عوام میں تبدیلی کا احساس
ایوب خان جو 1958 سے لے کر 1969 تک مطلق العنان صدر پاکستان بھی رہے۔۔۔
ISLAMABAD:
ہم تبدیلی کیوں چاہتے ہیں؟ بظاہر یہ یک سطری سوال ہے لیکن اس کے جواب میں دفتر کے دفتر پیش کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا گلا اسی وقت گھونٹ دیا گیا تھا اور آمریت کے پودے کی آبیاری اسی وقت شروع ہوگئی تھی جس وقت پاکستان کی عمر بمشکل دس، گیارہ سال کی تھی۔ ڈکٹیٹر شپ نے جمہوریت کی رگ کو ایک ماہر جراح کی طرح آمریت کی رگ سے جوڑ دیا، لہٰذا پاکستان اگر جسم ہے تو اس جسم کے طول و عرض مغرب و مشرق میں آمریت سرائیت کرگئی، جس سے فرد واحد اور اجتماعیت کو اپنے حقوق کے لیے صعوبتیں اٹھانی پڑیں۔ حکمرانوں نے پاکستان کے وسائل کو نانی جی کا گھر سمجھتے ہوئے ہتھیانا شروع کردیا۔
ایوب خان جو 1958 سے لے کر 1969 تک مطلق العنان صدر پاکستان بھی رہے بلکہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر بھی فائز رہے وہ ملک فیروز خان نون کے بعد آٹھویں وزیراعظم بھی تھے۔ اس کا تو ایک ہی مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ نوزائیدہ مملکت خداداد پر آمریت کو، آمرانہ رویوں (جو آج کل پاکستان میں خوب رائج ہیں) اور آمرانہ قدروں کو بالواسطہ یا بلاواسطہ سیاست پر قدغن لگانے کے لیے ایک یونیورسل فارمولے کے تحت میدان عمل میں اتارا گیا۔ اور اس کے بعد اگر کوئی سول طرز حکومت بن بھی گئی تو اس کے کرتا دھرتاؤں نے بھی اپنی طرف سے کوئی کوشش ایسی نہیں کی کہ جس سے ملک میں جمہوری اداروں کو مضبوط کیا جاسکے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں آمروںکو مجبور کیا گیا کہ وہ آئے اور آکر اقتدار سنبھالے۔
اسلام میں جمہوریت ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اسلام ہی نے ساری دنیا میں اپنے طرز عمل و طرز حیات سے جمہوریت کو فروغ دیا تو غلط نہ ہوگا۔ اسلام میں موروثیت ہرگز بھی نہیں ہے کہ باپ کے بعد اس کا بیٹا آجائے، کوئی بھائی بند آجائے، بیٹا نا آسکا تو بیٹی آجائے، یہ ہرگز اسلام میں نہیں ہے، بلکہ اسلام میں تو اگر خاندان کا سربراہ اپنے عہدے سے ہٹ جائے تو کوئی بڑا، مدبر، زیرک، فہم و فراست والا شخص ہی مسند اقتدار پر آسکتا ہے۔ لیکن اس طرز عمل کے بالکل برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں موروثی سیاست کو پھلنے پھولنے دیا گیا۔ باپ وزیراعظم تو بھائی وزیراعلیٰ، بیٹا وزیر تو بیٹی مشیر۔ یہ جمہوری رویہ تو ہرگز نہیں ہے، یہاں جو بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ پکڑ کر آیا وہ مطلق العنان ہوگیا۔
وسطی جنوبی ایشیا، جنوبی ایشیا میں بھی کئی ملکوں میں بادشاہت رہی بلکہ جاپان میں تو ابھی تک ہے لیکن بادشاہت بھی حکومتی اصطلاحات یا اصلاحات یا حکومتی اقدامات میں دخل انداز نہیں ہوتی بلکہ وہی حکومت سامنے آتی ہے جو عوام کے لیے، ملک کے لیے سود مند ہو۔ او آئی سی میں جتنے بھی اسلامی ممالک ہیں وہاں کیا ترقیاتی کام ہو رہا ہے، سارے اسلامی ممالک کا اجتماعی جی ڈی پی ایک اکیلے جاپان کے برابر بھی نہیں ہے۔ مقام افسوس ہے کہ مسلمانوں پر اگر آج دنیا میں ظلم ہو رہا ہے جیسے غزہ، فلسطین، سوڈان، کشمیر وغیرہ تو او آئی سی آج تک کبھی ایک صفحے پر نہیں آئی، آج تک ہم آواز نہ ہوسکی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارا دنیا کی مجموعی اقتصادیات، معاشی، زرمبادلہ کی صورت میں کوئی حصہ ہی نہیں ہے۔
پاکستان کی کل عمر 68 سال کا نصف 34 سال دور آمریت میں گزرا ہے، جہاں کوئی ایسا کام نہ ہوسکا جس سے اقتصادی میدان، پیداواری حجم، ترقیاتی میدان میں رتی برابر بھی پیش رفت ہوتی۔ یہاں چور بازاری، لوٹ مار، ذرایع و وسائل پر قابض ہونے کی صورت میں فرد واحد تو امیر سے امیر ترین ہوگیا اور بے چارہ غریب، غریب تر۔ ہم کو دنیا نے نو آبادیاتی نظام میں جھونک دیا۔ جہاں WTO اور گلوبلائزیشن نے ہماری معیشت کا خانہ خراب کردیا اور پھر حکمرانوں نے W.B سے اس قدر قرضے لیے کہ ہر پاکستانی شہری کم ازکم 165 ڈالر کا مقروض ہے۔
اس پر شرح سود اس قدر زیادہ ہے کہ الامان الحفیظ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، تھر میں کوئلے کے اتنے ذخائر ہیں کہ 500 سال تک ہم کو کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی بلکہ ہم دنیا کو بجلی فراہم کریں گے۔ کوئی ایسی قیادت آئے جو ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرسکے۔ ہمارے یہاں خود زیرک اور ہوشمند سیاستدانوں نے اپنی طفل حرکات کے سبب آمریت کو خوش آمدید کہا۔ ایوب، ضیا الحق، مشرف کے مارشل لا اپنی جگہ لیکن جواز تو سیاستدانوں ہی نے فراہم کیا۔ انتخابی دھاندلی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے 2014 میں پھر وہی حالات ہیں جو 1977 میں تھے۔ احتجاج، مظاہرے، دھرنے اور لانگ مارچ، کیا یہ لڑائیاں کسی طالع آزما کے آنے کی نوید ہی معلوم ہوتی ہیں ۔
اسلام دین ہی جمہوری روایات، جمہوری قدروں، جمہوری رویوں، جمہوری اداروں اور سب سے بڑھ کر جمہوریت کا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مغرب ہم سے جمہوریت کے راز و رموز سیکھتا۔ لیکن یہ مقام صد افسوس ہی ہے کہ ہمارے گھر کی چیز آج غیر کی ملکیت ہے، ہم نے ملک میں انارکی، بربریت، ظلم و ستم، تذلیل، رعونیت، فرعونیت، ابلیسیت کو خود طاقتور کرکے اپنے اسلاف کی امانت جمہوریت، یہود و نصاریٰ کو دے دی۔ جمہوری معاشرے میں فرد واحد کو یہ حق آئین نے دیا ہے کہ وہ وزیر سے پوچھے، بتاؤ تمہارا ذریعہ معاش کیا ہے، تمہارے اثاثے کتنے ہیں؟
پاکستان کی تاریخ میں حکومتی اعتبار سے ایک عام آدمی کے مقابلے میں اسٹیٹس کو رکھنے والی جماعتیں آڑے آجاتی ہیں۔ آج کیا ہو رہا ہے، آج جس طرح حکمران اور عوام دو طبقوں میں بٹ چکے ہیں اسی طرح مختلف سیاسی جماعتیں بھی آمنے سامنے آگئی ہیں۔ اگر موجودہ حکومت ختم ہوگئی تو انتخابی اصلاحات کون کرے گا؟ ایک طرف (ن) لیگ کی حکومت ختم ہوجاتی ہے تو نیا حکمران کون ہوگا اور کس عمل سے گزر کر آئے گا؟ حکومت کو ہٹانے کا ایک آئینی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت طوعاً و کرہاً اپنی مدت پوری کرے۔
اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کے ذریعے نگراں حکومت قائم کرے اور پھر تین ماہ کے اندر الیکشن کمیشن نئے انتخابات کرائے مگر نگراں حکومت کو پالیسی یا پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے، وہ انتخابی اصلاحات کرنے کے کیسے مجاز ہوسکتی ہے، صرف پارلیمنٹ ہی کو انتخابی اصلاحات کرنے کا حق حاصل ہے۔ اب حکومت مخالف سیاستدان خود پارلیمنٹ کی رخصتی کی بات کر رہے ہیں۔ اگر انسیاستدانوں کے پاس کوئی انتخابی اصلاحات ہیں تو وہ پارلیمنٹ میں پیش ہوکر اس کو نافذ العمل کروائیں ۔ تحریک انصاف نے غالباً چار سے پانچ صفحوں پر مشتمل کوئی مسودہ تو سپریم جوڈیشل کونسل کو دیا ہے۔ مگر صدر صاحب کے پاس کیا اختیارات ہیں، اس سارے ہنگامے میں کسی بھی طرف سے نا ہی ان کا کوئی بیان سامنے آیا ہے، نا ہی کوئی احکام ان کی طرف سے جاری ہوا ہے ۔
اگر صوبائی حکومتوں کی مجموعی کارکردگی کی بات کی جائے کہ پچھلے 15 ماہ میں کسی صوبے میں ایسا کوئی تسلسلی بخش کام نہیں ہوا جو دوسری صوبائی حکومت کے سامنے مثال ہو۔منی پاکستان کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ ہم اس وقت شاید اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف اندھیاروں میں راستہ جا رہا ہے، لیکن راستہ بالکل صاف ہے جس سے میرے، آپ کے پیر زخمی نہیں ہوں گے، سفر میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور دوسری طرف روشنی ہے لیکن راستہ تھوڑا سا خار زار ہے۔ یہ احتمال ہے کہ پیروں میں زخم آسکتے ہیں اور کچھ تکلیفیں بھی اٹھانا پڑسکتی ہیں، لیکن منزل صاف نظر آرہی ہے۔
آپ کون سے راستے کا انتخاب کریں گے اگر اندھیاروں میں جانا ہے تو ہم عوام اندھیاروں ہی میں ہیں۔ اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن کل ہمارے بچے جوان ہوں گے شاید ہم نہ ہوں تو ان کے لیے ہم کو منزل کے قریب جانا ہے چاہے زخم در زخم لگتے جائیں کیونکہ روشنی ہماری منزل ہے، کب تک انصاف کے لیے لڑیں گے، کب تک ہمیں روکا جائے گا، جھوٹ فوراً پکڑا جاتا ہے اور اپنی موت آپ مرتا ہے۔ سچ سو سال بعد بھی زندہ ہوتا ہے۔