سیلاب اور بارشوں کی تباہ کاریاں
جن میں سے پچھلے چار سال میں سے تین سیلاب ہماری کمزور معیشت کو زک پہنچاچکے ہیں۔۔۔۔
ہر سال مون سون کا موسم شروع ہوتے ہی ملک کے کئی دیہاتی اور زیریں علاقوں میں خوف کی ایک فضا قائم ہوجاتی ہے۔ بارشیں چاہے پاکستان میں ہوں یا بھارت میں۔ سیلاب کا خدشہ ہر وقت ہمارے پورے زراعتی نظام اور انفرااسٹرکچر پر تباہی بن کر نازل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے کمزور ریاستی ڈھانچے اور ادارے اس کے خلاف کوئی موثر ڈھال بننے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ پاکستان کے قیام سے اب تک ہمیں 20 بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جن میں سے پچھلے چار سال میں سے تین سیلاب ہماری کمزور معیشت کو زک پہنچاچکے ہیں جن میں 2010، 2011 اور 2012 کے سیلاب شامل ہیں اور اس وقت 2014 میں بھی ہمیں ایک بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔ پشاور میں شدید بارشوں کے بعد اس وقت پنجاب اور آزاد کشمیر کے بیشتر علاقے اس آفت کا شکار ہیں۔ اگرچہ بارشیں تھم بھی جائیں لیکن ٹھہرے ہوئے پانی کے اثرات طویل عرصے تک ان علاقوں میں بالخصوص اور پورے ملک میں بالعموم محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ ایک اندازے کیمطابق 2010 سے اب تک سیلاب کی تباہ کاریوں میں 3 ہزار سے زائد جانوں کا نقصان ہوا جب کہ مالی نقصانات کا تخمینہ 16 ارب ڈالرز تک لگایا گیا ہے جب کہ پچھلے دو سے تین دہائیوں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو جانی نقصان کا اندازہ تقریباً 11 ہزار جانوں سے زائد ہے جب کہ ملک کی معیشت پر اربوں روپے کا بوجھ پڑچکا ہے۔
اقوام متحدہ کے اداروں کے اعداد و شمار کیمطابق ہماری قومی پیداوار (GDP) کو ان بارشوں اور سیلابوں کی تباہ کاریوں سے جو نقصان ہو رہا ہے وہ ہماری فی کس آمدنی کی نشوونما (Growth) سے بھی زیادہ ہے۔ جوکہ تمام ایشیائی ممالک میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان ہے ایک اندازے کے مطابق ان نقصانات کا تخمینہ ہماری قومی پیداوار کے 2 فیصد کے قریب ہے جس کو پورا کرنا ہماری کمزور معیشت کے لیے فی الوقت تقریباً ناممکن ہے۔ انٹرنیشنل ریڈکراس کے اعدادوشمار کے مطابق 2025 تک دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے 50 فیصد سے زیادہ لوگ سیلاب اور طوفانوں کے خطروں سے دوچار ہوں گے جوکہ یقینا ایک انتہائی خطرناک پیشن گوئی ہے۔
کیونکہ ان ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے اس وقت یقینا وسائل کی کمی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ان قدرتی آفات کا سامنا کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں، ایک اندازے کیمطابق ہماری زمین کا 90 فیصد حصہ زلزلے جب کہ تقریباً60 فیصد سائیکلون اور سیلاب کے خطرے سے دوچار نظر آتا ہے۔ اور کسی بھی قدرتی آفت کے نتیجے میں ہم ایک انتہائی مخدوش صورتحال کا شکار ہوسکتے ہیں، محکمہ موسمیات کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں ہونے والی بارشوں کا 75 فیصد صرف 4 مہینوں یعنی جون سے ستمبر تک ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام پیشن گوئیوں کے باوجود ہم فی الوقت کسی بھی مناسب منصوبہ بندی سے عاری نظر آتے ہیں، بلاشبہ 2005 کے زلزلے کے بعد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کا قیام وجود میں آیا۔
جوکہ یقینا ایک احسن امر ہے لیکن یہ ادارہ بھی ان تمام چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام نظر آتا ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں جو معیشت ہر سال تقریباً 800 ملین ڈالرز کا نقصان ان قدرتی آفات کی وجہ سے اٹھا رہی ہو اس سے ترقی کی مطلوبہ شرح کو حاصل کرنا ایک بے وقوفی کی بات لگتی ہے۔ 2012 کے اقتصادی سروے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک کی معیشت کو ان قدرتی آفات سے کس قدر بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور اس کے بعد بحالی کے نظام پر جس قدر وسائل خرچ ہوئے اس سے اقتصادی منصوبوں کے لیے جو فنڈز درکار تھے ان میں یقینا بھاری کٹوتی (Deduction) کی گئی۔ یعنی ہم آگے جانے کی بجائے اپنے مسائل میں الجھے رہے۔ ان تمام نقصانات کی تفصیل کچھ یوں ہے:
سیلاب سے نقصانات:
آب پاشی اور ۔۔۔۔۔۔ نقصانات 4763 ملین، بحالی کی لاگت 9526 ملین
فلڈ مینجمنٹ ہاؤسنگ ۔۔۔۔۔۔۔ نقصانات 85465 ملین، بحالی کی لاگت 91510 ملین
زراعت لائیو اسٹاک اور فشریز ۔۔۔۔۔ نقصانات 160107 ملین، بحالی کی لاگت 26510 ملین
ٹرانسپورٹ اور مواصلات ۔۔۔۔۔۔ نقصانات 26468 ملین، بحالی کی لاگت 33902 ملین
انرجی اور توانائی ۔۔۔۔ نقصانات 1240 ملین، بحالی کی لاگت 292 ملین
دیگر معاشی مسائل ۔۔۔۔۔ نقصانات 44 ملین، بحالی کی لاگت 65 ملین
پرائیویٹ سیکٹر اور صنعتی شعبہ ۔۔۔۔ نقصانات 27254 ملین، بحالی کی لاگت 8178 ملین
تعلیم ۔۔۔۔۔ نقصانات 12014 ملین، بحالی کی لاگت 22089 ملین
صحت ۔۔۔۔۔ نقصانات 1258 ملین، بحالی کی لاگت 864 ملین
پانی کی سپلائی اور سینی ٹیشن ۔۔۔۔۔ نقصانات 1204 ملین، بحالی کی لاگت 1900 ملین
گورننس ۔۔۔۔۔ نقصانات 1953 ملین، بحالی کی لاگت 4768 ملین
ماحولیات ۔۔۔۔ نقصانات 2763 ملین، بحالی کی لاگت 2784 ملین
ڈیزاسٹر مینجمنٹ ۔۔۔۔۔ بحالی کی لاگت 1827 ملین
معاشرتی تحفظ ۔۔۔۔۔ بحالی کی لاگت39128 ملین
کل نقصانات 324533 ملین جب کہ کل بحالی کی لاگت 239021 ملین روپے۔ان تمام اعداد وشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ قوم کے کس قدر وسائل سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس سے نمٹنے میں لگ چکے ہیں جب کہ موجودہ سیلاب (جس میں سیکڑوں جانیں ضایع ہوچکی ہیں اور ہزاروں دیہات زیر آب آچکے ہیں کے اعدادوشمار ابھی آنے باقی ہیں۔ ہمارے ملک کی زراعت جوکہ مجموعی قومی پیداوار کا 21 فیصد ہے جب کہ روزگار کے مواقع کا 45 فیصد اور ہماری برآمدات کا 60 فیصد ہے اس سیلاب سے شدید متاثر ہوئی ہے جس کی بازگشت اور اثرات آنیوالے مہینوں میں پورے ملک کو برداشت کرنے پڑیں گے۔
اقوام متحدہ کے تجزیہ نگاروں کے بقول 2010 کے سیلاب میں ہماری معیشت کو جو نقصان ہوا وہ 2005 کے زلزلے اور ایشیا میں آنیوالی سونامی کے مجموعے سے بھی زیادہ ہے۔ اس نقصان کی مالیت تقریباً10 ملین ڈالرز تھی جب کہ 2012 میں سیلاب کے نتیجے میں تقریباً2.5 بلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔ 2012 میں ہونے والی قدرتی آفات میں سب سے زیادہ نقصان امریکا کو 98.5 بلین ڈالرز، چین کو اس کے بعد 19.8 بلین ڈالرز جب کہ اٹلی 17.1 بلین ڈالرز کے نقصان کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ برطانیہ 2.9 بلین ڈالرز کے ساتھ چوتھے اور پاکستان 2.5 بلین ڈالرز کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہا۔ پاکستان کے علاوہ باقی تمام ممالک ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتے ہیں جوکہ یقینا ان آفات کو سہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب کہ ہماری معیشت اس نقصان کے بعد کافی پیچھے چلی گئی۔
2013 کے مون سون میں ہونے والی بارشوں سے 15 لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ 80,000 گھر تباہ ہوئے اور 1.45 ایکڑ سے زیادہ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ قدرتی آفات شروع سے ہی انسانی آزمائشوں کا سلسلہ بنتی آئی ہیں وہ قومیں ان آفات سے نمٹنے میں سرخرو ہوتی ہیں جوکہ باقاعدہ منصوبہ بندی اور اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرتی ہیں بدقسمتی سے ہماری قوم میں دونوں چیزیں مفقود ہیں ۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نہ تو ہمارے پاس کوئی موثر منصوبہ بندی ہے نہ ہی اتحاد کا وہ مظاہرہ جو ان آفتوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔ اس وقت ہمارے سیاسی رہنماؤں کی ضد اور انا پرستی سے پوری قوم ایک عجیب طرح کے انتشار کا شکار ہے۔ لیکن ان غریب لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں، جو اپنی جمع پونجی ان بارشوں اور سیلاب کاریوں میں ہار چکے ہیں۔ شاید یہ ہمارے میڈیا کے لیے ریٹنگ بڑھانے کا موضوع نہ ہو لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ قوم اس وقت ایک کڑے امتحان سے گزر رہی ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم سب کو ایک جان بننا ہوگا۔ شاید اسی میں ملک و قوم کا مفاد پوشیدہ ہے۔