ایسا ہی انجام
’’سندھ میں نیگلیریا سے ہونے والی اموات کی تعداد 11 ہوگئی‘۔۔۔
ISLAMABAD:
سیاست اور بطور خاص موجودہ سیاسی حالات پر سب مل کر اس قدر لکھ رہے ہیں، تمام چینلز سب کام چھوڑ کر اسلام آباد دھرنوں کو 24 گھنٹے براہ راست نشرکرتے رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ پاکستان میں اس ایک مسئلے کے سوا کوئی مسئلہ باقی ہی نہیں رہا۔اب جو ذرا غورکیا تو اندازہ ہوا کہ ہر کوئی اسی موضوع پر عقل اور قلم دوڑا رہا ہے یعنی ہر کوئی اس موضوع پر ہر انداز سے (مخالفت یا موافقت) لکھ رہا ہے تو ہم نے سوچا کہ چلو اب ہمیں کسی اور جانب توجہ مبذول کرنا چاہیے۔ بس ارادہ کرنے کی دیر تھی، کئی خبروں نے ہمارے دامن خیال کو اپنی جانب کھینچنا شروع کردیا۔ بغور پڑھا تو خیالی جنت سے بیک بینی و دوگوش ابلیس کی طرح نکالے گئے۔ کیونکہ ہم ہی کہیں اور بھٹک گئے تھے دنیا تو اپنی ہی پرانی ڈگر پر چل رہی تھی۔
''سندھ میں نیگلیریا سے ہونے والی اموات کی تعداد 11 ہوگئی'' چارکالمی خبر پر نظر پڑی، تفصیل اس خبر کی کچھ یوں ہے کہ محکمہ صحت اور واٹربورڈ کے ذمے داران نے 2005 میں سامنے آنیوالے اس مرض کے پھیلاؤ کے خلاف کوئی مناسب اقدامات ہی نہیں کیے کیونکہ پانی میں مطلوبہ مقدار میں کلورین شامل نہیں کی جا رہی بلکہ شہر کے کئی علاقوں کے پانی کا تجزیہ کیا گیا تو کلورین کی مقدار صفر یعنی نہ ہونے کے برابر پائی گئی۔
ہمیں یاد ہے کہ کچھ سال قبل پانی میں کلورین کی موجودگی سونگھ کر ہی محسوس کی جاسکتی تھی ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ یہ تعداد (مرنے والوں کی) صرف رواں سال کی ہے جب سے اس دماغ خور جرثومے کا انکشاف ہوا ہے جب سے اب تک تو اس مرض میں ہلاک ہونیوالوں کے اعداد و شمار اور بھی بڑھ چکے ہوں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کلورین پانی میں شامل کیوں نہیں کی جارہی؟ بات وہی یعنی پیسہ بٹورنے کی ہے بجٹ میں تو سب کچھ شامل ہوتا ہے مگر ضروریات کو پورا کرنے کے بجائے وہ سب رقم کہیں نامعلوم جگہ منتقل ہوجاتی ہے۔ عوام مرتے ہیں تو مرنے دو آخر تو مرنا برحق ہے۔
خبر اگرچہ کچھ پرانی ہوچکی ہے شہری صفحے (سٹی پیج) کی شہ سرخی تھی کہ محکمہ صحت نے شہر میں ہیپاٹائٹس کے علاج کے لیے اربوں روپے کے انجکشن سرکاری اسپتالوں میں تقسیم کردیے ہیں اور وہ ضرورت مند غریب مریضوں کو آدھی قیمت پر لگائے جائیں گے مگر خبر کی تفصیل یہ تھی کہ تاحال کسی بھی اسپتال کو یہ انجکشن مہیا نہیں کیے گئے اور مریض ازخود مہنگے داموں میڈیکل اسٹورز سے خرید کر استعمال کر رہے ہیں۔ اسپتالوں کے ذمے داران نے ایسے کسی بھی اقدام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں تو آج تک ایسی کوئی دوا فراہم نہیں کی گئی۔ مگر کھوج لگانیوالوں نے بتایا کہ یہ انجکشن خریدنے کے لیے رقم کا بل تو پاس ہوا ہے۔
اب تازہ خبروں کے مطابق کے ایم سی کے اسپتالوں کو ہر طرح کی فیسوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اور اس کا نفاذ فوری طور پر کیا جائے گا۔ یعنی او پی ڈی کی فیس ان اسپتالوں میں پانچ روپے ہوا کرتی تھی ایک دم اضافے کے باعث پچیس روپے ہوگی اس کے علاوہ آپریشن، لیبارٹری ٹیسٹ اور بے ہوش کرنیوالے ڈاکٹروں کی فیس میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ یہ اسپتال وہ ہیں جہاں غریب لوگ علاج کرانے آتے ہیں جو بڑے بڑے نجی اسپتالوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ کے ایم سی کے تحت چلنے والے اسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس نے اس حکم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اضافے کو مریضوں پر ظلم قرار دیا۔
صحت وہ شعبہ ہے جس کی مکمل ذمے داری حکومت وقت پر ہونا چاہیے کیونکہ تکلیف جتنی امیروں کو ہوتی ہے اتنی ہی غریبوں کو بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ امیر اپنا علاج اعلیٰ سے اعلیٰ نجی اسپتالوں میں اور اگر ضرورت ہو تو بیرون ملک بھی جاکر کروالیتے ہیں مگر اصل مسئلہ تو غریبوں کا ہے کہ وہ کہاں جائیں چشم تصور سے ذرا دیکھیے ایک غریب ماں کا بچہ کسی مرض میں مبتلا ہے تو وہ سرکاری یا کے ایم سی کے اسپتالوں ہی میں لے کر اس کو جائے گی جو گھر سے اسپتال تک جانے کے اخراجات کے لیے رشتے داروں یا پڑوسیوں سے قرض لے کر وہاں پہنچے اور پتا چلے کہ یہاں تو ڈاکٹر سے لے کر تمام ٹیسٹ تک کی بھاری فیس ادا کرنی ہے تو وہ کیا کرے؟ اگر وہ غریب ہے تو کیا ماں نہیں؟ نیگلیریا پاکستان میں تو اب تک لاعلاج ہی ثابت ہوا ہے جو اس میں مبتلا ہوگیا اس کے بچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر 2005 میں ڈی ایچ اے میں اے لیول کا ایک طالب علم پوری کلاس کے ساتھ سمندر پر پکنک یا مطالعاتی دورے پر گیا تو وہ ساحل پر اگی جھاڑیوں کے پاس تھک کر لیٹ گیا۔
وہاں اس کو نیگلیریا کا مرض لاحق ہوگیا وہ اسکول کا بہترین طالب علم، حافظ قرآن، مقرر اور بے حد ہر دلعزیز لڑکا تھا جب اس کو یہاں کے اسپتالوں کے ماہرین کو دکھایا گیا تو انھوں نے اسی مرض کا خطرہ ظاہر کیا مگر خوش قسمتی سے اس بچے کے والدین کے مالی حالات اچھے تھے وہ پہلی پرواز سے اس کو لے کر امریکا گئے اور اللہ کی قدرت سے وہ بروقت علاج کے باعث صحت مند ہوکر تقریباً ڈیڑھ دو ماہ بعد واپس اسکول آنے لگا۔ اسکول میں بھی تمام اساتذہ اور طلبہ اس کی صحت یابی کے لیے مسلسل دعا گو رہے تھے۔
یہ واقعہ میں نے اس لیے لکھا ہے کہ یہ میرا چشم دید واقعہ ہے اور اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جو مالی و معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں وہ تو اپنے پیاروں پر ہزاروں روپے خرچ کرکے ان کو موت کے منہ سے نکال لاتے ہیں مگر جو نہ ہوں تو وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو پیاروں کو آغوش قبر کے سپرد کرکے دامن جھاڑ کر تصویر درد و یاس بنے زندگی گزار دیتے ہیں۔ تو کیا انسانیت کے نام پر حکومت وقت ایسے لوگوں کے لیے کچھ کرنے کی مجاز ہے کہ نہیں؟ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''علاج سے پرہیز بہتر'' کے مصداق آخر ان امراض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بروقت مناسب اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے؟
مثلاً لیاقت آباد میٹرنٹی ہوم میں معمول کے ٹیسٹ، الٹراساؤنڈ، ایکسرے کی تمام سہولیات کو ختم کردیا گیا ہے۔ تمام ٹیسٹ طبی عملے کی بنائی گئی تجربہ گاہوں سے کرانے پر خواتین کو مجبور کیا جاتا ہے، ان تجربہ گاہوں سے (نجی تجربہ گاہیں) طبی عملہ اپنا کمیشن حاصل کرتا ہے اور اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ الٹراساؤنڈ، ایکسرے مشین کے علاوہ دیگر مشینیں خراب یا چوری ہوگئی ہیں۔
کیسے چوری ہوگئیں؟ کیوں ہوگئیں؟ اور آخر خراب ہیں تو کیا درست نہیں کی جاسکتیں؟ کیا اس صورت حال کی تحقیق نہیں ہونی چاہیے تھی؟ اور سزا ان ذمے داروں کو جو ان سب کی حفاظت پر مامور ہیں ملنی چاہیے ناکہ مریضوں کو۔ خدمت خلق کے ادارے ہی اگر خلق خدا کے لیے عذاب بن جائیں، قوم کی تمام دولت چند خاندانوں میں جمع ہونے لگے اور عوام جو درحقیقت محنت مزدوری کرتے ہیں یعنی ملک و قوم کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے ہیں ان کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی ان کی جیب میں جائے جو دفتروں سے غائب، سرکاری خرچ پر غیر ملکی دوروں اور پورے پورے خاندان کے طبی معائنے اور علاج کے لیے تشریف لے جاتے ہیں ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا معیوب سمجھتے ہیں ہاتھ ہلانے کے بھی روادار نہیں۔
ان کے ہاتھ صرف اس وقت حرکت فرماتے ہیں جب کئی کروڑ یا ارب کا کوئی بل پاس کرانا ہو وہ بھی صرف اس بل پر دستخط کرنے کے لیے یا اگر اس کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے تو پورا بل بنوا کر متعلقہ فرد کے پاس جانے کی زحمت اٹھاکر ان سے اس پر دستخط کروا کر بل پاس کروالیا جاتا ہے۔ اس تمام منظر اور پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچیے کہ جب عوام کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا تو پھر کوئی نہ کوئی تو ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرے گا۔ عوام پر ہمیشہ ظلم ہوا اور ہمیشہ فتح بھی ان ہی کو حاصل ہوئی تمام خود غرض و متکبر صاحبان اقتدار کے انجام سے تاریخ انسانی بھری پڑی ہے بقول فیض:
یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے' نہ اپنی ریت نئی
یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے' نہ اپنی جیت نئی
مگر ہمارے حکمراں نہ تاریخ پڑھتے ہیں، نہ ادب۔ میں یہ تو ہرگز کہنے کی جسارت نہ کروں گی کہ قرآن بھی نہیں پڑھتے، پڑھتے ہیں مگر معنی و مفہوم سے لاتعلق ہوکر۔ آج کے حالات پھر کسی ایسے ہی انجام کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
سیاست اور بطور خاص موجودہ سیاسی حالات پر سب مل کر اس قدر لکھ رہے ہیں، تمام چینلز سب کام چھوڑ کر اسلام آباد دھرنوں کو 24 گھنٹے براہ راست نشرکرتے رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ پاکستان میں اس ایک مسئلے کے سوا کوئی مسئلہ باقی ہی نہیں رہا۔اب جو ذرا غورکیا تو اندازہ ہوا کہ ہر کوئی اسی موضوع پر عقل اور قلم دوڑا رہا ہے یعنی ہر کوئی اس موضوع پر ہر انداز سے (مخالفت یا موافقت) لکھ رہا ہے تو ہم نے سوچا کہ چلو اب ہمیں کسی اور جانب توجہ مبذول کرنا چاہیے۔ بس ارادہ کرنے کی دیر تھی، کئی خبروں نے ہمارے دامن خیال کو اپنی جانب کھینچنا شروع کردیا۔ بغور پڑھا تو خیالی جنت سے بیک بینی و دوگوش ابلیس کی طرح نکالے گئے۔ کیونکہ ہم ہی کہیں اور بھٹک گئے تھے دنیا تو اپنی ہی پرانی ڈگر پر چل رہی تھی۔
''سندھ میں نیگلیریا سے ہونے والی اموات کی تعداد 11 ہوگئی'' چارکالمی خبر پر نظر پڑی، تفصیل اس خبر کی کچھ یوں ہے کہ محکمہ صحت اور واٹربورڈ کے ذمے داران نے 2005 میں سامنے آنیوالے اس مرض کے پھیلاؤ کے خلاف کوئی مناسب اقدامات ہی نہیں کیے کیونکہ پانی میں مطلوبہ مقدار میں کلورین شامل نہیں کی جا رہی بلکہ شہر کے کئی علاقوں کے پانی کا تجزیہ کیا گیا تو کلورین کی مقدار صفر یعنی نہ ہونے کے برابر پائی گئی۔
ہمیں یاد ہے کہ کچھ سال قبل پانی میں کلورین کی موجودگی سونگھ کر ہی محسوس کی جاسکتی تھی ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ یہ تعداد (مرنے والوں کی) صرف رواں سال کی ہے جب سے اس دماغ خور جرثومے کا انکشاف ہوا ہے جب سے اب تک تو اس مرض میں ہلاک ہونیوالوں کے اعداد و شمار اور بھی بڑھ چکے ہوں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کلورین پانی میں شامل کیوں نہیں کی جارہی؟ بات وہی یعنی پیسہ بٹورنے کی ہے بجٹ میں تو سب کچھ شامل ہوتا ہے مگر ضروریات کو پورا کرنے کے بجائے وہ سب رقم کہیں نامعلوم جگہ منتقل ہوجاتی ہے۔ عوام مرتے ہیں تو مرنے دو آخر تو مرنا برحق ہے۔
خبر اگرچہ کچھ پرانی ہوچکی ہے شہری صفحے (سٹی پیج) کی شہ سرخی تھی کہ محکمہ صحت نے شہر میں ہیپاٹائٹس کے علاج کے لیے اربوں روپے کے انجکشن سرکاری اسپتالوں میں تقسیم کردیے ہیں اور وہ ضرورت مند غریب مریضوں کو آدھی قیمت پر لگائے جائیں گے مگر خبر کی تفصیل یہ تھی کہ تاحال کسی بھی اسپتال کو یہ انجکشن مہیا نہیں کیے گئے اور مریض ازخود مہنگے داموں میڈیکل اسٹورز سے خرید کر استعمال کر رہے ہیں۔ اسپتالوں کے ذمے داران نے ایسے کسی بھی اقدام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں تو آج تک ایسی کوئی دوا فراہم نہیں کی گئی۔ مگر کھوج لگانیوالوں نے بتایا کہ یہ انجکشن خریدنے کے لیے رقم کا بل تو پاس ہوا ہے۔
اب تازہ خبروں کے مطابق کے ایم سی کے اسپتالوں کو ہر طرح کی فیسوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اور اس کا نفاذ فوری طور پر کیا جائے گا۔ یعنی او پی ڈی کی فیس ان اسپتالوں میں پانچ روپے ہوا کرتی تھی ایک دم اضافے کے باعث پچیس روپے ہوگی اس کے علاوہ آپریشن، لیبارٹری ٹیسٹ اور بے ہوش کرنیوالے ڈاکٹروں کی فیس میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ یہ اسپتال وہ ہیں جہاں غریب لوگ علاج کرانے آتے ہیں جو بڑے بڑے نجی اسپتالوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ کے ایم سی کے تحت چلنے والے اسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس نے اس حکم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اضافے کو مریضوں پر ظلم قرار دیا۔
صحت وہ شعبہ ہے جس کی مکمل ذمے داری حکومت وقت پر ہونا چاہیے کیونکہ تکلیف جتنی امیروں کو ہوتی ہے اتنی ہی غریبوں کو بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ امیر اپنا علاج اعلیٰ سے اعلیٰ نجی اسپتالوں میں اور اگر ضرورت ہو تو بیرون ملک بھی جاکر کروالیتے ہیں مگر اصل مسئلہ تو غریبوں کا ہے کہ وہ کہاں جائیں چشم تصور سے ذرا دیکھیے ایک غریب ماں کا بچہ کسی مرض میں مبتلا ہے تو وہ سرکاری یا کے ایم سی کے اسپتالوں ہی میں لے کر اس کو جائے گی جو گھر سے اسپتال تک جانے کے اخراجات کے لیے رشتے داروں یا پڑوسیوں سے قرض لے کر وہاں پہنچے اور پتا چلے کہ یہاں تو ڈاکٹر سے لے کر تمام ٹیسٹ تک کی بھاری فیس ادا کرنی ہے تو وہ کیا کرے؟ اگر وہ غریب ہے تو کیا ماں نہیں؟ نیگلیریا پاکستان میں تو اب تک لاعلاج ہی ثابت ہوا ہے جو اس میں مبتلا ہوگیا اس کے بچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر 2005 میں ڈی ایچ اے میں اے لیول کا ایک طالب علم پوری کلاس کے ساتھ سمندر پر پکنک یا مطالعاتی دورے پر گیا تو وہ ساحل پر اگی جھاڑیوں کے پاس تھک کر لیٹ گیا۔
وہاں اس کو نیگلیریا کا مرض لاحق ہوگیا وہ اسکول کا بہترین طالب علم، حافظ قرآن، مقرر اور بے حد ہر دلعزیز لڑکا تھا جب اس کو یہاں کے اسپتالوں کے ماہرین کو دکھایا گیا تو انھوں نے اسی مرض کا خطرہ ظاہر کیا مگر خوش قسمتی سے اس بچے کے والدین کے مالی حالات اچھے تھے وہ پہلی پرواز سے اس کو لے کر امریکا گئے اور اللہ کی قدرت سے وہ بروقت علاج کے باعث صحت مند ہوکر تقریباً ڈیڑھ دو ماہ بعد واپس اسکول آنے لگا۔ اسکول میں بھی تمام اساتذہ اور طلبہ اس کی صحت یابی کے لیے مسلسل دعا گو رہے تھے۔
یہ واقعہ میں نے اس لیے لکھا ہے کہ یہ میرا چشم دید واقعہ ہے اور اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جو مالی و معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں وہ تو اپنے پیاروں پر ہزاروں روپے خرچ کرکے ان کو موت کے منہ سے نکال لاتے ہیں مگر جو نہ ہوں تو وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو پیاروں کو آغوش قبر کے سپرد کرکے دامن جھاڑ کر تصویر درد و یاس بنے زندگی گزار دیتے ہیں۔ تو کیا انسانیت کے نام پر حکومت وقت ایسے لوگوں کے لیے کچھ کرنے کی مجاز ہے کہ نہیں؟ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''علاج سے پرہیز بہتر'' کے مصداق آخر ان امراض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بروقت مناسب اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے؟
مثلاً لیاقت آباد میٹرنٹی ہوم میں معمول کے ٹیسٹ، الٹراساؤنڈ، ایکسرے کی تمام سہولیات کو ختم کردیا گیا ہے۔ تمام ٹیسٹ طبی عملے کی بنائی گئی تجربہ گاہوں سے کرانے پر خواتین کو مجبور کیا جاتا ہے، ان تجربہ گاہوں سے (نجی تجربہ گاہیں) طبی عملہ اپنا کمیشن حاصل کرتا ہے اور اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ الٹراساؤنڈ، ایکسرے مشین کے علاوہ دیگر مشینیں خراب یا چوری ہوگئی ہیں۔
کیسے چوری ہوگئیں؟ کیوں ہوگئیں؟ اور آخر خراب ہیں تو کیا درست نہیں کی جاسکتیں؟ کیا اس صورت حال کی تحقیق نہیں ہونی چاہیے تھی؟ اور سزا ان ذمے داروں کو جو ان سب کی حفاظت پر مامور ہیں ملنی چاہیے ناکہ مریضوں کو۔ خدمت خلق کے ادارے ہی اگر خلق خدا کے لیے عذاب بن جائیں، قوم کی تمام دولت چند خاندانوں میں جمع ہونے لگے اور عوام جو درحقیقت محنت مزدوری کرتے ہیں یعنی ملک و قوم کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے ہیں ان کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی ان کی جیب میں جائے جو دفتروں سے غائب، سرکاری خرچ پر غیر ملکی دوروں اور پورے پورے خاندان کے طبی معائنے اور علاج کے لیے تشریف لے جاتے ہیں ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا معیوب سمجھتے ہیں ہاتھ ہلانے کے بھی روادار نہیں۔
ان کے ہاتھ صرف اس وقت حرکت فرماتے ہیں جب کئی کروڑ یا ارب کا کوئی بل پاس کرانا ہو وہ بھی صرف اس بل پر دستخط کرنے کے لیے یا اگر اس کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے تو پورا بل بنوا کر متعلقہ فرد کے پاس جانے کی زحمت اٹھاکر ان سے اس پر دستخط کروا کر بل پاس کروالیا جاتا ہے۔ اس تمام منظر اور پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچیے کہ جب عوام کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا تو پھر کوئی نہ کوئی تو ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرے گا۔ عوام پر ہمیشہ ظلم ہوا اور ہمیشہ فتح بھی ان ہی کو حاصل ہوئی تمام خود غرض و متکبر صاحبان اقتدار کے انجام سے تاریخ انسانی بھری پڑی ہے بقول فیض:
یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے' نہ اپنی ریت نئی
یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے' نہ اپنی جیت نئی
مگر ہمارے حکمراں نہ تاریخ پڑھتے ہیں، نہ ادب۔ میں یہ تو ہرگز کہنے کی جسارت نہ کروں گی کہ قرآن بھی نہیں پڑھتے، پڑھتے ہیں مگر معنی و مفہوم سے لاتعلق ہوکر۔ آج کے حالات پھر کسی ایسے ہی انجام کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔