ایک ہی لیڈر ہمارا قائداعظم
قائد اعظم کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔۔۔۔
پچھلے دنوں قائد اعظم سے متعلق ایک کتاب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا جس میں قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں مختلف واقعات تحریر تھے جنھیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک کے لیے ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو راست باز، دلیر، حقیقت پسند، دانا اور بے مثال مدبر ہو۔
قائد اعظم کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ قائد اعظم قانون کے پیشے سے منسلک تھے انھوں نے یہ مقام ایسے ہی حاصل نہیں کرلیا تھا انتھک محنت، عدالت میں پیش ہونے کا منفرد انداز اور مقدمے کے بارے میں مکمل آگاہی نے ہی ان کا نام بلند کیا تھا لیکن اصول پرستی ایک ایسی صفت آپ کے اندر موجود تھی جس میں آپ کا نام قانون کے پیشے میں ایک ضرب المثل بن گیا تھا۔
انھوں نے اپنی مقررہ فیس سے کم میں کوئی مقدمہ نہیں لڑا اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی موکل نے احتیاطاً مشورے کے لیے زیادہ پیسے ان کے پاس پیشگی جمع کروائے ہوں تو انھوں نے مکمل دیانت داری کے ساتھ اس میں سے اپنی فیس منہا کرکے باقی رقم واپس کردی اگر کسی مقدمے کے سلسلے میں انھیں کسی دوسرے شہر جانا پڑا تو اس مقدمے کے سوا کوئی کام نہیں کیا اگر کوئی مجبور بھی کرتا کہ ان کے ساتھ کھانا وغیرہ کھائیں تو صاف کہہ دیتے کہ میرے موکل سے رجوع کریں۔
ایک بار مقدمے کی پیروی کے سلسلے میں آگرہ گئے وہاں کے مسلم لیگی لیڈروں نے ایک جلسے کا اہتمام کیا اور قائد سے اس میں تقریر کرنے کی درخواست کی گئی مگر قائد اعظم نے ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اپنے موکل کی طرف سے مقدمے میں پیش ہونے آئے ہیں جس کی وہ فیس ادا کر رہے ہیں تو وہ اس میں خیانت کیسے کرسکتے ہیں۔ اسی طرح قائد اعظم کو کسی کا احسان لینا بھی گوارہ نہیں تھا۔ 1937 میں وائسرائے نے قائد کا نام ' سر' کے خطاب کے لیے شہنشاہ برطانیہ کو بھجوانے کی پیشکش کی تو قائد نے کہا حال ہی میں مسلم لیگ نے ایک قرارداد میں تمام برطانوی اعزازات کو مسترد کردیا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ کسی برطانوی اعزاز کو قبول کریں قائد اعظم نے اپنے اصولوں اور راست بازی پر کبھی کوئی سودے بازی نہیں کی۔
سیاست ان کے نزدیک شطرنج کے کھیل کی طرح تھی اسی لیے وہ سیاسی مصلحتوں کے قائل نہ تھے اقتدار کی ہوس انھیں اپنے بلند اخلاقی معیار سے ہٹا سکتی تھی۔ 1945 کے عام انتخابات کے موقعے پر ناظم الدین نے قائد اعظم کو خط لکھا اور تجویز دی کہ اگر بے ایمان عناصر سے مل کر وزارت بنالی جائے تو مسلم لیگ کچھ فائدے اٹھاسکتی ہے مگر قائد اعظم نے دو ٹوک جواب دیا کہ میں کسی حال میں ضمیر فروش عناصر سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتا ہاں ہندوؤں سے باعزت شرائط پر اشتراک ہوسکتا ہے میں ایک ڈانواں ڈول حکومت کی بجائے ایک باعزت حزب اختلاف میں رہنا زیادہ پسند کروں گا۔
آج جب ہم قائد اعظم کے اس طرز عمل کو اور اپنے لیڈران کے طرز عمل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ قائد اعظم کے پیش نظر ملک و قوم کی فلاح و بہبود اور باعزت قوم کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانا تھا مگر اس کے برعکس ہمارے لیڈران میں ہوس اقتدار بھری ہوئی ہے اقتدار حاصل کرنے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ سے کام لیا جاتا ہے کہیں فرینڈلی اپوزیشن تو کہیں اپنے ذاتی مفادات نہ پورے ہونے کی وجہ سے برسوں سے وابستہ سیاسی وابستگی کو ختم کرکے نئی سیاسی پارٹی کو جوائن کرلیا جاتا ہے اور پھر پرانے رفیقوں کے بارے میں وہ گل فشانی کی جاتی ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔
اس طرح کے طرز عمل سے اخوت اور بھائی چارگی کے رویوں کو دھچکا پہنچتا اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے کیونکہ جس قوم کے لیڈر جیسے ہوں گے وہاں کے عوام پر بھی اسی طرح کے اثرات مرتب ہوں گے اس لیے آج ہم دیکھتے ہیں کہ نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک ہر جگہ کرپشن کا دور دورہ ہے کوئی پوچھنے والا نہیں جس کو جس سطح پر موقع مل رہا ہے وہ وہاں اپنے ہاتھ دکھا رہا ہے آج کل سی این جی رکشوں کی بھرمار ہے مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اپنی مرضی سے مسافروں سے کرایہ وصول کیا جاتا ہے تو کہیں رشوت کا بازار گرم ہے وزرا اور عوامی نمایندوں سے لے کر ہر شخص ذاتی فائدے کو مدنظر رکھے ہوئے ہے۔
سرکاری دورے بھی اس لیے کیے جاتے ہیں کہ کاروبار کو بڑھایا جاسکے تاکہ تجارت کو فروغ دیا جاسکے۔ گرمیوں میں بھی مرغی کے گوشت کے دام نہیں گر رہے مرغی کے کاروبار میں بھی سیاست کارفرما رہی حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے خول میں بند اپنی ذاتی انا کی جنگ لڑ رہی ہیں مگر کسی کو احساس نہیں کہ اس طرح کی حرکات سے عوام کو نقصان پہنچ رہا ہے، ریاستی ادارے تباہ ہو رہے ہیں ان تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ ایسی قیادت برسراقتدار ہو جو قائد کی طرح اپنے اصولوں پر کاربند ہو قانون سب کے لیے برابر ہو قانون اندھا نہ ہو بلکہ قانون کی نظریں اتنی تیز ہوں کہ ان نظروں سے کوئی مجرم بچ نہ نکلنے پائے۔
قانون کی نظر میں سب لوگ برابر ہوں ایسا نہ ہو کہ عام آدمی تو ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتے اور سالوں جیل میں بغیر کوئی جرم ثابت ہوئے سڑتا رہے۔ اکثر دیکھا گیا کہ بالکل معمولی جرائم جن کی سزا صرف دو یا تین مہینے تھی مگر ان جرائم کے شکار لوگوں نے سالوں جیل کاٹی اور اپنی زندگی تباہ کردی کیونکہ ان کو جیل میں ڈالنے والے جیل میں ڈال کر بھول گئے۔ ہمیں ضرورت ہے اب ایسی قیادت کی جو ذاتی منفعت کو بلند کرنے نہیں بلکہ عوام کی حیثیت بلند کرنے کے لیے برسر اقتدار آئے اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے کام کرے۔
قائد اعظم کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ قائد اعظم قانون کے پیشے سے منسلک تھے انھوں نے یہ مقام ایسے ہی حاصل نہیں کرلیا تھا انتھک محنت، عدالت میں پیش ہونے کا منفرد انداز اور مقدمے کے بارے میں مکمل آگاہی نے ہی ان کا نام بلند کیا تھا لیکن اصول پرستی ایک ایسی صفت آپ کے اندر موجود تھی جس میں آپ کا نام قانون کے پیشے میں ایک ضرب المثل بن گیا تھا۔
انھوں نے اپنی مقررہ فیس سے کم میں کوئی مقدمہ نہیں لڑا اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی موکل نے احتیاطاً مشورے کے لیے زیادہ پیسے ان کے پاس پیشگی جمع کروائے ہوں تو انھوں نے مکمل دیانت داری کے ساتھ اس میں سے اپنی فیس منہا کرکے باقی رقم واپس کردی اگر کسی مقدمے کے سلسلے میں انھیں کسی دوسرے شہر جانا پڑا تو اس مقدمے کے سوا کوئی کام نہیں کیا اگر کوئی مجبور بھی کرتا کہ ان کے ساتھ کھانا وغیرہ کھائیں تو صاف کہہ دیتے کہ میرے موکل سے رجوع کریں۔
ایک بار مقدمے کی پیروی کے سلسلے میں آگرہ گئے وہاں کے مسلم لیگی لیڈروں نے ایک جلسے کا اہتمام کیا اور قائد سے اس میں تقریر کرنے کی درخواست کی گئی مگر قائد اعظم نے ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اپنے موکل کی طرف سے مقدمے میں پیش ہونے آئے ہیں جس کی وہ فیس ادا کر رہے ہیں تو وہ اس میں خیانت کیسے کرسکتے ہیں۔ اسی طرح قائد اعظم کو کسی کا احسان لینا بھی گوارہ نہیں تھا۔ 1937 میں وائسرائے نے قائد کا نام ' سر' کے خطاب کے لیے شہنشاہ برطانیہ کو بھجوانے کی پیشکش کی تو قائد نے کہا حال ہی میں مسلم لیگ نے ایک قرارداد میں تمام برطانوی اعزازات کو مسترد کردیا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ کسی برطانوی اعزاز کو قبول کریں قائد اعظم نے اپنے اصولوں اور راست بازی پر کبھی کوئی سودے بازی نہیں کی۔
سیاست ان کے نزدیک شطرنج کے کھیل کی طرح تھی اسی لیے وہ سیاسی مصلحتوں کے قائل نہ تھے اقتدار کی ہوس انھیں اپنے بلند اخلاقی معیار سے ہٹا سکتی تھی۔ 1945 کے عام انتخابات کے موقعے پر ناظم الدین نے قائد اعظم کو خط لکھا اور تجویز دی کہ اگر بے ایمان عناصر سے مل کر وزارت بنالی جائے تو مسلم لیگ کچھ فائدے اٹھاسکتی ہے مگر قائد اعظم نے دو ٹوک جواب دیا کہ میں کسی حال میں ضمیر فروش عناصر سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتا ہاں ہندوؤں سے باعزت شرائط پر اشتراک ہوسکتا ہے میں ایک ڈانواں ڈول حکومت کی بجائے ایک باعزت حزب اختلاف میں رہنا زیادہ پسند کروں گا۔
آج جب ہم قائد اعظم کے اس طرز عمل کو اور اپنے لیڈران کے طرز عمل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ قائد اعظم کے پیش نظر ملک و قوم کی فلاح و بہبود اور باعزت قوم کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانا تھا مگر اس کے برعکس ہمارے لیڈران میں ہوس اقتدار بھری ہوئی ہے اقتدار حاصل کرنے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ سے کام لیا جاتا ہے کہیں فرینڈلی اپوزیشن تو کہیں اپنے ذاتی مفادات نہ پورے ہونے کی وجہ سے برسوں سے وابستہ سیاسی وابستگی کو ختم کرکے نئی سیاسی پارٹی کو جوائن کرلیا جاتا ہے اور پھر پرانے رفیقوں کے بارے میں وہ گل فشانی کی جاتی ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔
اس طرح کے طرز عمل سے اخوت اور بھائی چارگی کے رویوں کو دھچکا پہنچتا اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے کیونکہ جس قوم کے لیڈر جیسے ہوں گے وہاں کے عوام پر بھی اسی طرح کے اثرات مرتب ہوں گے اس لیے آج ہم دیکھتے ہیں کہ نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک ہر جگہ کرپشن کا دور دورہ ہے کوئی پوچھنے والا نہیں جس کو جس سطح پر موقع مل رہا ہے وہ وہاں اپنے ہاتھ دکھا رہا ہے آج کل سی این جی رکشوں کی بھرمار ہے مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اپنی مرضی سے مسافروں سے کرایہ وصول کیا جاتا ہے تو کہیں رشوت کا بازار گرم ہے وزرا اور عوامی نمایندوں سے لے کر ہر شخص ذاتی فائدے کو مدنظر رکھے ہوئے ہے۔
سرکاری دورے بھی اس لیے کیے جاتے ہیں کہ کاروبار کو بڑھایا جاسکے تاکہ تجارت کو فروغ دیا جاسکے۔ گرمیوں میں بھی مرغی کے گوشت کے دام نہیں گر رہے مرغی کے کاروبار میں بھی سیاست کارفرما رہی حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے خول میں بند اپنی ذاتی انا کی جنگ لڑ رہی ہیں مگر کسی کو احساس نہیں کہ اس طرح کی حرکات سے عوام کو نقصان پہنچ رہا ہے، ریاستی ادارے تباہ ہو رہے ہیں ان تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ ایسی قیادت برسراقتدار ہو جو قائد کی طرح اپنے اصولوں پر کاربند ہو قانون سب کے لیے برابر ہو قانون اندھا نہ ہو بلکہ قانون کی نظریں اتنی تیز ہوں کہ ان نظروں سے کوئی مجرم بچ نہ نکلنے پائے۔
قانون کی نظر میں سب لوگ برابر ہوں ایسا نہ ہو کہ عام آدمی تو ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتے اور سالوں جیل میں بغیر کوئی جرم ثابت ہوئے سڑتا رہے۔ اکثر دیکھا گیا کہ بالکل معمولی جرائم جن کی سزا صرف دو یا تین مہینے تھی مگر ان جرائم کے شکار لوگوں نے سالوں جیل کاٹی اور اپنی زندگی تباہ کردی کیونکہ ان کو جیل میں ڈالنے والے جیل میں ڈال کر بھول گئے۔ ہمیں ضرورت ہے اب ایسی قیادت کی جو ذاتی منفعت کو بلند کرنے نہیں بلکہ عوام کی حیثیت بلند کرنے کے لیے برسر اقتدار آئے اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے کام کرے۔