہوئی عمارتوں، سمندر میں تیرنے والی چھوٹی بڑی کشتیوں ان میں سوار کافی کے گھونٹ بھرنے اور سگریٹ کے کش لگانے والے مسافروں کی طرف کھینچ کر لے جاتا رہا ہے، جو ان کی تنہا اور اداس زندگی میں سکون کا احساس پیدا کرتا رہا ہے، وہ درد جو استنبول شہر کی قومی شناخت، غربت، کلچر اور تہذیب کی تباہی پر اسے رلاتا رہا ہے۔

شہر کی ان کڑوی حقیقتوں نے انھیں استنبول پر لکھنے پر آمادہ کیا ، جس کے ہر لفظ میں خون کے آنسو بہتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہی سبب ہے کہ پاموق کسی اسکول یا تعلیمی ادارے میں باقاعدہ پڑھنے کی بجائے، استنبول کے راستوں کا راہی رہا ہے، اور راتوں کو استنبول کے دھندلے عکس کو اندر میں جذب کرتا رہا ہے۔ انھیں نیم ماڈرن استنبول سے چڑ ہے، جس میں منافقتی، تجارتی ذہن، انگریزی اور فرینچ زبانوں میں لکھے ہوئے بل بورڈ، جھوٹی انا اور دکھاوا جیسی بلائیں بل دیکر بیٹھی ہوئی ہیں، اور کسی سادہ لوح آدمی کو ڈسنے میں دیر نہیں کرتیں۔ انھیں ان دولت مند خاندانوں سے بھی نفرت ہے جو پیسے کے بہتے ہوئے دریا میں اپنی قومی شناخت، ثقافت، انسانی رشتوں ناتوں کو بھی بہا دیتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے بچپن کے استنبول سے پیار کرتا ہے، جو اب دھند میں گھرا ہوا ہے، جو اجڑا ہوا مفلس شہر ہے، ترک تہذیب کی علامت ہے، جہاں مغربی سیاح صرف انجوائے کرنے آتے ہیں اور یہاں رہنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اس لیے بچپن میں ایک طرف برگر فیملیز سے تعلق رکھنے والے کلاس فیلوز ان کا تمسخر اڑاتے اور لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں، تو دوسری طرف ان کے خاندان کے افراد انھیں ڈانٹتے ہوئے، نصیحتیں کرتے ہوئے ذہنی عقوبتیں دیتی ہیں، یہی احساسات، محرومیاں اور اداسیاں ان کے انداز میں قوت اور ہمت پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں، جس سے اس کے ذہن میں یہ بات پختہ ہوجاتی ہے کہ ایک دن وہ ضرور کچھ نہ کچھ بن کر دکھائے گا۔ ان کی زندگی میں ایک اور موڑ اس وقت آتا ہے، جب وہ پینٹر بننے کے دوران ایک دولت مند خاندان کی لڑکی کو دل دے بیٹھتا ہے لیکن لڑکی کے خاندان والے لڑکی کو سوئٹزرلینڈ بھیج دیتے ہیں، کیوں کہ ترک برگر فیملیز کا خیال ہے کہ کوئی بھی پینٹر یا آرٹسٹ یورپ میں تو کما سکتا ہے لیکن ترکی میں صرف در در کے دھکے کھا سکتا ہے۔

یہ صدمہ ان کی قوت ارادی کو مزید مضبوط بنا لیتا ہے۔ وہ گھر میں بیٹھ کر اپنی والدہ سے بحث کرنے کی بجائے سورج غروب ہوتے ہی استنبول کی گلیوں میں گم ہو جاتا ہے کیوں کہ اسے استنبول کے آثار قدیمہ اور گم ہوتی ہوئی شاندار ماضی سے پیار ہے۔ شہر میں اکیلے گھومنے کے دوران وہ پرانی دکانوں کی کھڑکیوں، ریسٹورینٹس، دھندلی روشنی کا منظر پیش کرنیوالے کافی ہاؤسز، پلوں، سینماؤں ، اشتہاری بورڈوں پر لکھے ہوئے الفاظ، گندگی، کیچڑ، برسات کے گرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قطروں، روشنیوں، گاڑیوں کی بتیوں اور گندگی کے ڈبوں میں منہ مارنیوالے کتوں کا بغور مشاہدہ کرتا ہے ، جس سے نئی حقیقتیں دریافت کرتا ہے، اور ان کو آدھی رات سے لے کر صبح کی روشنی تک اپنے کاغذوں پر اتارتا ہے، وہ ان کا درد اپنا درد محسوس کرتا ہے۔

اس کے نتیجے میں ان کے ذہن میں پیدا ہونیوالا غصہ، رنج، خیالات اور تصورات ان کے یقین کو مزید پختہ بنا لیتے ہیں کہ ایک دن وہ ضرور ایک بڑا کام کر دکھائے گا۔ جس سے ان کی تخلیقی قوت بڑھتی جاتی ہے، اور وہ باقاعدہ لکھاری بن جاتا ہے۔ پاموق کی اس تصنیف میں زبردست قسم کے تصورات اور تخلیقی فن پڑھنے والے کے ذہن کو ہلا دیتے ہیں۔وہ استنبول کے جدید شہر کی بجائے قدیم شہر کی تاریخ پر زیادہ زور دیتا ہے، پاموق نے ترک اور مغربی لکھاریوں کی تصنیفوں کو بنیاد بنا کر 1299 سے 1923 تک استنبول شہر کا پر مغز جائزہ لیا ہے۔ بقول پاموق 1923 میں جب ترکی میں انقلاب آیا اور انقلابی اصلاحات مکمل طور پر نافذ نہ ہو سکیں تو ترکی رسم الخط کی تبدیلی، سیکولرزم، جدید لباس، ویسٹرنزم اور نیشنلزم کے بھنور میں پھنستا گیا، جس کے اثرات استنبول پر بھی پڑے اور پر امن شہر میں آگ بھڑک اٹھی تو ترک اپنی صدیوں کی ثقافت سے ہاتھ اٹھانے لگے۔

ترک نیشنلزم کے اس لہر نے 1955 میں شہر کی اقلیت پر قیامت برپا کردی۔ اسی سال جب برطانیہ قبرص سے جانے لگا تو یونان نے قبرص پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی، جس کا پتہ ترکی کو پڑ گیا اور ترک سیکریٹ سروس کے ایجنٹ نے یونان کے شہر سیلونکیا کے اس گھر میں بم پھینکا، جہاں کمال اتاترک پیدا ہوئے تھے۔ جب اس واقعے کی خبر استنبول کے اخباروں میں چھپی تو شہر کے مسلمانوں کے ایک مجموعے نے وہاں رہنے والے غیر مسلموں پر حملہ کر دیا۔ اقلیتی لوگ خوف سے شہر کیتکرم چوک پر اکٹھے ہوئے۔ ان کی دکانوں کو جلایا اور لوٹا گیا، یونانی اور آرمینیائی عورتوں کے گھروں میں گھس کر عزتیں لوٹی گئیں۔

دو دن تک استنبول آگ میں جھلستا رہا۔ پاموق نے اس واقعے کی ایسی منظر نگاری کی ہے کہ پڑھنے والے کے اندر سے بھی دھوئیں دکھیں گے۔ استنبول کی وہ ساحلی پٹی، جس کے کنارے لکڑی کی خوبصورت عمارتیں تھیں، جو قدیم دور میں بازنطینی تہذیب کا مرکز اور بعد میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں مسلم ثقافت کا مرکز رہا ہے، اب وہ دو حصوں میں تقسیم ہے ایک جدید ویسٹرنائیزڈ شہر اور دوسرا قدیم، ثقافتوں کی راکھ کا ڈھیر بنی ہوئی عمارتوں، مسجدوں اور قبرستانوں کا شہر۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں کئی رنگ ہیں، حقیقتیں، مسکراہٹیں، آہیں اور غصے ہیں، انسانی نفسیات، تاریخ جاگرافی، آرٹ، آرکیٹیکچر، کلچر و تہذیب، ڈیموگرافی اور ادب جیسے علوم بھی سمائے ہوئے ہیں۔

قارئین کی جمالیاتی حس کو چھونے کے لیے استنبول کے مختلف ادوار کی تصویریں بھی شامل کی گئی ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں مشہور برطانوی اخبارگارجین لکھتا ہے کہ یہ ایک قیمتی اور معلومات دینے والی کتاب ہے، جو ایک طرف بچپن کی یادوں پر مشتمل ہے تو دوسری طرف استنبول شہر کے متعلق نثر کا میوزیم ہے، جس کے ذہن میں مغرب لیکن روح میں مشرق موجود ہے۔ یہ کتاب فرد اور شہر کے درمیان روحانی رشتوں کا گہرا مطالعہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں