اوباما کا شام کے خلاف کارروائی کا عندیہ
اوباما نے شامی حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعاون کو خارج از امکان قرار دیدیا اورکہا کہ بشار الاسد حکومت پر بھروسہ نہیں۔۔۔
SHARJAH:
نائن الیون کی تیرھویں برسی پر جمعرات کو اپنے خطاب میں امریکی صدر بارک اوباما نے اعلان کیا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس آئی ایس) کے عسکریت پسندوں کے خلاف امریکا کی جنگ جاری رہے گی اور اس ضمن میں سیاسی سرحدوں کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ اپنے ٹی وی خطاب میں اوباما نے خبر دار کیا کہ وہ شام یا عراق میں کارروائی کرنے میں ہرگز نہیں ہچکچائیں گے۔
انھوں نے شامی حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعاون کو خارج از امکان قرار دیدیا اور کہا کہ بشار الاسد حکومت پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دہشتگرد خود اس کے اپنے لوگ ہیں اور جو حکومت اپنا قانونی جواز کھو دے اسے کبھی جائز نہیں تسلیم کیا جا سکتا لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس حکومت کے مخالفین کو مضبوط کریں تا کہ آئی ایس کے مدمقابل کوئی طاقت کھڑی ہو سکے نیز شام کے بحران کا کوئی سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔ صدر اوباما کی اس تقریر کو درحقیقت ''پالیسی اسٹیٹمنٹ'' کے طور پر لیا جا رہا ہے جس کے ذریعے وہ امریکی عوام کو تیار کر رہے ہیں کہ اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف امریکا کو سالہا سال تک جنگ لڑنا پڑ سکتی ہے۔ اوباما نے یہ بھی کہا کہ عسکریت پسند عام مسلم آبادی سے مختلف ہیں ان دونوں کو ایک دوسرے سے خلط ملط نہیں کیا جانا چاہیے۔
امریکی صدر کی اس تقریر کے چار کلیدی نقاط ہیں۔ اول یہ کہ اب جنگ شام میں لے جانی پڑے گی۔ دوئم بشار حکومت کو ہدف بنانا پڑے گا۔ سوئم یہ کہ یہ جنگ کئی سال تک چل سکتی ہے۔ اور چہارم یہ کہ آئی ایس اسلام کی نمایندگی نہیں کرتی۔ تاہم اوباما کی اس تقریر پر اندرون اور بیرون ملک سخت تنقید کی گئی ہے۔ حکومت شام نے انتباہ کیا ہے کہ شام ایک خود مختار ملک ہے لہٰذا یہاں کوئی فوجی کارروائی شام کی مرضی اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ امریکی کانگریس میں اوباما کے نکتہ چینوں نے کہا ہے کہ امریکا پہلے ہی افغانستان اور عراق کی دو جنگوں میں پھنسا ہوا ہے لہٰذا وہ کسی اور طویل جنگ میں ملوث ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سوشل میڈیا نیٹ ورک پر صدر اوباما کو سمجھایا جا رہا ہے کہ آئی ایس ایک مذہبی تنظیم ہے لہذا اس کے خلاف فوجی کارروائی بجا نہیں۔ لیکن اوباما کا اصرار ہے کہ یہ جنگجو تنظیم اسلامی نہیں کیونکہ یہ معصوم لوگوں کو مار رہی ہے اور اس کا نشانہ بننے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
اس اعتراض کے جواب میں کہ شام کے اندر آئی ایس کے ٹھکانوں پر حملہ کرنا شام کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہو گی اوباما نے کہا کہ آئی ایس کوئی ریاست نہیں ہے بلکہ یہ القاعدہ کی باقیات ہے۔ امریکی کانگریس کے اس اعتراض کے جواب میں کہ امریکا ایک اور جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا صدر اوباما نے کہا یہ جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہو گا۔ مزید برآں اس میں امریکا کو اپنے اتحادیوں کی مدد بھی حاصل ہو گی اوباما کا دعویٰ ہے کہ وہ آئی ایس کو جڑ سے اکھاڑ کر ختم کر دیں گے۔
دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ جان کیری جو عرب ممالک کے دورے پر ہیں ان کا کہنا ہے کہ کلیدی عرب ریاستیں آئی ایس کے خلاف فوجی کارروائی میں امریکا کے ساتھ شمولیت پر آمادہ ہو گئی ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی دوسری طرف ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ شام یا عراق میں جہادیوں کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی فوجی کارروائی کے لیے اپنی فضا یا زمینی اڈے استعمال کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دے گا۔ ان سرگرمیوں اور بیانات کو دیکھا جائے تو آنے والے دنوں میں عراق و شام کے حالات مزید خراب ہوتے نظر آرہے ہیں کیونکہ امریکا یہاں قیام امن کے لیے نہیں بلکہ خانہ جنگی کو بڑھاوا دینے کے اقدامات کر رہا ہے۔
نائن الیون کی تیرھویں برسی پر جمعرات کو اپنے خطاب میں امریکی صدر بارک اوباما نے اعلان کیا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس آئی ایس) کے عسکریت پسندوں کے خلاف امریکا کی جنگ جاری رہے گی اور اس ضمن میں سیاسی سرحدوں کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ اپنے ٹی وی خطاب میں اوباما نے خبر دار کیا کہ وہ شام یا عراق میں کارروائی کرنے میں ہرگز نہیں ہچکچائیں گے۔
انھوں نے شامی حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعاون کو خارج از امکان قرار دیدیا اور کہا کہ بشار الاسد حکومت پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دہشتگرد خود اس کے اپنے لوگ ہیں اور جو حکومت اپنا قانونی جواز کھو دے اسے کبھی جائز نہیں تسلیم کیا جا سکتا لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس حکومت کے مخالفین کو مضبوط کریں تا کہ آئی ایس کے مدمقابل کوئی طاقت کھڑی ہو سکے نیز شام کے بحران کا کوئی سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔ صدر اوباما کی اس تقریر کو درحقیقت ''پالیسی اسٹیٹمنٹ'' کے طور پر لیا جا رہا ہے جس کے ذریعے وہ امریکی عوام کو تیار کر رہے ہیں کہ اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف امریکا کو سالہا سال تک جنگ لڑنا پڑ سکتی ہے۔ اوباما نے یہ بھی کہا کہ عسکریت پسند عام مسلم آبادی سے مختلف ہیں ان دونوں کو ایک دوسرے سے خلط ملط نہیں کیا جانا چاہیے۔
امریکی صدر کی اس تقریر کے چار کلیدی نقاط ہیں۔ اول یہ کہ اب جنگ شام میں لے جانی پڑے گی۔ دوئم بشار حکومت کو ہدف بنانا پڑے گا۔ سوئم یہ کہ یہ جنگ کئی سال تک چل سکتی ہے۔ اور چہارم یہ کہ آئی ایس اسلام کی نمایندگی نہیں کرتی۔ تاہم اوباما کی اس تقریر پر اندرون اور بیرون ملک سخت تنقید کی گئی ہے۔ حکومت شام نے انتباہ کیا ہے کہ شام ایک خود مختار ملک ہے لہٰذا یہاں کوئی فوجی کارروائی شام کی مرضی اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ امریکی کانگریس میں اوباما کے نکتہ چینوں نے کہا ہے کہ امریکا پہلے ہی افغانستان اور عراق کی دو جنگوں میں پھنسا ہوا ہے لہٰذا وہ کسی اور طویل جنگ میں ملوث ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سوشل میڈیا نیٹ ورک پر صدر اوباما کو سمجھایا جا رہا ہے کہ آئی ایس ایک مذہبی تنظیم ہے لہذا اس کے خلاف فوجی کارروائی بجا نہیں۔ لیکن اوباما کا اصرار ہے کہ یہ جنگجو تنظیم اسلامی نہیں کیونکہ یہ معصوم لوگوں کو مار رہی ہے اور اس کا نشانہ بننے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
اس اعتراض کے جواب میں کہ شام کے اندر آئی ایس کے ٹھکانوں پر حملہ کرنا شام کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہو گی اوباما نے کہا کہ آئی ایس کوئی ریاست نہیں ہے بلکہ یہ القاعدہ کی باقیات ہے۔ امریکی کانگریس کے اس اعتراض کے جواب میں کہ امریکا ایک اور جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا صدر اوباما نے کہا یہ جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہو گا۔ مزید برآں اس میں امریکا کو اپنے اتحادیوں کی مدد بھی حاصل ہو گی اوباما کا دعویٰ ہے کہ وہ آئی ایس کو جڑ سے اکھاڑ کر ختم کر دیں گے۔
دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ جان کیری جو عرب ممالک کے دورے پر ہیں ان کا کہنا ہے کہ کلیدی عرب ریاستیں آئی ایس کے خلاف فوجی کارروائی میں امریکا کے ساتھ شمولیت پر آمادہ ہو گئی ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی دوسری طرف ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ شام یا عراق میں جہادیوں کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی فوجی کارروائی کے لیے اپنی فضا یا زمینی اڈے استعمال کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دے گا۔ ان سرگرمیوں اور بیانات کو دیکھا جائے تو آنے والے دنوں میں عراق و شام کے حالات مزید خراب ہوتے نظر آرہے ہیں کیونکہ امریکا یہاں قیام امن کے لیے نہیں بلکہ خانہ جنگی کو بڑھاوا دینے کے اقدامات کر رہا ہے۔