فسادی لٹریچر پر پابندی سے فرقہ واریت ختم کی جاسکتی ہے علما کا ایکسپریس فورم میں اظہار خیال

پہلے بھی اختلافات تھے لیکن یہ صورتحال نہیں تھی، شاہ اویس نورانی


Express Forum Report September 13, 2014
کراچی: ایکسپریس فورم میں شاہ اویس نورانی، مولانا عبد الکریم عابد، مولانا محمد عون نقوی اور سید اشرف قریشی اظہار خیال کررہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

فرقہ واریت کے خاتمے کیلیے علمائے کرام اور عوام کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ضرورت اس بات کی ہے شرپسند عناصر کی سازشوں کو بھرپور قوت سے ناکام بنادیا جائے۔

تیسری قوت کی سازشوں کو بے نقاب کیا جائے اور فسادی لٹریچر کی اشاعت و تقسیم پر سرکاری سطح پر پابندی لگائی جائے ۔ ان خیالات کا اظہار مختلف مسالک و مکاتب فکر کے علمائے کرام نے '' فرقہ واریت کے خاتمے کیلیے مذہبی ہم آہنگی، وقت کی اہم ضرورت '' کے موضوع پر ایکسپریس فورم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ شرکامیں جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل شاہ اویس نورانی، جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ کے سرپرست مولانا عبدالکریم عابد، ممتاز عالم دین اور ادارہ تبلیغ تعلیمات اسلامی پاکستان کے سربراہ علامہ محمد عون نقوی، اہلحدیث ایکشن کمیٹی کے چیئرمین سید اشرف قریشی شامل تھے۔

شاہ اویس نورانی نے کہا کہ علمائے کرام نے قیام پاکستان سے قبل بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی فرقہ واریت کے خاتمے کیلیے جدوجہد کی ہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کی صورتحال اس وقت بھی ایسی نہیں ہے جیسی دوسرے مسلم ممالک میں ہے۔ پاکستان میں 1986سے 1989 کے دوران فرقہ واریت کو عروج حاصل ہوا جس کے خاتمے کیلیے علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم نے ملی یکجہتی کونسل کی بنیاد رکھی جس کے بعد فرقہ واریت پر کنٹرول حاصل ہوا۔ بعدازاں متحدہ مجلس عمل کا قیام عمل میں لایا گیا اس کا مقصد بھی فرقہ واریت کو کنٹرول کرنا تھا۔

انھوں نے کہا کہ فسادی اور فاشسٹ لٹریچر کی اشاعت اور اس کی تقسیم پر سرکاری سطح پر پابندی ہونی چاہیے۔مذہبی بنیاد پر اختلافات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن اس وقت ایک تہزیب بھی ہوتی تھی آج یہ کونسی قوت ہے جو معمولی معمولی بات پر قتل کو تیار بیٹھی ہے، درحقیقت یہ تیسری قوت ہے جو مغربی ایجنڈے پر گامزن ہے۔ ایک سوال پر شاہ اویس نورانی نے کہا کہ اگر فرقہ واریت کا زہر ہماری رگوں میں ہوتا تو آج سارے علمائے کرام ایک جگہ موجود نہیں ہوتے، فرقہ واریت ٹاپ لیول پر نہیں بلکہ نچلی سطح پر ہے۔

انھوں نے کہاکہ آج ایک طرف علامہ عباس کمیلی کے بیٹے کو تو دوسری طرف مفتی محمد نعیم کے داماد کو شہیدکر دیا جاتا ہے، یہ کونسی قوت ہے جو جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔علامہ محمد عون نقوی نے کہا کہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ہم فورم پر بیٹھ کر فرقہ واریت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں میڈیا پر اتحاد بین المسلمین کی بات کرتے ہیں مگر جب اپنے عوام میں جاتے ہیں تو ان میں فرقہ واریت کے حوالے سے شعور بیدار نہیں کرتے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو اس ملک کے خیرخواہ نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں منسٹرز انویسٹرز بنے ہوئے ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں بلدیاتی نظام موجود نہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کو حکومت میں شامل ہونا چاہیے ۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا عبدالکریم عابد نے کہا کہ ہر داڑھی والے کو عالم کہنا درست نہیں، علمائے کرام فرقہ واریت میں ملوث نہیں ۔ پاکستان میں علمائے کرام نے بہت علمی کام کیا ہے اور فرقہ واریت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ علامہ عباس کمیلی نے اپنے صاحبزادے اور مفتی نعیم نے اپنے داماد کی میتیں اٹھائی ہیں اور ساری قوم کہہ رہی ہے کہ یہ شیعہ سنی فساد نہیں، یہ چند لوگ ہیں جو علماکی شکل میں آکر خراب کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کہ کوئی قاتل پکڑا نہ جائے، انتظامیہ صحیح کردار ادا نہیں کر رہی اور حقیقت یہ ہے کہ انتظامیہ سے کچھ نہیں چھپ سکتا ۔ ہم عالمی سازش کا شکار ہیں۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ مدارس میں دہشت گردی کا تاثر درست نہیں ہے۔

اہلحدیث ایکشن کمیٹی کے محمد اشرف قریشی نے کہا کہ فرقہ واریت کے بڑھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں صبر و برداشت ختم ہوگئی ہے۔ حکومت فرقہ واریت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے لیکن حکومت ہمیشہ جانبداری کا مظاہرہ کرتی ہے اور شرپسند عناصر کو پروموٹ کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ فرقہ واریت کے خاتمے کیلیے ایک ایسے ضابطہ اخلاق پر اتفاق ہونا چاہیے جس پر سب مسالک اور مکاتب فکر عمل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں