لاجواب لوگ

مغربی دنیا میں جہاں بھی کوئی بڑے سے بڑا شخص کرپشن یا کرپشن کے محض الزام کا شکارہوتا ہے وہاں کا نظام حرکت میں آجاتا ہے

raomanzarhayat@gmail.com

لاہور:
قومیں کس طرح ترقی کے سفر پر گامزن ہوتی ہیں؟ کیا کوئی معجزہ انھیں خوشحالی کی جانب کھینچ کر لے جاتاہے؟ یا کوئی غیر معمولی واقعہ ان کی خوش نصیبی کی وجہ بنتا ہے؟ میری دانست میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ کوئی بھی ایسا عظیم فارمولا نہیں ہے جو قوموں نے عقل کی دکان سے خرید کر اپنے اوپر آزما یاہو اور ترقی کر لی ہو۔ بالکل سادہ سی بات ہے۔ باصلاحیت قیادت اور اس پر کڑی نظر رکھنے والا مضبوط نظام! آپکی دانست میں امریکا یا یورپ میں سیاسی قائدین مالی بے ضابطگیوں میں ملوث نہیں ہوتے؟ آپ حیران رہ جائینگے کہ انسانی فطرت ہر ملک اور ہر خطہ میں بالکل ایک جیسی ہے۔

مغربی دنیا میں جہاں بھی کوئی بڑے سے بڑا شخص کرپشن یا کرپشن کے محض الزام کا شکار ہوتا ہے، وہاں کا نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔ کوئی سفارش، کوئی اقربا پروری یا کوئی دباؤ تحقیقات پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے! بڑے سے بڑے سیاستدان، کاروباری لوگ اور سرکاری ملازم اپنے خلاف تحقیقات کے بعد واقعی سزا پاتے ہیں۔ یہ وہ بنیاد ہے جس نے ان قوموں کو ترقی کی اس منزل پر پہنچا دیا ہے جس کا فی الحال ہم تصور نہیں کر سکتے۔

ایک سال قبل میں ایک سرکاری وفد کے ساتھ لندن گیا ہوا تھا۔ وہاں اسکاٹ لینڈ یارڈ کے دفتر میں ایک بریفنگ رکھی گئی تھی۔ جو برطانوی پولیس افسر یہ بریفنگ دے رہا تھا، وہ بہت سینئر اور منجھا ہوا افسر تھا۔ جب اس سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا کبھی کسی کیس میں آپ پر کوئی حکومتی دباؤ آیا ہے؟ وہ انگریز تھوڑی دیر کے لیے پریشان سا ہو گیا۔ دراصل اسے یہ سوال سمجھ نہیں آیا تھا۔ خیر دوبارہ پوچھنے پر اس نے انتہائی سنجیدگی سے جواب دیا کہ اس کے پچیس سال کے پولیس کیریئر میں ایک بار بھی کسی بھی سطح سے اسے کبھی سفارش نہیں کی گئی۔ یہ جواب برطانیہ کے علاوہ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک کے لیے بالکل یکساں ہے۔ خواہ وہ سویڈن ہو یا فرانس۔ وہ امریکا ہو یا ہالینڈ۔ ان تمام ممالک میں قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور یہی ان کے نظام کی مضبوطی ہے۔

اب آپ اپنے ملک کی طرف نظر دوڑائیے۔ وسائل نہیں، بلکہ حیرت انگیز وسائل ہونے کے باوجود ہم ایک ناکام ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے متعارف ہوتے ہیں۔ ہمارے تمام مسئلے ایک غیر منصفانہ نظام کی بدولت دیو بن کر ہمارے سامنے کھڑے ہو چکے ہیں۔ اپنے دروازے بند کر کے ساٹھ سال سے خوفزدہ بیٹھے ہوئے ہیں! اور پتہ نہیں، مزید کتنی دہائیاں اسی طرح گزر جائینگی۔ آپ بتائیں! جس ملک کو اپنے شہریوں کی اصل تعداد کا ہی علم نہ ہو، وہ ترقی کی منصوبہ بندی کیسے کریگا؟ ہماری تمام سیاسی جماعتیں نوجوان طبقے کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں دیوانی ہو چکی ہیں۔ مگر کیا ہمارے پاس کوئی ایسی پالیسی ہے جس میں پانچ سے سات کروڑ نوجوان برسرِروزگار ہو جائیں؟

کیا ہم سالانہ چالیس پچاس لاکھ نوکریاں مہیا کر سکتے ہیں! جواب مکمل نفی میں ہے۔ ہم تمام لوگ ایک ایسے نظام کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس میں درحقیقت میرٹ، انصاف یا قانون کی حکمرانی کا کسی قسم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ہم لوگ صرف سانس لے رہے ہیں۔ زندہ نہیں ہیں! بدقسمتی سے ہمارے پورے نظام پر ایک یا حد دو درجن لوگ قابض ہو چکے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص ان چند لوگوں کے سامنے مکمل بے بس ہے۔ میں ہزاروں مثالیں دے سکتا ہوں مگر کیا مثالیں دینے سے کوئی فرق پڑیگا؟ صاحبان فہم! قطعاً نہیں۔

آپ موجودہ سیلاب کی مثال لے لیجیے۔ جب سے ملک وجود میں آیا ہے، یہ سلسلہ تواتر سے جاری ہے۔ ہر دو تین سال کے بعد سیلاب ایک مہیب اژدہے کی مانند آتا ہے اور ہمارے صوبوں کو برباد کر کے غائب ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم سیلاب میں اپنے بے مثال اقدامات کا ڈھول بجانا شروع کر دیتے ہیں۔ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہم نے ان کی لاجواب خدمت کی ہے۔ مگر کیا آج تک ہماری کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے سوچا ہے کہ اس پانی کو کس طرح ملکی فائدے میں استعمال کیا جا سکتا ہے! کیا ہماری ایک سطر کی منصوبہ بندی بھی اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ دریاؤں کے پانی کو کس جدید طریقے سے اپنی حدود میں رکھنا ہے۔ کیا ہم نے آسٹریلیا کی طرح ایسا نظام بنانے کی کوشش بھی کی ہے جس سے یہ تمام پانی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بنیادی سے بھی بنیادی سوالات ہیں۔ مگر ہمارے پاس کسی طرح کا کوئی جواب نہیں ہے۔ بطور حکومت، ہمارے پاس اپنی کوتاہیوں سے سیکھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

مگر اس سکے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ وہ ہے ہمارے ملک کے عام شہری۔ میں انتہائی دیانتداری سے عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے لوگوں جیسے محنتی اور حیرت انگیز شخص پوری دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ صلاحیت کے خزانے سے خداوند کریم نے اس قوم کے عام لوگوں کو بے حساب نوازا ہے۔

نائلہ عالم اور یاسمین درانی دو پاکستانی خواتین ہیں۔ دونوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک چھوٹا سا ادارہ بنایا ہے۔ اس ادارہ کا نام ایکسپریس کیئر"Express Care"ہے۔ یہ مستحق لوگوں کو ضرورت کی تمام اشیامفت مہیا کرتی ہیں۔ یہ کوشش کرتیں ہیں کہ لوگوں کو باعزت روزگار بھی مہیا کیا جا سکے۔ ان کا کسی حکومتی ادارہ سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکا کے صدارتی محل، وائٹ ہاؤس میں ایک سالانہ تقریب منعقد کی جاتی ہے۔


امریکی صدر ایک بین الاقوامی ایوارڈ لوگوں کو ان کی سماجی خدمات کے اعتراف میں دیتا ہے۔ اس ایوارڈ کا نام"Honors of hope Award" ہے۔ ان دو خواتین کو وائٹ ہاؤس میں اس عزت سے نوازا گیا۔ عائشہ فاروق کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ اس کی عمر اس وقت صرف پچیس برس ہے۔ یہ پاکستان ایئر فورس میں فائٹر پائلٹ ہے۔ یہ ان 19 بے خوف اور ہمت والی خواتین میں سے ایک ہے جنہوں نے گزشتہ دس برس میں پاکستان ایئر فورس میں اپنی حیثیت ایک فائٹر پائلٹ کے طور پر منوائی ہے۔ محنت اور ملک کی بے لوث خدمت کی کیا یہ ایک ادنیٰ مثال ہے؟ ہرگز نہیں! عائشہ فاروق نے ثابت کیا ہے کہ پاکستانی لڑکیاں مشکل سے مشکل کام بھی سرانجام دے سکتی ہیں۔

فیضان بزدار، غلام اسحاق انجینئرنگ کالج کا گریجویٹ انجینئر ہے۔ اس نے ایک حیرت انگیز کام کیا ہے۔ اس نے"Conro" کے نام سے کمپیوٹر پر ایک سوشل نیٹ ورک بنایا ہے۔ جو دنیا کی تمام اہم تجارتی کمپنیوں کے درمیان رابطہ کا کام کرتا ہے۔ بزدار کو امریکی صدر بارک اوباما نے خاص طور پر اپنے گھر پر مدعو کیا اور نایاب کام کرنے پر بے انتہا ستائش کی۔ آپ حیران رہ جائینگے کہ بزدار کو کام کو جاری رکھنے کے لیے Venture Capitalists نے پانچ ملین ڈالر یعنی پچاس کروڑ روپے کا عطیہ دیا۔ عطیہ دینے والی کمپنیوں میں وہ بین الاقوامی تجارتی ادارے بھی شامل ہیں جوـ

"Apple" جیسے جناتی اداروں کے مالک ہیں۔ آج بزدار، پوری دنیا میں پاکستان کے لیے عزت اور احترام کی نشانی ہے۔ سید فہد علی کراچی کا رہنے والا نوجوان ہے۔ اس نے تعلیم کے میدان میں"آغاز اسکول" کی بنیاد رکھی۔ یہ اسکول غریب بچوں کے لیے انتہائی معیاری تعلیم مہیا کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے۔ یہ کراچی کی کچی اور غریب آبادیوں میں اسکولوں کی ایک لڑی بنانے میں مصروف ہے۔ اس کی توجہ صرف اور صرف محنتی اور غریب بچے ہیں۔ یہ لاجواب کام اب پوری دنیا کی سطح پر ہمارے ملک کے لیے باعث تکریم ہے۔

ماریہ طور پاکئی وزیر کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔ وہاں بچیوں کے کھیلنے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پسماندہ ترین علاقہ اور قدامت پسند معاشرے میں رہنے کے باوجود ماریہ نے "اسکواش" جیسے مشکل کھیل میں شدید محنت سے اپنا نام پیدا کیا ہے۔ کہاں وزیرستان اور کہاں اسکواش جیسا کھیل! کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں سے ایک لڑکی اس کھیل میں پاکستان کی نیک نامی کا ذریعہ بنے گی۔ ماریہ پوری دنیا میں"اسکواشـ" کھیلتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کا نمبر 54 ہے جو ایک انتہائی کامیاب کھلاڑی کی نشانی ہے۔

پروین سعید نے ایک انتہائی انوکھا کام کیا۔ اس نے "کھانا گھر" کے نام سے ایک معمولی سا کاروبار شروع کیا۔ اس کا مقصد غریب اور مستحق لوگوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنا تھا۔ آپ حیران ہونگے کہ آغاز میں ایک وقت کی کھانے کی قیمت صرف تین روپے رکھی گئی۔ یہ انتظام آج بھی موجود ہے۔ سیکڑوں غریب لوگ اپنی سفید پوشی قائم رکھتے ہوئے باعزت طریقے سے کھانا کھا ر ہے ہیں۔

ڈاکٹر نوید سید پاکستان سے تعلیم یافتہ ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ انھوں نے میڈیسن کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا۔ ڈاکٹر نوید نے انسانی دماغ کے خلیوں کو کمپیوٹر کی ایک چپ سے منسلک کر دیا۔ طب کی دنیا میں یہ ایک اتنا نایاب تجربہ ہے جس نے انسانی دماغ اور مصنوعی ذہانت کے درمیان پہلا سائنسی پُل تعمیر کیا ہے۔ ان کی اس سائنسی تحقیق نے تخلیقی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔

میرے سامنے ان قابل فخر لوگوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ جیسے میر ظفر علی ہالی وڈ کی فلم انڈسٹری میں "خصوصی صوتی اور بصری اثرات" دینے کا ماہر ترین شخص گردانا جاتا ہے۔ اسپائیڈر مین,(Spider Man) ممی(Mummy) اور اس جیسی کئی بے مثال فلموں کی کامیابی محض میر ظفر کی بدولت ہے۔

اسکو اپنے شعبے میں گرانقدر کام کرنے پر2007ء میں Oscar Award دیا گیا۔ میں کس کس کا ذکر کروں! اور کس کس کو رہنے دوں! یقین کیجیے، ان کامیاب اور قابل فخر پاکستانی شہریوں کے متعلق لکھتے ہوئے میں خود اپنے اندر ایک حوصلہ اور توانائی محسوس کر رہا ہوں۔ یہ اور ان جیسے سیکڑوں لوگ ہمارے ملک کی عزت اور حرمت کا نشان ہیں! یہ ہماری ناموس کے امین بھی ہیں اور محافظ بھی! جب تک ایسے لاجواب لوگ موجود ہیں، ہمارے ملک کا مستقبل مکمل طور پر محفوظ اور درخشاں ہے!
Load Next Story