جان مال اور عزت کے ڈاکو
خدا کرے جعلی عاملوں کے ہاتھوں جان و مال اور عزت سے محروم ہونے والے لوگوں کی خبریں ان نادان عوام کی آنکھیں کھول دے
خبر شایع ہوئی کہ اندرون ِسندھ میں عامل نے ایک عورت کو بہیمانہ تشدد کر کے ہلاک کر ڈالا ۔ یہ عورت جن نکلوانے اس کے پاس آئی تھی ۔ اس ظالم نے جن کی جگہ جان ہی نکال دی ۔ لوہے کے سریے مار مار کر اس کی گردن توڑ ڈالی اور خود فرار ہوگیا ۔ طرہ یہ کہ عامل ہندو تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہالت نے لوگوں کے عقل و شعور کو یہاں تک ماؤف کردیا ہے کہ وہ ایمان سے بالکل کورے ایک ہندو کو بھی روحانی امراض کا ماہر مان لیتے ہیں، گویا ان کے نزدیک روحانیت کے لیے ایمان بھی شرط نہیں!... اس جہالت کے نتیجے میں عاملوں کی دکانیں تو خوب چمک رہی ہیں جب کہ عوام دین و دنیا دونوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مذکورہ واقعے میں تو بے چاری عورت کو جان سے ہی ہاتھ دھونا پڑگئے، جس پر غالب گمان یہ ہے کہ کوئی جن نہیں تھا، بلکہ کوئی نفسیاتی یا ذہنی مرض ہو گا، جسے اہلِ خانہ نے جن سمجھ لیا ہو گا۔
شرقپور کے علاقے عیسن کی ایک اور درد ناک خبر ملاحظہ فرمائیے، جہاں کالے علم کی کاٹ پلٹ کے دعوے دار ایک جعلی عامل نے تعویذ لینے کے لیے آنے والی منڈی فیض آباد کی معمر خاتون کا سر تن سے جدا کردیا۔ 65 سالہ غلام فاطمہ بشارت کے پاس آئی تو اس نے تیز دھار آلے سے اس کا سر تن سے جدا کرنے کے علاوہ اس کے ہاتھوں کی انگلیاں بھی کاٹ دیں۔ سر قریبی کھیتوں میں اور دھڑ نہر میں بہا دیا۔ جعلی عامل چند گھنٹوں میں ہی غائب ہوگیا ۔
تین چار ماہ پہلے بھی ایک نہایت دہشت انگیز خبر اخبارات میں شایع ہوئی تھی کہ کس طرح ایک شقی القلب ماموں اپنے تین سگے بھانجوں کو ایبٹ آباد سے سیرو تفریح اور گھمانے کے بہانے مری لایا اور لانے کے بعد تینوں کو جنگل میں لے جاکر ذبح کر ڈالا۔ دو معصوم بچے تو اسی وقت ختم ہو گئے، لیکن تیسرے بچے زین کی زندگی تھی کہ گھاؤ گہرا نہ لگ سکا، اس نے اپنے حواس کو برقرار رکھا، جب خونی ماموں وہاں سے چلا گیا تو زین نے کٹے ہوئے گلے کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سڑک تک پہنچ کر لوگوں کو خود پر بیت جانے والی قیامت سے آگاہ کیا۔ لوگ جب موقعے پر پہنچے تو وہاں زخموں سے چور دو ننھے بچوں کی لاشیں ان کی منتظر تھیں ۔ بعد کے بیانات سے پتہ چلا کہ کسی عامل نے بچوں کے ماموں کو کہہ رکھا تھا کہ اگر من کی مراد پورا کرنا چاہتے ہو تو کم از کم تین انسانی زندگیوں سے کھیلنا پڑے گا ۔ نتیجتاً اس خبیث شخص نے اس جعلی عامل کے کہنے پر لبیک کہتے ہوئے اپنے تین سگے بھانجوں کو ہی ذبح کرڈالا۔
ایک دو نہیں ڈھونڈیں تو صرف ایک سال میں بیسیوں ایسی خبریں آپ کو ملیں گی جن میں اِن جان و مال اور عزت کے ڈاکوؤں کی وجہ سے کتنے ہی بچے ، عورتیں حتیٰ کہ مرد بھی جان و مال سے ہاتھ دھو بیٹھے اورایسے تو بلامبالغہ سیکڑوں واقعات ہیں ، جس میں جنسی درندوں نے عاملوں کا روپ دھار کر عورتوں کی عصمتیں لوٹیں اور پھر انھیں بلیک میل بھی کیا۔
ماضی میں عموماً عورتیں ہی ان جعلی عاملوں کی ستم رانیوں کا نشانہ زیادہ بنتی تھیں، مگر افسوس ضعیف الاعتقادی اتنی عام ہو گئی ہے اور حرص وہوس کا خوشنما جال اتنی سختی سے عوام الناس کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے کہ اب بڑی تعداد میں مردوں کے بھی ایسے واقعے سننے کو ملتے ہیں۔ملتان کا وہ واقعہ اکثر قارئین نے ٹی وی پر دیکھا ہو گا کہ کس طرح ایک ڈھونگی بابا کے کہنے پر ماں باپ نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کرگھر کے صحن میں ایک 40فٹ گہرا گڑھا کھودا ۔ اس بابے نے کثیر رقم لے کر ان کو یقین دلایا تھا کہ ان کے گھر کے نیچے خزانہ چھپا ہواہے، جب چالیس فٹ گہرے گڑھے میں نوجوان اترا تو اوپر سے مٹی کا تودا اس پر گرا اور وہیں اس کی قبر بن گئی۔
اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد حسب معمول جعلی عامل بابا فرار ہو گیا اور ان بوڑھے ماں باپ کا واحد سہارا اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔ اسی طرح آپ نے اکثر مزاروں، بس اسٹاپوں، مارکیٹوں اور ریلوے اسٹیشنوں کے آس پاس سڑکوں پر فٹ پاتھیے قسم کے عامل دیکھے ہوں گے۔ ایسے عاملوں کے شکاربھی اکثر مرد ہی ہوتے ہیں۔ فٹ پاتھوں پر دھرنا دینے والے یہ عامل ازحد چالاک ہوتے ہیں، ان کا طریقۂ واردات کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ ہر آنے جانے والے کے لباس، شکل و صورت، چال ڈھال اور وضع قطع سے اس کے حالات کا کچھ نہ کچھ اندازہ لگا لیتے ہیں اور اسی کے مطابق اس سے بات کرتے ہیں۔
اگر کسی شخص کے چہرے پر پریشانی کی جھلک ہو تو یہ اسے اپنا بہترین شکار سمجھتے ہیں، یہ انھیں آواز دے کر بلاتے ہیں اور پھر بڑے رعب دار انداز میں بات کرتے ہیں: ''کہاں جارہا ہے بچہ! فقیر کی بات سنتا جا...نادان! ایک بہت بڑی مصیبت تیرے سر پر منڈلا رہی ہے...جلدی سے سو روپیہ یہاں رکھ دے۔۔۔ کالے شاہ کی حفاظت میں رہے گا۔'' (نعوذباللہ)
کمزور عقیدہ لوگ ان کی کڑک دار آواز، خود اعتمادی اور بے نیازانہ انداز و اطوار سے مرعوب ہوکر ان پر اعتماد کرلیتے ہیں،پھر یہ دھوکے باز باتوں ہی باتوں میں ان سے بہت کچھ معلوم کرلیتے ہیں اور پھر اسی معلومات کے مطابق اپنی طرف سے کچھ پیش گوئیاں کردیتے ہیں، جو عموماً ایسی مبہم ہوتی ہیں کہ آدمی خود اس کے کئی مطلب نکال سکتا ہے، مثلاً'دو سال کے اندر اندر تیرا دشمن ختم'...'آئی خوشی آئی، جلد بہت جلد'...'تیرا ستارہ گردش میں ہے، جو کام شروع کیا ہے اس میں نقصان ہوگا۔' بس ان ابتدائی ہتھکنڈوں سے یہ اچھے بھلے آدمی کو اپنا مستقل گاہک بنالیتے ہیں۔
سندھ اور پنجاب کے صوبائی اربابِ اقتدار نے ایک دوبار ان مال و عزت کے لٹیروں کے خلاف آپریشن شروع کیے تھے مگر چند دکانیں بند کرنے کے سوا کچھ بھی نہ کرسکے۔ہماری رائے میں چونکہ جنات اور شیاطین کا وجود اور ان کی شرارتیں قرآن و سنت سے ثابت ہیں، اسی طرح جادو کے گندے اثرات بھی دنیا بھر میں ایک ثابت شدہ چیز ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ کوئی ہزاروں لاکھوں میں کوئی ایک شخص واقعی شیاطین یا جادو سے متاثر ہو، لیکن عام طور پر اکثر ایسی علامات رکھنے والے نفسیاتی بیمار ہوتے ہیں، جن کا مستقل لگ کر علاج کروایا جائے تو وہ صحت مند ہو جاتے ہیں۔ اور پھر جس طرح جادو و جنات سے متاثر کوئی ہزاروں میں ایک آدھ ہوتا ہے۔
اسی طرح واقعی اچھے عامل جنہوں نے عملیات کا فن باقاعدہ سند سے حاصل کیا ہو اور وہ لوگوں کو لوٹنے کی بجائے واقعی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو، بہت کم لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ایک آدھ ہی ہوتا ہے۔اس لیے باوجود اس کے کہ جائز عملیات کی دین میں اجازت ہے ، ایک مومن کو وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس میں عافیت ہے اور سنت کا ثواب بھی، یعنی قرآن پاک اور مسنون دعائیں!
اگر ضرور ہی کسی عامل کو دکھانا ہے تو کسی بااعتماد عالم باعمل سے رجوع کریں،وہ کسی عامل کا بتا دیں تو مرداس کے پاس چلے جائیں،لیکن یاد رکھیں کہ خلافِ ِشرع کوئی چیز اگر دکھائی دے توکتنے ہی علامہ اور مولانا کے سابقے نام کے ساتھ ٹکے ہوں، سمجھ جائیے کہ یہ اللہ کو ناراض کرنے والا شیطان کا چیلاہے اور جو اللہ کو ناراض کرے، بھلا اس کے کسی عمل سے کیا فائدہ ہو گا اور اگر کسی کو ہو گا بھی تو بطورِ امتحان کے ہو گا،کیونکہ غیرشرعی کام تو شیطان کو راضی کرتے ہیں، اس لیے ایسے عملیات کا اثر بھی شیطانی ہوتا ہے جس میں بعض اوقات ایمان کاخطرہ بھی ہوتا ہے۔
خدا کرے جعلی عاملوں کے ہاتھوں جان و مال اور عزت سے محروم ہونے والے لوگوں کی خبریں ان نادان عوام کی آنکھیں کھول دے، ورنہ مرد ہوں یا خواتین سبھی ان عاملوں کی نشتر زنیوں سے زندہ درگور ہوتے رہیں گے۔عمومی حال تو یہ ہے کہ اُدھر ان کی دکانیں آباد ہورہی ہیں اور اِدھر عمر بھر کی کمائیاں تج رہی ہیں، عصمتیں لٹ رہی ہیں، جانیں ضایع ہورہی ہیں...اے کاش اربابِ اقتدار اس حوالے سے کوئی سنجیدہ قانون سازی کریں اور ان جادوگروں سے ملک کو پاک کرنے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل بنائیں۔