سیلابی ریلا

سال میں ایک بار بارش، مانا کہ یہ بارش زیادہ تھی مگر اس معاملے سے نمٹنے کے لیے خدا نے بہت ڈھیل دی۔

anisbaqar@hotmail.com

ہر برس مون سون اٹھتا ہے ابر رحمت برستا ہے مگر ہم محو خواب ہی ہوتے ہیں کبھی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ سیاسی طور پر حدبندی ہو چکی 1947ء میں زمینی حدیں تقسیم ہو گئیں صحرا، دریا، پہاڑ سب تقسیم ہو گئے سمندری اور دریائی حدود بھی۔ مگر ہواؤں اور موسموں کو کیسے تقسیم کیا جائے جو ابر بحر ہند سے اٹھے یا خلیج بنگال سے اس کو برسنا تو ہو گا۔ یہ سیاسی اور جغرافیائی تقسیم آسمانوں میں ممکن نہیں۔

ملک کو آزاد ہوئے 67 سال ہو گئے مگر آبپاشی نظام میں کوئی ترقی نہ ہوئی چولستان اور تھر اجڑ گئے، برسات نہ ہوئی مال مویشی بھوک و پیاس سے دم توڑ گئے ملک کے ایک حصے میں سیلاب اور دوسرے حصے میں قحط یہ سب کیوں؟ محض اس لیے کہ آبی نظام پر توجہ نہ دی گئی جن دریاؤں پر بھارت کا قبضہ ہے ان کی گزرگاہیں بلند ہو گئی تھیں مٹی کے ڈھیر، خشک راستے، غلاظت کا ڈھیر بن گئے تھے۔

اس مسئلے پر 6 ماہ قبل ایک مضمون لکھا تھا مگر کون سنے گا پکار اور اب سیاسی حکمران یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ دھرنا ختم کر کے امداد کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ ان کو کون یہ بتائے کہ سارا پاکستان بھی اگر ان دریاؤں کے مدمقابل کھڑا ہو جائے گا تب بھی یہ دریا کی روانی روکنے کے قابل نہ ہوں گے کیونکہ یہ سیلابی ریلا تو تدبیر کا طالب ہے مگر ہوشیار حکمران اس کو بھی تقدیر کا لکھا کہہ کر لوگوں کو سمجھا رہے ہیں۔

گویا یہ قدرتی آسمانی آفت ہے۔ سال میں ایک بار بارش، مانا کہ یہ بارش زیادہ تھی مگر اس معاملے سے نمٹنے کے لیے خدا نے بہت ڈھیل دی۔ 1968ء کے بعد نہری نظام کو منظم نہ کیا گیا اور نہ ہی خاطرخواہ وسعت دی گئی۔ 2 عدد ڈیم جو ایوب خان نے بنائے تھے نہ تو کوئی نیا ڈیم بنایا گیا پھر سندھ کا تو کہنا کیا جب یہ پانی سمندر سے ملنے کو بے تاب ہوتا ہے تو بدین اور کے ٹی بندر پر اس کی جولانی تباہ کاریاں۔ کاش کہ منصوبہ بندی ہوتی تو بوند بوند کو ترستے لوگ سندھ کی زرعی زمین کس قدر اچھی ہوتی۔ چھوٹے چھوٹے بند ہوتے۔ نہری نظام ہوتا، مصنوعی جھیلیں، بڑے تالاب ہوتے تو کیا پانی کا زور تقسیم در تقسیم اور پھیلاؤ سے کم نہ ہوتا لاکھوں ایکڑ اراضی، فصلیں تباہ، انسان برباد نہ ہوتے، مال مویشی دریا برد ہو گئے۔ پانچ دریاؤں کا میرا حسین دیس تباہ و برباد ہو گیا۔

یہ قہر خداوندی نہیں بلکہ جبر انسانی ہے۔ یہ دو بڑی سیاسی پارٹیوں کا ملاپ ہے کہ ایک باری تمہاری حکومت دوسری باری ہماری۔ حکومت سندھ پیپلز پارٹی نے تو حد کر دی لہٰذا اب دونوں پارٹیوں کا ادغام ہو جانا چاہیے اور اس نئی پارٹی کا نام پیپلز پارٹی مسلم لیگ ہونا چاہیے کیونکہ گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تم ہماری نقاب کشائی کرو نہ ہم تمہاری نقاب کشائی کریں۔


بعض نادان یہ سمجھ رہے ہیں کہ بھارت سے دوستی کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت کا تسلسل برقرار رہے۔ موجودہ حکومت نے وزارت خارجہ کا قلم دان ہی کسی کے سپرد نہیں کیا اس کی خارجہ پالیسی کا تکون کچھ یوں ہے امریکا، ترکی اور چند عرب ممالک اور بھارت کی تابعداری جیسا کہ مغربی ممالک کی خواہش ہے اسی لیے وہ بھی اس کا تسلسل چاہتے ہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ نے سال بھر کوئی بڑا اجلاس نہ کیا بلکہ ایوان خالی رہتا تھا۔ ایک شخص بیٹھ کر بجلی کے نرخ مقرر کرتا رہا قانون سازی نہ کی گئی بلکہ کرسی بچانے کی تدبیریں کی گئیں۔ پارلیمنٹ نے کبھی یہ نہ سوچا کہ غریب عوام کا کیا ہو گا اور تنخواہوں کا فرق ایک طرف دس لاکھ دوسری طرف دس ہزار گھر کیسے چلتا ہو گا جمہوریت کے پکے راگ الاپے جا رہے ہیں۔

اگر آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو بتاتا چلوں کہ اگر آپ بیمار ہیں پیسہ نہیں اسپتال میں جا کر لیٹ جائیں پہلے آپ کا علاج فوری طور پر ہو گا آپ صحت یاب ہو جائیں گے تو پھر آپ کے پاس بل آئے گا انشورنس کا پوچھا جائے گا اگر نہیں رقم یا انشورنس نہیں ہے تو پھر آپ کا بل خیراتی فنڈ سے ادا کر دیا جائے گا۔ تعلیم کا سالانہ خرچ اگر 50 ہزار ڈالر ہے تو وہ بھی آپ کو ادھار مل جائے گا نوکری ملنے پر ماہانہ ادائیگی کی قسط کاٹ لی جائے گی۔ مکان خریدنے کی رقم بھی آپ کو مل جائے گی امریکی اور برطانوی جمہوریت میں انسان کو جینے کا حق تو ہے مگر یہ کون سی جمہوریت ہے جہاں ہفتوں پر مشتمل تقریریں جمہوریت کا دفاع کر رہی ہیں۔

ایسی جمہوریت جس نے جمہور کو انسانی بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے اور آج بھی تقریریں جاری ہیں ایں جناب آتے اور آں جناب جاتے دونوں جنگ زرگری میں مصروف ہیں اگر بی بی سی پر چلائی گئی فلم کا ان لوگوں کو ذرا بھی ادراک ہوتا کہ کس طرح ملک کے حکمرانوں کی منی لانڈرنگ دکھائی گئی ہے اور خود حکمرانوں نے دیکھی ہو تو وہ از خود مستعفی ہو جاتے سب تو سب اس جمہوریت کے دفاع کے لیے اسفند یار ولی بھی آ گئے اور کہتے ہیں کہ جمہوری عمل چلنے دیا جائے۔ اسفند یار ولی صاحب راقم نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی کمیٹی سندھ کا رکن رہ چکا ہے اس وقت جب آپ بھی رکن نہ تھے کیا آپ 1973-74ء میں حیدرآباد سازش کیس بھول گئے یہ اس سے بدتر جمہوریت ہے۔

آپ کی والدہ ماجدہ نے جو الزامات لگائے تھے میں اس کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا آپ کی قیادت میں عوامی نیشنل پارٹی کی سرخ ٹوپی کی ایمبرائیڈری کے علاوہ کچھ بھی بہتر نہیں ہوا۔ کرپشن کی حمایت اور ساجھے داری نے عوامی نیشنل پارٹی کا شیرازہ بکھیر دیا اور وہ نہایت محدود ہو گئی۔ صرف شاہی سید نے اپنا دائرہ وسیع کیا، وہ بھی اپنی کمیونٹی میں۔ آپ حضرات نے جمہوریت کی تعلیم کہاں سے لی یہ خان غفار خان اور ولی خان کی تعلیم کے منافی ہے کیونکہ ولی خان مادر ملت کی شمع جمہوریت 1964ء میں خیبر سے کراچی لائے تھے اس جمہوریت میں تو لوکل باڈی الیکشن بھی نہیں ہوتے اس لیے کہیں طرہ پر پیچ و خم کا پردہ نہ چاک ہو جائے۔ اور تیز بارش پورے شہری نظام کا پردہ چاک کر دے گی۔ گزشتہ چند دنوں سے عمران خان کی تقریریں مزدوروں اور کسانوں کے حقوق سے متعلق ہیں اور وہ بار بار اقوال حضرت علی دہرا رہے ہیں کہ کفر سے حکومت ممکن ہے ظلم سے نہیں اور طاہر القادری تو حکومت کے اس تسلسل کو توڑنے پر تیار ہیں جو گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے جاری ہے۔

اسی لیے وہ اس کو انقلاب کہہ رہے ہیں۔ مانا کہ یہ نہ انقلاب روس ہے نہ انقلاب چین، نہ فیڈل کاسترو یا کم ال سنگ کا مگر یہ وہ انقلاب تو ہے جس میں مخدوم محی الدین کے ترانے گائے جاتے ہیں جس میں مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی باتیں تو ہوتی کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ماڈل ٹاؤن کا سانحہ کوئی سانحہ نہیں یہ ان سے کوئی پوچھے کہ جن کے بچے اور گھر والے لقمہ اجل بنے۔ ایک وقت ایسا تھا جب قلم کار صرف حق دار کی حمایت کرتا تھا مگر اب قلم بھی برائے فروخت ہے۔ جمہوریت کی تعریف بھی بدلی جا رہی ہے۔
Load Next Story