پسپائی بہترین حکمت عملی

اقوام متحدہ کے زیر تسلط قائم ہونے والی جمہوری دنیا میں اب ہٹ دھرمی اورضد پر۔۔۔


آئی ایچ سید September 12, 2014
[email protected]

RAHIM YAR KHAN: انسانی تاریخ کے ہر دور میں قائم اور قابل عمل رہنے والی مشہورضرب المثل ہے کہ ''جب سب کچھ جاتا ہوا دیکھو تو آدھا دے کر آدھا بچا لینا ہی دانش مندی ہے'' اور انسانی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے ہر عظیم حکمران نے فہم وتدبرسے بھری اس مثال پر عمل پیرا ہوکر حکمرانی کے اہم معاملات میں پسپائی اختیار کرکے ریاست کو بحرانی کیفیت سے نکال کر ریاست کا بہترین دفاع کیا اور آنے والے وقت میں ایک مستحکم حکمرانی کی بنیاد ڈالی حال کی پسپائی سے انھوں نے اپنے مستقبل کو مضبوط اور ناقابل شکست بنایا۔

اقوام متحدہ کے زیر تسلط قائم ہونے والی جمہوری دنیا میں اب ہٹ دھرمی اورضد پر قائم شاہانہ طرز حکمرانی کو برقرار رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بنادیا گیا ہے۔ اب ذاتی پسند اور ناپسند کے پیمانے پر فیصلے کرنا اور پھر ان فیصلوں سے اپنی خواہش کے مطابق نتائج حاصل کرنا ممکن ہی نہیں رہا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو فرانسیسی، برطانوی، ہسپانوی، جرمن، چینی، جاپانی، ایرانی، ترکی اور ہندوستانی شہنشاہیت اپنے پورے آب و تاب اور رعب و دبدبے سے آج بھی قائم رہتیں۔

مگر ایسا نہ ہوا اور رب العزت کے قائم کیے ہوئے عروج و زوال کے نظام کے تحت ان ہی جبرو استبداد، ظلم و ناانصافی اور شدید نامساوات کی کوکھ سے جمہوریت کے عظیم نظام نے جنم لیا جس میں عوامی حکمرانی اور اقتدار اور اختیارات میں عوام کی شرکت لازمی ٹھہری۔ سیٹلائٹ اور انٹرنیٹ سے منسلک اس گلوبل ولیج (دنیا) میں اب دنیا کے کسی بھی خطے میں ظلم و جبر، شدید اقتصادی نامساوات اور استحصال کو ناقابل قبول بنا دیا ہے۔ اب عوام کی اکثریت کو امن وامان، اچھی تعلیم و تربیت اور معیاری صحت جیسے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا ناممکن بنادیا گیا ہے۔

تحریک پاکستان کے چیئرمین عمران خان صاحب اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے بار بار دہرائے جانے والے بیانیےNarrative نے موجودہ جمہوری نظام کی خامیوں کو انتہائی تیزی سے عوام کے سامنے عیاں کردیا ہے اب ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ کم ازکم یہ رائے دیتا ہوا ضرور نظر آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی اور عمران خان صاحب کی باتیں اور مطالبات تو درست ہیں مگر ان کا طریقہ کار درست نہیں یعنی ڈاکٹر صاحب اور عمران کے الزامات اور انکشافات نے قومی نفسیات پر اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے۔ اور قوم کا انتہائی غریب اور تعلیم یافتہ طبقہ آہستہ آہستہ ان کے موقف کو قبول کرنے پر آمادہ نظر آنے لگا ہے اور کیوں نہ ہو اس حقیقت کبریٰ سے کون انکار کرسکتا ہے۔

پاکستانی قوم کے 7 سے 8 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، اس حقیقت سے کون انکارکرسکتا ہے کہ قوم کی غالب اکثریت اپنے بنیادی حقوق اور ضرورتوں سے محروم ہیں ۔ پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں، پیٹ بھر روٹی نہیں، جسم پر پورا کپڑا نہیں، پاؤں جوتوں سے محروم، برسات نہ ہو تو لوگ پانی کے لیے ترسیں اور اگر برسات ہوجائے تو سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے لوگ سیلاب میں بہہ جائیں دن کی شدید محنت و مشقت کے بعد جب رات کو نیند کرنا چاہیں تو بجلی غائب ہوجائے اور ساری رات مچھروں کے لیے ان کی خوراک کا ذریعہ بنتے رہیں اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان میں پچھلے 67 سالوں میں ہر آنے والے حکمران نے ہر عوامی فورم پر بڑے اعتماد کے ساتھ پاکستانی قوم کو درپیش مسائل حل کرنے کے وعدے کیے ان کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا کرنے کے ان گنت دعوے کیے اور صرف اپنے اور اپنے دوستوں، رشتے داروں کو خوشحال بنایا۔

آخر یہ سلسلہ کبھی تو رکے گا کیا آج کی بدلتی ہوئی دنیا، تیزی سے عوامی راج کی طرف بڑھتی ہوئی دنیا میں اس سلسلے کو مزید دیر تک قائم رکھنا ممکن ہوگا؟ اور اگر حکمران طبقات اپنے اقتدار کی ہوس اور اپنے شاہانہ طرز حکمرانی کے انداز کو بدلنے کے لیے اب بھی تیار نہ ہوئے تو اس سیلاب کے بعد عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا عوامی احتجاج حکمرانوں کے سامنے ہوگا اور شاید پھر آدھے کے بجائے پورا دے کر بھی آپ لوگوں "Status Quo Sported" کی جاں بخشی نہ ہوسکے۔

جمہوریت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہوئے اداروں پر مبنی منظم طریقہ حکمرانی کا نام ہے یہ وہ نظام ہے جس میں عوام اپنی مرضی اور منشا کو استعمال کرکے اپنے اداروں کے حکمران منتخب کرتے ہیں اور پھر مخصوص مدت کے لیے پوری فرمانبرداری کے ساتھ ان اداروں کی حفاظت کرتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ وہ حکمران دور میں عوام کی خوشحالی اور ان کی غربت و افلاس کو ختم کرنے میں کس قدر سچائی اور جانفشانی سے کام کرتے ہیں۔ لیکن اگر جمہوریت کے نام پر منتخب حکمران عوام کے مسائل میں اضافے کا باعث بن جائیں تو پھر وہ جمہوریت بھی آمریت کی طرح اپنی وقعت کھو دیتی ہے اور عوام اس بہترین نظام کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں دھرنے بغاوت میں اور پھر بغاوت انتشار یا انقلاب میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور پھر کچھ نہیں بچتا پھر تباہی اس ریاست اور حکمرانوں کا مقدر بن جاتی ہے۔

یقین کیجیے کہ موجودہ جمہوری حکومت کے خلاف کوئی سازش نہیں کر رہا اور وہ لوگ تو بالکل بھی نہیں جن کی طرف آپ کے رفقا اور وزرا اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں چونکہ وہ اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے خدوخال سے پوری طرح آشنا ہیں انتہائی تعلیم یافتہ، متحرک اور منظم لوگ ہیں اپنے ملک کو دہشت گردی سے مکمل طور پر نجات دلانے کا عزم کرکے ایک خطرناک جنگ لڑنے میں مصروف ہیں آپ کے خلاف سازش آپ کے گرد جمع وہ جذباتی لوگ کر رہے ہیں جو ہمیشہ ''بولنے کے بعد سوچتے ہیں'' کہ ہم نے کیا بول دیا۔

چونکہ ایسے لوگوں پر ہمیشہ جذبات کا غلبہ عقل کے مقابلے میں زیادہ رہتا ہے۔ اور موجودہ جمہوری نظام حکومت میں جذباتی لوگوں کی کوئی جگہ نہیں ہے اب آزاد میڈیا کے اس دور میں جمہوری نظام حکومت انتہائی پیچیدہ نظام حکومت بن چکا ہے اس نظام میں انتہائی برداشت تحمل اور بردباری دکھانے والے لوگ ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔پاکستان ہر پاکستانی کا گھر ہے اور جس دن پاکستان کے حکمرانوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا اور اپنی ترجیحات میں سب سے پہلے پاکستانیوں کے سلگتے ہوئے جان لیوا مسائل کے حل کرنے کو سرفہرست رکھنا شروع کردیا اس دن پاکستان کے مسائل تیزی سے کم ہونا شروع ہوجائیں گے اور جمہوریت صرف اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب جمہور کے مسائل کو جمہور کی مرضی اور منشا کے مطابق حل کرنا شروع کردیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔