وہ انسانی المیوں پر غور ہی نہیں کرنا چاہتے
برف کو جنگیں پسند نہیں۔ اس کے بنائے گلیشئروں پر فوجی تعیناتی ہو تو برف روٹھ کر پگھلنا شروع ہو جاتی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کو اب یہ بات تسلیم کر ہی لینا چاہیے کہ وہ جنگوں کے ذریعے ایک دوسرے کو شکست ضرور دے سکتے ہیں مگر اس خطے کی چند بنیادی اور وہ بھی فطرت کی طرف سے طے کردہ جغرافیائی حقیقتوں سے روگردانی نہیں کر سکتے۔
کشمیر کو بھارت اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے پر مصر ہے مگر سندھ طاس معاہدے کی بدولت وہاں سے نکلنے والے تین دریاؤں پر اپنا پورا اختیار حاصل کرنے کے باوجود وہ اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتا کہ وادیٔ کشمیر کا جغرافیائی تعلق صرف اور صرف وادیٔ سندھ سے جڑا ہوا ہے۔ بحر ہند سے مون سون کی ہوائیں اُڑتی ہوئی ہمالیہ سے ٹکراتی ہیں تو ساون بھادوں کی بارشیں ہوتی ہیں۔ کشمیر کے پہاڑوں پر جمی ہوئی برف پگھلتی ہے تو اس کا پانی ان بارشوں کے ساتھ ملتا ہوا ہمارے جنوبی پنجاب کے پنجند کے مقام پر اکٹھا ہو کر سندھ کے مہا ساگر میں شامل ہو کر ٹھٹھہ کے راستے سمندر کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔
جدید دُنیا کا بنایا کوئی ہتھیار اور سیکڑوں ڈیم بھی فطرت کے بنائے راستے میں کچھ رکاوٹیں تو ضرور کھڑ ی کر سکتے ہیں مگر سندھ کے آغاز سے انجام تک کے اس سفر کو ختم نہیں کر سکتے۔ اس سفر کے فطری راستے میں اب تک رکاوٹیں ڈالنے کی جتنی بھی کوششیں ہوئیں انھوں نے بھارت جیسی نسبتاََ بے وسیلہ ریاست کے معاشی مسائل میں بے تحاشہ اضافہ ہی نہیں کیا بلکہ بھارت اور پاکستان کے مابین بداعتمادی کی خلیج کو مزید گہرا بھی کر دیا۔ شاید اس بداعتمادی کے ساتھ دونوں بلکہ اب بھی مزید کئی برس تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ مگر حالیہ سیلاب نے ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ کشمیر اور وادیٔ سندھ کے قدرتی رشتے کو توڑنے کی ساری کوششیں صرف اور صرف انسانی المیوں کو جنم دے رہی ہیں۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے سرینگر جیسا قدیمی شہر کئی دنوں سے گہرے پانی میں گھرا ہوا ہے۔
کشمیر کی بارشوں نے جہلم اور چناب کے پانیوں کو بھی بے قابو بنا دیا۔ جہلم کا غصہ کسی حد تک قابل برداشت رہا مگر چناب نے ذرا بھی رحم نہ دکھایا۔ تھوڑی دیر کو خدا کے لیے نقشہ دیکھ لیجیے اور سری نگر اور مظفر گڑھ کے درمیانی فاصلے کو ذرا تصور میں لانے کی کوشش کریں۔ سیکڑوں کلومیٹر کی دوری کے باوجود دونوں شہروں اور ان کے اطراف سیلابی پانی کی وجہ سے پھیلائی تباہی بالکل ایک جیسی نظر آتی ہے۔ دونوں شہروں کے رہائشیوں کے درمیان اور کچھ نہ سہی سخت سے سخت گیر دل کو کم از کم بے بسی کا ایکا ضرور نظر آ جائے گا۔ بے بسی کی مسلط کردہ اس اکائی کو دیکھ کر دل خودبخود یہ تمنا پالنے کو بھی مجبور ہو جاتا ہے کہ کاش ایک دوسرے سے اتنے دور رہنے والے کروڑوں انسان مون سون کی بخشی راحتوں اور خوش حالی سے بھی یک جان ہو کر فیض یاب ہو سکیں۔
ماحولیات مقابلتاََ ایک جدید علم ہے۔ بدقسمتی سے اس علم کی بدولت دریافت ہوئی سچائیاں NGOs کے ہاتھ لگ گئیں۔ امداد دینے والے ملکوں اور عالمی اداروں نے انھیں خلقِ خدا کو ان سچائیوں سے روشناس کروانے کے لیے لاکھوں ڈالر فراہم کیے۔ ان ڈالروں کی بدولت بڑے شہروں کے پنج ستاری ہوٹلوں میں مختلف موضوعات پر سیمینار اور ورکشاپس وغیرہ منعقد ہوتی چلی گئیں۔ انھوں نے بے تحاشہ رقوم اور وقت کے سفاکانہ اصراف کے بعد ابھی تک پاکستان اور بھارت جیسے ''جمہوری ممالک'' کے سیاستدانوں کو اس بات پر بھی مجبور نہیں کیا کہ وہ عوام سے ووٹ مانگتے وقت ماحولیات سے متعلق کچھ وعدے کرنے کا تکلف ہی کر ڈالا کریں۔
ماحولیات کے مسائل سے خلقِ خدا کو روشناس کروانے کے دعوے داروں کی ناکامی کو سمجھنا ہو تو بس یاد کر لیجیے وہ شور و غوغا جو حالیہ سیلاب کے دوران میرے چند حب الوطنی کے ٹھیکے داروں نے بلند کیے رکھا۔ چناب کا پانی بپھر کر جھنگ کی طرف روانہ ہوا تو دہائی مچ گئی کہ کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بنایا گیا۔ یہ دہائی مچاتے ہوئے کسی نے اتنا تردد بھی نہ کیا کہ پاکستان کا نقشہ دیکھ لے اور بس اتنا سمجھا دے کہ گجرات، منڈی بہاالدین اور پھر جھنگ سے مظفر گڑھ کی طرف رواں پانی کالا باغ ڈیم کی طرف کس مقام سے موڑا جاتا۔ چناب کا راستہ صرف اور صرف چناب کا راستہ ہے۔
اس کا پانی بپھر جاتا ہے تو سوہنی کا کچا گڑھا اسے موت سے ہم آغوش کر دیتا ہے۔ اسی چناب کا پانی اپنے مہربان لمحوں میں جھنگ کی بھینسوں کو دودھ سے بھر دیتا ہے۔ اس دودھ کی بخشی توانائی ہیر جیسی جٹی کو حسن سے مالامال کر دیتی ہے اور تخت ہزارے کا رانجھا اس کے عشق میں مبتلا ہو کر ان بھینسوں کی چاکری اور رکھوالی کے لیے خود کو پیش کر دیتا ہے۔ چناب کے بیلوں میں گھومتی بھینسوں کو تندرست و توانا رکھنا ہے تو چناب کو اس کے فطری راستے پر بہنے دو اور کبھی کبھار اس پانی کو غصہ آ جائے تو اسے بھگتنے کو تیار بھی رہو۔ چناب کے پیٹ میں خدا کے لیے ''پکے کوٹھے'' بناؤ اسے فش فارمز بناتے ہوئے ادھیڑ نہ دو۔
چناب ہی کیا کشمیر سے وادیٔ سندھ میں آ کر سمندر کی طرف بڑھتے سارے دریاؤں کو ناراض نہیں کرنا تو سیاچن کو بھی صرف ایک گلیشیئر نہ سمجھو جو دفاعی حوالے سے چین کو اس سے جوڑ دیتا ہے۔ سیاچن گلیشیئر کو پاکستان یا بھارت فوجی قوت کے بل بوتے پر اپنے پورے قبضے میں رکھنے پر بضد رہیں گے تو بالآخر یہ ایک گلیشیئر نہیں رہے گا۔ فوجی چھاؤنیوں سے بھرا میدان جنگ بن جائے گا۔
برف کو جنگیں پسند نہیں۔ اس کے بنائے گلیشئروں پر فوجی تعیناتی ہو تو برف روٹھ کر پگھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ پانی بن کر دریاؤں میں شامل ہو جاتی ہے۔ برف کو ختم کرو گے تو ایک دن دریا بھی خشک ہو جائیں گے۔ صرف کبھی کبھار تیز بارشوں کے موسم میں تھوڑی دیر کو بھرا کریں گے۔ دریاؤں کے پانی ختم ہونا شروع ہو گئے تو جھنگ کے بیلے بالآخر ویران ہو جائیں گے۔ یہاں ہیر پیدا ہی نہیں ہو پائے گی اور نہ کوئی رانجھا ونجھلی بجاتا اس کی تلاش میں وہاں تک پہنچ جائے گا۔ چاروں طرف بس ریت ہی ریت ہو گی اور انسانوں کے بغیر لق و دق صحرا میں موت کی سیٹیاں بجاتے بگولے۔
آصف علی زرداری میں سیاسی طور پر سو عیب ہوں گے۔ مگر وہ صحرا کی وحشت سے خوب آشنا ہے۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے صدرِ پاکستان منتخب ہو جانے کے بعد ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران کی جو ''سائیڈ لائن'' ملاقات ہوئی وہاں من موہن سنگھ بمبئی-بمبئی کی گردان پڑھتے رہے۔ آصف علی زرداری کا سارا وقت انھیں یہ سمجھانے میں صرف ہو گیا کہ کشمیر میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا فوری نقصان سندھ کے کاشت کار کو ابھی سے محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔ وہاں کے بہت سارے علاقوں میں سندھ کا پانی پہنچنا رک گیا ہے۔ دریا کا پانی آگے نہ بڑھے تو سمندر آگے بڑھ کر زمین کھانا شروع کر دیتا ہے۔
دونوں رہ نما ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھا ہی نہیں پائے۔ بھارت والے اکثر بڑی رعونت سے یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت سے مذاکرات کرنا بے کار ہے کیونکہ اس ملک میں فیصلہ سازی کی ''اصل قوت'' کسی اور کے پاس ہے۔ من موہن سنگھ نے سیاچن پر ''امن پارک'' بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ انھیں یہ خواہش اس وقت کیوں یاد نہ آئی جب پاکستان آرمی کے ایک طاقتور سربراہ جنرل کیانی نے سیاچن پہنچ کر پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ سیاچن کا قضیہ محض فوجی قوت کی بناء پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اور صرف ماحولیات کی سچائیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بہت کچھ اور بھی لکھا جا سکتا ہے۔ مگر کیا حاصل؟ کوئی ان سچائیوں کو جھٹلانے کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسانی المیوں پر غور ہی نہیں کرنا چاہتا۔
کشمیر کو بھارت اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے پر مصر ہے مگر سندھ طاس معاہدے کی بدولت وہاں سے نکلنے والے تین دریاؤں پر اپنا پورا اختیار حاصل کرنے کے باوجود وہ اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتا کہ وادیٔ کشمیر کا جغرافیائی تعلق صرف اور صرف وادیٔ سندھ سے جڑا ہوا ہے۔ بحر ہند سے مون سون کی ہوائیں اُڑتی ہوئی ہمالیہ سے ٹکراتی ہیں تو ساون بھادوں کی بارشیں ہوتی ہیں۔ کشمیر کے پہاڑوں پر جمی ہوئی برف پگھلتی ہے تو اس کا پانی ان بارشوں کے ساتھ ملتا ہوا ہمارے جنوبی پنجاب کے پنجند کے مقام پر اکٹھا ہو کر سندھ کے مہا ساگر میں شامل ہو کر ٹھٹھہ کے راستے سمندر کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔
جدید دُنیا کا بنایا کوئی ہتھیار اور سیکڑوں ڈیم بھی فطرت کے بنائے راستے میں کچھ رکاوٹیں تو ضرور کھڑ ی کر سکتے ہیں مگر سندھ کے آغاز سے انجام تک کے اس سفر کو ختم نہیں کر سکتے۔ اس سفر کے فطری راستے میں اب تک رکاوٹیں ڈالنے کی جتنی بھی کوششیں ہوئیں انھوں نے بھارت جیسی نسبتاََ بے وسیلہ ریاست کے معاشی مسائل میں بے تحاشہ اضافہ ہی نہیں کیا بلکہ بھارت اور پاکستان کے مابین بداعتمادی کی خلیج کو مزید گہرا بھی کر دیا۔ شاید اس بداعتمادی کے ساتھ دونوں بلکہ اب بھی مزید کئی برس تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ مگر حالیہ سیلاب نے ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ کشمیر اور وادیٔ سندھ کے قدرتی رشتے کو توڑنے کی ساری کوششیں صرف اور صرف انسانی المیوں کو جنم دے رہی ہیں۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے سرینگر جیسا قدیمی شہر کئی دنوں سے گہرے پانی میں گھرا ہوا ہے۔
کشمیر کی بارشوں نے جہلم اور چناب کے پانیوں کو بھی بے قابو بنا دیا۔ جہلم کا غصہ کسی حد تک قابل برداشت رہا مگر چناب نے ذرا بھی رحم نہ دکھایا۔ تھوڑی دیر کو خدا کے لیے نقشہ دیکھ لیجیے اور سری نگر اور مظفر گڑھ کے درمیانی فاصلے کو ذرا تصور میں لانے کی کوشش کریں۔ سیکڑوں کلومیٹر کی دوری کے باوجود دونوں شہروں اور ان کے اطراف سیلابی پانی کی وجہ سے پھیلائی تباہی بالکل ایک جیسی نظر آتی ہے۔ دونوں شہروں کے رہائشیوں کے درمیان اور کچھ نہ سہی سخت سے سخت گیر دل کو کم از کم بے بسی کا ایکا ضرور نظر آ جائے گا۔ بے بسی کی مسلط کردہ اس اکائی کو دیکھ کر دل خودبخود یہ تمنا پالنے کو بھی مجبور ہو جاتا ہے کہ کاش ایک دوسرے سے اتنے دور رہنے والے کروڑوں انسان مون سون کی بخشی راحتوں اور خوش حالی سے بھی یک جان ہو کر فیض یاب ہو سکیں۔
ماحولیات مقابلتاََ ایک جدید علم ہے۔ بدقسمتی سے اس علم کی بدولت دریافت ہوئی سچائیاں NGOs کے ہاتھ لگ گئیں۔ امداد دینے والے ملکوں اور عالمی اداروں نے انھیں خلقِ خدا کو ان سچائیوں سے روشناس کروانے کے لیے لاکھوں ڈالر فراہم کیے۔ ان ڈالروں کی بدولت بڑے شہروں کے پنج ستاری ہوٹلوں میں مختلف موضوعات پر سیمینار اور ورکشاپس وغیرہ منعقد ہوتی چلی گئیں۔ انھوں نے بے تحاشہ رقوم اور وقت کے سفاکانہ اصراف کے بعد ابھی تک پاکستان اور بھارت جیسے ''جمہوری ممالک'' کے سیاستدانوں کو اس بات پر بھی مجبور نہیں کیا کہ وہ عوام سے ووٹ مانگتے وقت ماحولیات سے متعلق کچھ وعدے کرنے کا تکلف ہی کر ڈالا کریں۔
ماحولیات کے مسائل سے خلقِ خدا کو روشناس کروانے کے دعوے داروں کی ناکامی کو سمجھنا ہو تو بس یاد کر لیجیے وہ شور و غوغا جو حالیہ سیلاب کے دوران میرے چند حب الوطنی کے ٹھیکے داروں نے بلند کیے رکھا۔ چناب کا پانی بپھر کر جھنگ کی طرف روانہ ہوا تو دہائی مچ گئی کہ کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بنایا گیا۔ یہ دہائی مچاتے ہوئے کسی نے اتنا تردد بھی نہ کیا کہ پاکستان کا نقشہ دیکھ لے اور بس اتنا سمجھا دے کہ گجرات، منڈی بہاالدین اور پھر جھنگ سے مظفر گڑھ کی طرف رواں پانی کالا باغ ڈیم کی طرف کس مقام سے موڑا جاتا۔ چناب کا راستہ صرف اور صرف چناب کا راستہ ہے۔
اس کا پانی بپھر جاتا ہے تو سوہنی کا کچا گڑھا اسے موت سے ہم آغوش کر دیتا ہے۔ اسی چناب کا پانی اپنے مہربان لمحوں میں جھنگ کی بھینسوں کو دودھ سے بھر دیتا ہے۔ اس دودھ کی بخشی توانائی ہیر جیسی جٹی کو حسن سے مالامال کر دیتی ہے اور تخت ہزارے کا رانجھا اس کے عشق میں مبتلا ہو کر ان بھینسوں کی چاکری اور رکھوالی کے لیے خود کو پیش کر دیتا ہے۔ چناب کے بیلوں میں گھومتی بھینسوں کو تندرست و توانا رکھنا ہے تو چناب کو اس کے فطری راستے پر بہنے دو اور کبھی کبھار اس پانی کو غصہ آ جائے تو اسے بھگتنے کو تیار بھی رہو۔ چناب کے پیٹ میں خدا کے لیے ''پکے کوٹھے'' بناؤ اسے فش فارمز بناتے ہوئے ادھیڑ نہ دو۔
چناب ہی کیا کشمیر سے وادیٔ سندھ میں آ کر سمندر کی طرف بڑھتے سارے دریاؤں کو ناراض نہیں کرنا تو سیاچن کو بھی صرف ایک گلیشیئر نہ سمجھو جو دفاعی حوالے سے چین کو اس سے جوڑ دیتا ہے۔ سیاچن گلیشیئر کو پاکستان یا بھارت فوجی قوت کے بل بوتے پر اپنے پورے قبضے میں رکھنے پر بضد رہیں گے تو بالآخر یہ ایک گلیشیئر نہیں رہے گا۔ فوجی چھاؤنیوں سے بھرا میدان جنگ بن جائے گا۔
برف کو جنگیں پسند نہیں۔ اس کے بنائے گلیشئروں پر فوجی تعیناتی ہو تو برف روٹھ کر پگھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ پانی بن کر دریاؤں میں شامل ہو جاتی ہے۔ برف کو ختم کرو گے تو ایک دن دریا بھی خشک ہو جائیں گے۔ صرف کبھی کبھار تیز بارشوں کے موسم میں تھوڑی دیر کو بھرا کریں گے۔ دریاؤں کے پانی ختم ہونا شروع ہو گئے تو جھنگ کے بیلے بالآخر ویران ہو جائیں گے۔ یہاں ہیر پیدا ہی نہیں ہو پائے گی اور نہ کوئی رانجھا ونجھلی بجاتا اس کی تلاش میں وہاں تک پہنچ جائے گا۔ چاروں طرف بس ریت ہی ریت ہو گی اور انسانوں کے بغیر لق و دق صحرا میں موت کی سیٹیاں بجاتے بگولے۔
آصف علی زرداری میں سیاسی طور پر سو عیب ہوں گے۔ مگر وہ صحرا کی وحشت سے خوب آشنا ہے۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے صدرِ پاکستان منتخب ہو جانے کے بعد ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران کی جو ''سائیڈ لائن'' ملاقات ہوئی وہاں من موہن سنگھ بمبئی-بمبئی کی گردان پڑھتے رہے۔ آصف علی زرداری کا سارا وقت انھیں یہ سمجھانے میں صرف ہو گیا کہ کشمیر میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا فوری نقصان سندھ کے کاشت کار کو ابھی سے محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔ وہاں کے بہت سارے علاقوں میں سندھ کا پانی پہنچنا رک گیا ہے۔ دریا کا پانی آگے نہ بڑھے تو سمندر آگے بڑھ کر زمین کھانا شروع کر دیتا ہے۔
دونوں رہ نما ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھا ہی نہیں پائے۔ بھارت والے اکثر بڑی رعونت سے یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت سے مذاکرات کرنا بے کار ہے کیونکہ اس ملک میں فیصلہ سازی کی ''اصل قوت'' کسی اور کے پاس ہے۔ من موہن سنگھ نے سیاچن پر ''امن پارک'' بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ انھیں یہ خواہش اس وقت کیوں یاد نہ آئی جب پاکستان آرمی کے ایک طاقتور سربراہ جنرل کیانی نے سیاچن پہنچ کر پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ سیاچن کا قضیہ محض فوجی قوت کی بناء پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اور صرف ماحولیات کی سچائیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بہت کچھ اور بھی لکھا جا سکتا ہے۔ مگر کیا حاصل؟ کوئی ان سچائیوں کو جھٹلانے کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسانی المیوں پر غور ہی نہیں کرنا چاہتا۔