پاکستان ایک نظر میں انقلاب کی دلدل

جہاں انقلاب آئے وہاں تبدیلی ناگزیر ہے اور جہاں تبدیلی آ جائے وہاں انقلاب کودر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔


شاہد اقبال September 12, 2014
،جہاں انقلاب آئے وہاں تبدیلی ناگزیر ہے اور جہاں تبدیلی آ جائے وہاں انقلاب کودر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ فوٹو اے ایف پی

دنیا بھر میں انقلاب کا لفظ تبدیلی کے معنوں میں لیا جاتا ہے ۔ سماجی، سیاسی، معاشی ، یا مذہبی ڈھانچے میں یک لخت وقو ع پذیر ہونے والی تبدیلی کو انقلاب کہتے ہیں۔اس لحاظ سے انقلاب اور تبدیلی دونوں جڑواں بہن بھائی ہیں ،جہاں انقلاب آئے وہاں تبدیلی ناگزیر ہے اور جہاں تبدیلی آ جائے وہاں انقلاب کودر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دونوں کا جنم جنم کا ساتھ ہے ۔کسی بھی معاشرے میں یہ دونوں اکٹھے پیدا ہوتے اکٹھے پروان چڑھتے اور اکٹھے مرتے ہیں۔

انقلاب اور تبدیلی کی بہت سی اقسام اور نسلیں ہیں اور ہر نسل کی اپنی اپنی خصوصیا ت ہیں لیکن ان تمام اقسام اور قبیلوں میں سنجیدگی کی قدر مشترک ہے ۔دنیا میں کہیں بھی انقلاب قوالیوں پر تالیاں پیٹتے ہوئے نہیں آیا نہ ہی گانوں پر جھومتے ہوئے کہیں تبدیلی کو آتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔ لیکن دنیا نے جو کبھی نہیں دیکھا ہم وہی اس کو دکھانا چاہتے ہیں ۔ دنیا بھر کے انقلابی لیڈر کئی کئی سال تک قید و بند کی صعوبتیں جھیل کر اور خون کی ندیاں عبور کر کے انقلاب لاتے ہیں ہمارا انقلاب بلٹ پروف ہے اس لیے یہ ان مراحل سے گزرے بغیر لیلیِٰ اقتدار کی زلف تک رسائی چاہتا ہے۔ہمارا انقلاب عدل و انصاف اور مساوات پر مبنی ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں کارکن سڑک پر اور انقلاب ائیر کنڈیشنڈ کنٹینر میں سوئے۔

سنجیدہ سیاسی انقلاب تین مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے میں نظامِِ موجودہ کی نفی کی جاتی ہے، دوسرا مرحلہ قائم قدروں کی شکست و ریخت پر مشتمل ہوتا ہے جسے تخریب کا عمل کہا جاتا ہے جبکہ آخری مرحلے میں نئی انقلابی سوچ اور فکر کے مطابق تعمیر کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ ہمارے انقلابی لیڈر پہلے مرحلے میں جزوی کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ 29 روز کی شبانہ روز انقلابی تبلیغ کے بعد پاکستانیوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد سنجیدگی سے یہ سمجھنے لگی ہے کہ جمہوریت ایک فضول نظام ہے جس کا فائدہ صرف چند خاندانی پارٹیوں کو ہوتا ہے ، موجودہ حکمران فرعون، نمرود، یزید جیسے تاریخی ظالموں کا جدید ورژن ہیں اور آفاتِ آسمانی سے لے کر بلیا تِ زمینی تک سب کے ذمہ دار یہ ظالم جابر حکمران ہی ہیں۔پڑھے لکھے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بہ قائمی ہوش وحواس اب یہ سمجھنے لگی ہے کہ انقلاب کے آتے ہی پاکستان میں لڑکیوں کے جہیز کے خانگی معاملات سے لے کر سیلاب تک کے آسمانی معاملات فوراً حل ہو جائیں گے ۔ غربت کا نام و نشان نہیں رہے گا، بے روزگار ی یکلخت مٹ جائے گی، ظلم و استحصال کو دیس نکالا مل جائے گا، بے گھروں کوگھر، بے زمینوں کو زمینیں اور بے آسروں کو آسرا مل جائے گا اور دودھ و شہد کی نہریں محاوروں سے نکل کر عملی طور پر پاکستان کے شہروں میں فراٹے بھرنے لگیں گی!

پہلے مرحلے میں موجودہ سیاسی نظام اور حکمرانوں کو مجسم شیطان بنا کر پیش کرنے کے بعد دوسرا اور زیادہ اہم مرحلہ شروع ہوتا ہے جسے صرف تقریروں،بڑھکوں، گانوں اور قوالیوں سے پار نہیں کیا جا سکتا۔ اس مر حلے میں نظامِ باطل سے عملی طور پر ٹکرایا جاتا ہے اور اسے پارہ پارہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے ۔طاہر القادری اور عمران خان اپنی تقریروں کی حد تک تو پارلیمنٹ کو نیست و نابود کرنے کے ساتھ ساتھ نواز شریف اور ان کے وزرا کو سڑکوں پر گھسیٹ چکے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا کرنے کے لیے جس جنون اور دل گردے کی ضرورت ہے وہ ان کے اندر مفقود ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ یہ دونوں لیڈر چھوٹی موٹی جھڑپوں کے ذریعے لہو لگواکر شہیدوں میں نام لکھوانا چاہتے ہیں اور اپنے کارکنوں کی طاقت سے زیادہ فرشتوں کی غیبی امداد کے منتظر ہیں۔

عمران خان کے پاس ابھی بھی انتخابی اصلاحات اور دھاندلی کی شفاف تحقیقات کی چادر اوڑھ کر تبدیلی نہ لانے کی خفت سے بچ نکلنے کا ایک محفوظ راستہ موجود ہے اور قرین قیاس یہی ہے کہ وہ اسی کو اختیار کریں گے لیکن طاہر القادری انقلاب کی دلدل میں پوری طرح دھنس چکے ہیں۔اگرچہ ان کے پاس بھی مریدین کی ایک ایسی تعداد موجود ہے جن کی مدد سے وہ اسلام آباد میں کشت و خون کروا کر باقی زندگی اسی خون کے چالیسووں پر اپنی انقلابی سیاست کو زندہ رکھ سکتے ہیں اور ان کے ارادے کچھ ایسے ہی حل کی طرف اشارہ بھی کر رہے ہیں۔

انقلاب اور تبدیلی جویک جان دو قالب بن چکے ہیں ان دونوں کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ تین ہفتوں تک ایک ہی راگ الاپنے کے بعد اب عمران خان تو تبدیلی کو چھوڑنا چاہ رہے ہیں لیکن تبدیلی انہیں چھوڑنے پر راضی نہیں اسی طرح قادری انقلاب کے کمبل سے دستبردار ہونے کے لیے تو تیارہیں لیکن یہ کمبل اب ان کی جان چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ۔انقلاب سچا ہو یا جھوٹا اس کا تیرکمان سے نکل جائے تو خون کی بھینٹ لئے بغیر چین سے نہیں بیٹھتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خون کی اس بھینٹ کے لیے قربانی کے بکرے کس باڑے سے نکلتے ہیں!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں