قائد اعظمؒ عالمی دانشوروں کی نظر میں
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمان عزام پاشا نے کہا تھا: ’’مسٹر جناح ساری دنیا کے عظیم ترین لیڈروں میں سے ایک تھے۔‘‘
ہم اس تحریر میں قائداعظم کی شخصیت کے بارے میں اس دور کے عمائدین کی آراء پیش کررہے ہیں۔ آئیے دیکھیں عالمی مدبر اور دانشور ہمارے قائد کے بارے میں کیا کہتے ہیں:
سری لنکا کے وزیراعظم سینانائیکے نے قائد کی وفات پر کہا تھا کہ ''دنیا کے سیاسی لیڈروں کے درمیان مسٹر جناح سب سے الگ، غیر معمولی، قد آور بلکہ دیوہیکل نظرآتے ہیں۔''
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمان عزام پاشا نے کہا تھا: ''مسٹر جناح ساری دنیا کے عظیم ترین لیڈروں میں سے ایک تھے۔''
سر سلطان محمد شاہ آغا خان نے کہا کہ ''میں مسٹر محمد علی جناح کو ان تمام عظیم لوگوں سے زیادہ عظیم تصور کرتا ہوں جن سے ملنے کا موقع مجھے ملا۔''
مسٹر موہن داس کرم چند گاندھی قائد کے سیاسی مخالف تھے۔ انہوں نے ہمارے محبوب رہنما کے بارے میں یہ الفاظ کہے: ''یہ حقیقت ہے کہ مسٹر جناح اعلیٰ اوصاف کے مالک ہیں۔ وہ سیرت و کردار کی ان بلندیوں پر ہیں جہاں کوئی طمع، کوئی خوف، کوئی طعنہ انہیں اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا۔ وہ عزم و ہمت کے پہاڑ ہیں، جسے خریدا نہیں جاسکتا۔''
عالمی شہرت کے عظیم دانشور برٹرینڈرسل نے کہا: ''اگر ہندوستان کے مسلمانوں کی پوری تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی پوری سیاسی تاریخ میں کوئی بڑے سے بڑا شخص ایسا نہیں گزرا جسے مسلمانوں میں اتنی محبت حاصل ہو جو مسٹر جناح کو حاصل ہوئی۔''
پنڈت جواہر لال نہرو نے شدید ترین مخالفت کے باوجود بھی ہمارے قائد کاذکر ان الفاظ میں کیا: ''مسٹر جناح اعلیٰ کردار اور سیرت کے مالک تھے اور یہی موثر حربہ تھا جس کے ذریعہ انہوں نے زندگی بھر ہر معرکے کو سر کیا۔''
برطانوی وزیراعظم مسٹر اٹیلی نے کہا: ''مسٹر جناح کے بے مثل جذبہ حریت اور شبانہ روز محنت ہی وہ سرمایہ ہے جس نے پاکستان جیسے ملک کی بنیاد ڈالی۔''
سرونسٹن چرچل نے کہا: ''مسٹر جناح بڑے ذہین و فطین سیاستدان ہیں۔ میں مسلمانوں کے اس بڑے لیڈر کی یاد کو کبھی دل سے بھلا نہیں سکتا۔''
برطانوی ہند کے وائسرائے لارڈ ویول نے کہا: '' مسٹر جناح مخلص قوم کے مخلص رہنما ہی نہیں بلکہ سچے وکیل بھی ہیں۔ مسٹر جناح کے ارادے اٹل ہیں، ان کو اپنے اداروں اور رائے سے کوئی چیز نہیں ہٹاسکتی۔''
لارڈماؤنٹ بیٹن نے کہا: ''مسٹر جناح اگر کسی فریق سے سمجھوتہ کرتے تھے تو اصولوں کو قربان نہ کرتے ہوئے مردانہ وار سمجھوتہ کرتے تھے۔ مسٹر جناح نے کبھی کوئی سمجھوتہ جھک کر اور بزدلانہ انداز میں نہیں کیا۔ یہ اس عظیم لیڈر کی بڑی خوبی تھی۔''
''ورڈکٹ آن انڈیا'' کے مشہور مصنف بیورلی نکلسن نے جو برطانیہ کے پرانے صحافی تھے، 1943ء میں اپنی کتاب لکھی جس میں کہا: ''مسٹر جناح ایشیا کے سب سے زیادہ اہم شخص ہیں'' اور یہ بھی لکھا کہ ''انڈیا کے سیاسی نقشے پر مجھے مسٹر جناح بونوں کے درمیان ایک قدر آور اور دیوہیکل شخصیت نظر آتے ہیں۔''
1948ء میں قائداعظم کی وفات کے بعد ایک مضمون میں انہوں نے لکھا: ''یہ شخص جس نے پاکستان کو وجود بخشا ایک دن اس کے سابق مخالفین بھی تسلیم کریں گے کہ وہ متمدن دور کی تاریخ میں بلند ترین شخصیتوں میں سے ایک تھے۔'' مزید کہا کہ ''مسٹر جناح ایشیا کی اہم شخصیت تھے، وہ اپنی مرضی کے مطابق جنگی صورتحال کو بدل سکتے تھے۔''
سرسلطان محمد شاہ آغا خان نے مزید کہا: ''میں نے اپنی زندگی میں بہت سے مدبرین کو دیکھا: لائڈ جارج، چرچل، کرزن، مسولینی، مہاتما گاندھی لیکن ان سب میں جناح سب سے زیادہ عجیب اور قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی قوت اور کیریکٹر میں جناح سے زیادہ صاف ستھرا اور روشن نہ تھا، نہ ادراک و فراست اور عزم و استقلال کے ساحرانہ امتزاج میں ان سے کوئی آگے تھا اور یہی سٹیٹ کرافٹ ہے۔''
برطانوی وائسرائے کی بیگم لیڈی ویول نے مسٹر جناح کے بارے میں کہا، جو اپنی مثال آپ ہے۔
''میں نے اپنی زندگی میں جن خوبصورت ترین لوگوں کو دیکھا ان میں سے ایک مسٹر جناح ہیں۔ مغرب کا نہایت ہی واضح، تقریباً یونانی ناک نقشہ اور مشرق کی خوبی و لطافت اور حرکات و سکنات مسٹر جناح کے اندر دونوں کا امتزاج تھا۔''
قائداعظم کی وفات ہوئی تو بلبل ہند مشہور شاعر اور دانشور سروجنی نائیڈو نے ایک خط محترمہ فاطمہ جناح کے نام لکھا، اس خط کے الفاظ یہ ہیں:
''بے انتہا پیاری فاطمہ، تم کو معلوم ہے کہ میں کس قدر دل کی گہرائیوں سے تمہارے غم میں شریک ہوں۔ ہزارہا سوگوار ہیں جو اپنے عظیم رہنما کو خراج تحسین ادا کرچکے ہیں اور ادا کررہے ہیں، لیکن میں اپنے غم و الم کی درد انگیز خاموشی میں اپنی یادوں اور محبتوں کے غیر فانی پھول بھیج رہی ہوں۔ ان کو میرے پیارے اور محبوب دوست جناح کی قبر پر رکھ دینا۔''
سری لنکا کے وزیراعظم سینانائیکے نے قائد کی وفات پر کہا تھا کہ ''دنیا کے سیاسی لیڈروں کے درمیان مسٹر جناح سب سے الگ، غیر معمولی، قد آور بلکہ دیوہیکل نظرآتے ہیں۔''
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمان عزام پاشا نے کہا تھا: ''مسٹر جناح ساری دنیا کے عظیم ترین لیڈروں میں سے ایک تھے۔''
سر سلطان محمد شاہ آغا خان نے کہا کہ ''میں مسٹر محمد علی جناح کو ان تمام عظیم لوگوں سے زیادہ عظیم تصور کرتا ہوں جن سے ملنے کا موقع مجھے ملا۔''
مسٹر موہن داس کرم چند گاندھی قائد کے سیاسی مخالف تھے۔ انہوں نے ہمارے محبوب رہنما کے بارے میں یہ الفاظ کہے: ''یہ حقیقت ہے کہ مسٹر جناح اعلیٰ اوصاف کے مالک ہیں۔ وہ سیرت و کردار کی ان بلندیوں پر ہیں جہاں کوئی طمع، کوئی خوف، کوئی طعنہ انہیں اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا۔ وہ عزم و ہمت کے پہاڑ ہیں، جسے خریدا نہیں جاسکتا۔''
عالمی شہرت کے عظیم دانشور برٹرینڈرسل نے کہا: ''اگر ہندوستان کے مسلمانوں کی پوری تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی پوری سیاسی تاریخ میں کوئی بڑے سے بڑا شخص ایسا نہیں گزرا جسے مسلمانوں میں اتنی محبت حاصل ہو جو مسٹر جناح کو حاصل ہوئی۔''
پنڈت جواہر لال نہرو نے شدید ترین مخالفت کے باوجود بھی ہمارے قائد کاذکر ان الفاظ میں کیا: ''مسٹر جناح اعلیٰ کردار اور سیرت کے مالک تھے اور یہی موثر حربہ تھا جس کے ذریعہ انہوں نے زندگی بھر ہر معرکے کو سر کیا۔''
برطانوی وزیراعظم مسٹر اٹیلی نے کہا: ''مسٹر جناح کے بے مثل جذبہ حریت اور شبانہ روز محنت ہی وہ سرمایہ ہے جس نے پاکستان جیسے ملک کی بنیاد ڈالی۔''
سرونسٹن چرچل نے کہا: ''مسٹر جناح بڑے ذہین و فطین سیاستدان ہیں۔ میں مسلمانوں کے اس بڑے لیڈر کی یاد کو کبھی دل سے بھلا نہیں سکتا۔''
برطانوی ہند کے وائسرائے لارڈ ویول نے کہا: '' مسٹر جناح مخلص قوم کے مخلص رہنما ہی نہیں بلکہ سچے وکیل بھی ہیں۔ مسٹر جناح کے ارادے اٹل ہیں، ان کو اپنے اداروں اور رائے سے کوئی چیز نہیں ہٹاسکتی۔''
لارڈماؤنٹ بیٹن نے کہا: ''مسٹر جناح اگر کسی فریق سے سمجھوتہ کرتے تھے تو اصولوں کو قربان نہ کرتے ہوئے مردانہ وار سمجھوتہ کرتے تھے۔ مسٹر جناح نے کبھی کوئی سمجھوتہ جھک کر اور بزدلانہ انداز میں نہیں کیا۔ یہ اس عظیم لیڈر کی بڑی خوبی تھی۔''
''ورڈکٹ آن انڈیا'' کے مشہور مصنف بیورلی نکلسن نے جو برطانیہ کے پرانے صحافی تھے، 1943ء میں اپنی کتاب لکھی جس میں کہا: ''مسٹر جناح ایشیا کے سب سے زیادہ اہم شخص ہیں'' اور یہ بھی لکھا کہ ''انڈیا کے سیاسی نقشے پر مجھے مسٹر جناح بونوں کے درمیان ایک قدر آور اور دیوہیکل شخصیت نظر آتے ہیں۔''
1948ء میں قائداعظم کی وفات کے بعد ایک مضمون میں انہوں نے لکھا: ''یہ شخص جس نے پاکستان کو وجود بخشا ایک دن اس کے سابق مخالفین بھی تسلیم کریں گے کہ وہ متمدن دور کی تاریخ میں بلند ترین شخصیتوں میں سے ایک تھے۔'' مزید کہا کہ ''مسٹر جناح ایشیا کی اہم شخصیت تھے، وہ اپنی مرضی کے مطابق جنگی صورتحال کو بدل سکتے تھے۔''
سرسلطان محمد شاہ آغا خان نے مزید کہا: ''میں نے اپنی زندگی میں بہت سے مدبرین کو دیکھا: لائڈ جارج، چرچل، کرزن، مسولینی، مہاتما گاندھی لیکن ان سب میں جناح سب سے زیادہ عجیب اور قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی قوت اور کیریکٹر میں جناح سے زیادہ صاف ستھرا اور روشن نہ تھا، نہ ادراک و فراست اور عزم و استقلال کے ساحرانہ امتزاج میں ان سے کوئی آگے تھا اور یہی سٹیٹ کرافٹ ہے۔''
برطانوی وائسرائے کی بیگم لیڈی ویول نے مسٹر جناح کے بارے میں کہا، جو اپنی مثال آپ ہے۔
''میں نے اپنی زندگی میں جن خوبصورت ترین لوگوں کو دیکھا ان میں سے ایک مسٹر جناح ہیں۔ مغرب کا نہایت ہی واضح، تقریباً یونانی ناک نقشہ اور مشرق کی خوبی و لطافت اور حرکات و سکنات مسٹر جناح کے اندر دونوں کا امتزاج تھا۔''
قائداعظم کی وفات ہوئی تو بلبل ہند مشہور شاعر اور دانشور سروجنی نائیڈو نے ایک خط محترمہ فاطمہ جناح کے نام لکھا، اس خط کے الفاظ یہ ہیں:
''بے انتہا پیاری فاطمہ، تم کو معلوم ہے کہ میں کس قدر دل کی گہرائیوں سے تمہارے غم میں شریک ہوں۔ ہزارہا سوگوار ہیں جو اپنے عظیم رہنما کو خراج تحسین ادا کرچکے ہیں اور ادا کررہے ہیں، لیکن میں اپنے غم و الم کی درد انگیز خاموشی میں اپنی یادوں اور محبتوں کے غیر فانی پھول بھیج رہی ہوں۔ ان کو میرے پیارے اور محبوب دوست جناح کی قبر پر رکھ دینا۔''