بات کچھ اِدھر اُدھر کی شریک جرم
ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بھی ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔
لاہور:
کچھ ایسا ہی تماشا آج کل ہمارے سامنے ہے، پاکستان کا کوئی بھی نیوز چینل لگا کر دیکھ لیں گزشتہ ماہ سے جاری ڈراما ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، یکسانیت سے بور ہوکر لوگ اب نیوز چینل پر کارٹون نیٹ ورک کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ہم بھی سیاستدانوں کی باہمی چشمک اور نوک جھونک سے بیزار ہوکر انٹرنیشنل میڈیا یا پھر سوشل نیٹ ورک پر زیادہ وقت صرف کررہے ہیں، اور گزشتہ دنوں اسی نیٹ سرفنگ کے دوران ہم نے اپنے فیس بک پیج پر این ڈی ٹی وی کی جانب سے جاری کردہ عوامی آگاہی کی ایک مختصر وڈیو دیکھی۔ اس وڈیو کو Logical Indian نے فیس بک پر شیئر کیا ہے۔
وڈیو میں بہت بامعنی پیغام دیا گیا ہے کہ کسی جرم پر خاموشی اختیار کرنا، اس کی پردہ پوشی یا رپورٹ نہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ایک چھوٹے سے وڈیو کلپ میں بغیر کسی ڈائیلاگ کے اپنا پیغام واضح طور پر آگے بڑھانا بہت بڑا فن ہے۔ وڈیو میں ایک پرہجوم شاہراہ پر ٹریفک سنگل بند ہونے پر ایک آدمی کا قتل ہوجاتا ہے اور وہاں موجود ہر دیکھنے والے کی چشم پوشی پر اسے بھی اس قتل میں ملوث دکھایا گیا ہے۔ اس وڈیو سے قطع نظر اگر معاشرتی عمومی رویے کا تذکرہ کیا جائے تو جرائم کی یہ چشم پوشی ہمیں اپنے شہر میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ آج شہر کراچی میں قتل و ڈکیتی، رہزنی، چوری چکاری اور اسی طرح کے دیگر جرائم کی بھرمار ہے۔ صد افسوس کہ ہمارے شہری ان سب وارداتوں کو اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھ کر بھی انجان بن جاتے ہیں، اپنی بے چارگی اور کم ہمتی کو جواز بنا کر ہم ان جرائم کی پردہ پوشی کرتے ہوئے دراصل خود ان کے شریک جرم بن جاتے ہیں۔
لوگوں کا عمومی طور پر کہنا ہوتا ہے کہ ''ہم کیا کرسکتے تھے'' ''ہتھیاروں کے سامنے بہادر بننا بے وقوفی ہے'' وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا یہ تمام جواز درست تسلیم کیے جاسکتے ہیں؟ چلیں مان لیا کہ کسی آتشیں ہتھیار کے سامنے ہم دانستہ بزدلی کا مظاہرہ کرکے دانشمندی کا ''ثبوت'' دیتے ہیں لیکن کئی ایسی وارداتیں بھی ہیں جہاں کسی پر ظلم ہو بھی رہا ہو تو ہم لاتعلق بنے رہتے ہیں، اس بزدلی کو ہم کیا نام دیں گے؟۔
چند حقیقی مثالیں یہاں پیش کروں گا۔ بس اسٹاپ پر ایک نوجوان لڑکی کھڑی موبائل پر ایس ایم ایس کررہی تھی۔ اچانک اس کے قریب ایک بائیک آکر رکتی ہے۔ ہیلمٹ پہنا نوجوان اس لڑکی کو زور دار تھپڑ لگا کر اس پر برہم ہوتا ہے کہ ''تجھے منع کیا تھا موبائل لانے کو، اپنے کس یار سے بات کررہی ہے'' اور اسی طرز کے جملے بول کر موبائل اس کے ہاتھ سے چھین کر اور اسے دھکا دیتے ہوئے بائیک پر یہ جا وہ جا۔ لڑکی بے چاری ہکا بکا کچھ بول بھی نہیں پاتی۔ ارد گرد کھڑے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کا بھائی لڑکی کو اس کی ''آوارگی'' پر سزا دے رہا ہے۔ لیکن بعد میں لڑکی کے رونے پر پتا چلتا ہے کہ ماجرا کچھ الگ تھا اور ''ماڈرن لٹیرا'' موبائل چھین کر جا چکا ہے۔ اب جتنے منہ اتنی باتیں۔ اگر وہ لڑکا واقعی اس کا بھائی بھی ہوتا تو کیا لوگوں کا یہ فرض نہیں بنتا کہ سرعام ایک لڑکی کو مارنے پر اسے روکتے، ٹوکتے یا سمجھاتے۔ لیکن ''پرائے پھڈے میں ٹانگ کون اڑائے''۔ لوگوں کا یہی رویہ شرپسندوں کو ان کی شرانگیزی کی کھلی اجازت دیتا ہے۔
دوسرا واقعہ سنیے۔ شہر کے دیگر عام لوگوں کی طرح میرا سفر بھی زیادہ تر بسوں میں ہوتا ہے۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کی ''حالت'' تو سب کو معلوم ہی ہے، جہاں روزانہ صبح و شام لاکھوں لوگ حالت سفر میں ہوں وہاں گنتی کی چند بسیں ''اونٹ کے منہ میں زیرے'' کے مترادف ہیں، ایسے میں بسوں کا چھت تک بھر جانا، یہاں تک کہ مسافروں کا دروازوں سے لٹکنا اور کھڑکیوں سے چھلکنا تک اچھنبے کی بات نہیں۔ اور اسی حالت میں گرہ کٹ اور جیب تراش اپنی کاریگری دکھاتے ہیں۔ طریقہ واردات ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ چار پانچ جیب کتروں کا ٹولہ ایک ساتھ بس میں سوار ہوتا ہے اور بس کی آخری سیٹ اور دروازے کے پاس ہی ڈیرہ جمالیتا ہے۔ پریشاں حالی کا شکار مسافر اپنے اسٹاپ پر اترنے سے پہلے ہی بٹوے اور موبائل سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اکثر ان جیب کتروں کے اترنے کے بعد پچھلی سیٹوں کے مسافروں آپس میں گفتگو کرتے ہیں ''یہ سب چور تھے''۔
یہ کس طرح کا طرز فکر ہے، یہ کیا سوچ ہے؟ یہ بزدلانہ رویہ کیوں شہریوں میں پھیلتا جارہا ہے۔ ایک منی بس میں کم از کم پینتیس چالیس مسافر تو ہوتے ہی ہیں، کیا وہ سب مل کر چار پانچ جیب کتروں سے نہیں نمٹ سکتے۔ آنکھوں دیکھے جرائم کی چشم پوشی ہی کا کیا رونا معاشرے میں بے حسی اور لاتعلقی بھی اس طرح سرائیت کرچکی ہے کہ کسی پر ظلم ہوتے دیکھ کر بھی لوگ چپ سادھے رہتے ہیں۔ سیالکوٹ میں دو بھائیوں مغیث اور معیز پر سرعام بہیمانہ تشدد کا واقعہ ابھی پرانا نہیں ہوا۔ کتنے لوگ وہاں موجود تھے اور یقیناً کئی دل میں اسے غلط بھی سمجھ رہے ہوں گے لیکن اس ظلم کے خلاف آواز ایک نے بھی بلند نہ کی کہ مبادا اسے بھی اس سلوک ناروا کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہمارے کتنے ہی ساتھی اور جاننے والے موبائل چھیننے والے ڈکیتوں کا شکار ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہی میری بھانجی سے کالج جاتے ہوئے موٹر سائیکل پر سوار ڈاکو پرس چھین کر فرار ہوگئے۔ میری دوست اور کولیگ کو آفس سے واپسی پر اس وقت لوٹ لیا گیا جب گاڑی کا ٹائر پنکچر ہونے پر ڈرائیور بھری پری شاہراہ پر گاڑی روکے کھڑا تھا، بائیک پر سوار دو ڈاکو آئے، پستول کی نمائش کی اور دوست سے اس کا بیگ، موبائل اور ہاتھوں سے انگوٹھیاں تک اتار کر لے گئے۔ لوگ کھڑے تماشا دیکھتے رہے اور بعد میں نمائشی ہمدردی جتانے لگے۔ لیکن کیا یہ رویے درست قرار دیے جاسکتے ہیں؟ کیا عام لوگوں کا محض ایک تماشائی بن جانا ہی ان وارداتوں میں بڑھوتری کا باعث تو نہیں بن رہا۔
لوگوں کی خاموش حمایت ہی ڈاکوؤں کو شیر دل تو نہیں بنا رہی کہ وہ بنا کسی خوف و خطر سرعام وارداتیں انجام دینے میں مصروف ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بھی ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ ہم سب بھی شریک جرم ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
کچھ ایسا ہی تماشا آج کل ہمارے سامنے ہے، پاکستان کا کوئی بھی نیوز چینل لگا کر دیکھ لیں گزشتہ ماہ سے جاری ڈراما ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، یکسانیت سے بور ہوکر لوگ اب نیوز چینل پر کارٹون نیٹ ورک کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ہم بھی سیاستدانوں کی باہمی چشمک اور نوک جھونک سے بیزار ہوکر انٹرنیشنل میڈیا یا پھر سوشل نیٹ ورک پر زیادہ وقت صرف کررہے ہیں، اور گزشتہ دنوں اسی نیٹ سرفنگ کے دوران ہم نے اپنے فیس بک پیج پر این ڈی ٹی وی کی جانب سے جاری کردہ عوامی آگاہی کی ایک مختصر وڈیو دیکھی۔ اس وڈیو کو Logical Indian نے فیس بک پر شیئر کیا ہے۔
وڈیو میں بہت بامعنی پیغام دیا گیا ہے کہ کسی جرم پر خاموشی اختیار کرنا، اس کی پردہ پوشی یا رپورٹ نہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ایک چھوٹے سے وڈیو کلپ میں بغیر کسی ڈائیلاگ کے اپنا پیغام واضح طور پر آگے بڑھانا بہت بڑا فن ہے۔ وڈیو میں ایک پرہجوم شاہراہ پر ٹریفک سنگل بند ہونے پر ایک آدمی کا قتل ہوجاتا ہے اور وہاں موجود ہر دیکھنے والے کی چشم پوشی پر اسے بھی اس قتل میں ملوث دکھایا گیا ہے۔ اس وڈیو سے قطع نظر اگر معاشرتی عمومی رویے کا تذکرہ کیا جائے تو جرائم کی یہ چشم پوشی ہمیں اپنے شہر میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ آج شہر کراچی میں قتل و ڈکیتی، رہزنی، چوری چکاری اور اسی طرح کے دیگر جرائم کی بھرمار ہے۔ صد افسوس کہ ہمارے شہری ان سب وارداتوں کو اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھ کر بھی انجان بن جاتے ہیں، اپنی بے چارگی اور کم ہمتی کو جواز بنا کر ہم ان جرائم کی پردہ پوشی کرتے ہوئے دراصل خود ان کے شریک جرم بن جاتے ہیں۔
لوگوں کا عمومی طور پر کہنا ہوتا ہے کہ ''ہم کیا کرسکتے تھے'' ''ہتھیاروں کے سامنے بہادر بننا بے وقوفی ہے'' وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا یہ تمام جواز درست تسلیم کیے جاسکتے ہیں؟ چلیں مان لیا کہ کسی آتشیں ہتھیار کے سامنے ہم دانستہ بزدلی کا مظاہرہ کرکے دانشمندی کا ''ثبوت'' دیتے ہیں لیکن کئی ایسی وارداتیں بھی ہیں جہاں کسی پر ظلم ہو بھی رہا ہو تو ہم لاتعلق بنے رہتے ہیں، اس بزدلی کو ہم کیا نام دیں گے؟۔
چند حقیقی مثالیں یہاں پیش کروں گا۔ بس اسٹاپ پر ایک نوجوان لڑکی کھڑی موبائل پر ایس ایم ایس کررہی تھی۔ اچانک اس کے قریب ایک بائیک آکر رکتی ہے۔ ہیلمٹ پہنا نوجوان اس لڑکی کو زور دار تھپڑ لگا کر اس پر برہم ہوتا ہے کہ ''تجھے منع کیا تھا موبائل لانے کو، اپنے کس یار سے بات کررہی ہے'' اور اسی طرز کے جملے بول کر موبائل اس کے ہاتھ سے چھین کر اور اسے دھکا دیتے ہوئے بائیک پر یہ جا وہ جا۔ لڑکی بے چاری ہکا بکا کچھ بول بھی نہیں پاتی۔ ارد گرد کھڑے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کا بھائی لڑکی کو اس کی ''آوارگی'' پر سزا دے رہا ہے۔ لیکن بعد میں لڑکی کے رونے پر پتا چلتا ہے کہ ماجرا کچھ الگ تھا اور ''ماڈرن لٹیرا'' موبائل چھین کر جا چکا ہے۔ اب جتنے منہ اتنی باتیں۔ اگر وہ لڑکا واقعی اس کا بھائی بھی ہوتا تو کیا لوگوں کا یہ فرض نہیں بنتا کہ سرعام ایک لڑکی کو مارنے پر اسے روکتے، ٹوکتے یا سمجھاتے۔ لیکن ''پرائے پھڈے میں ٹانگ کون اڑائے''۔ لوگوں کا یہی رویہ شرپسندوں کو ان کی شرانگیزی کی کھلی اجازت دیتا ہے۔
دوسرا واقعہ سنیے۔ شہر کے دیگر عام لوگوں کی طرح میرا سفر بھی زیادہ تر بسوں میں ہوتا ہے۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کی ''حالت'' تو سب کو معلوم ہی ہے، جہاں روزانہ صبح و شام لاکھوں لوگ حالت سفر میں ہوں وہاں گنتی کی چند بسیں ''اونٹ کے منہ میں زیرے'' کے مترادف ہیں، ایسے میں بسوں کا چھت تک بھر جانا، یہاں تک کہ مسافروں کا دروازوں سے لٹکنا اور کھڑکیوں سے چھلکنا تک اچھنبے کی بات نہیں۔ اور اسی حالت میں گرہ کٹ اور جیب تراش اپنی کاریگری دکھاتے ہیں۔ طریقہ واردات ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ چار پانچ جیب کتروں کا ٹولہ ایک ساتھ بس میں سوار ہوتا ہے اور بس کی آخری سیٹ اور دروازے کے پاس ہی ڈیرہ جمالیتا ہے۔ پریشاں حالی کا شکار مسافر اپنے اسٹاپ پر اترنے سے پہلے ہی بٹوے اور موبائل سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اکثر ان جیب کتروں کے اترنے کے بعد پچھلی سیٹوں کے مسافروں آپس میں گفتگو کرتے ہیں ''یہ سب چور تھے''۔
یہ کس طرح کا طرز فکر ہے، یہ کیا سوچ ہے؟ یہ بزدلانہ رویہ کیوں شہریوں میں پھیلتا جارہا ہے۔ ایک منی بس میں کم از کم پینتیس چالیس مسافر تو ہوتے ہی ہیں، کیا وہ سب مل کر چار پانچ جیب کتروں سے نہیں نمٹ سکتے۔ آنکھوں دیکھے جرائم کی چشم پوشی ہی کا کیا رونا معاشرے میں بے حسی اور لاتعلقی بھی اس طرح سرائیت کرچکی ہے کہ کسی پر ظلم ہوتے دیکھ کر بھی لوگ چپ سادھے رہتے ہیں۔ سیالکوٹ میں دو بھائیوں مغیث اور معیز پر سرعام بہیمانہ تشدد کا واقعہ ابھی پرانا نہیں ہوا۔ کتنے لوگ وہاں موجود تھے اور یقیناً کئی دل میں اسے غلط بھی سمجھ رہے ہوں گے لیکن اس ظلم کے خلاف آواز ایک نے بھی بلند نہ کی کہ مبادا اسے بھی اس سلوک ناروا کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہمارے کتنے ہی ساتھی اور جاننے والے موبائل چھیننے والے ڈکیتوں کا شکار ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہی میری بھانجی سے کالج جاتے ہوئے موٹر سائیکل پر سوار ڈاکو پرس چھین کر فرار ہوگئے۔ میری دوست اور کولیگ کو آفس سے واپسی پر اس وقت لوٹ لیا گیا جب گاڑی کا ٹائر پنکچر ہونے پر ڈرائیور بھری پری شاہراہ پر گاڑی روکے کھڑا تھا، بائیک پر سوار دو ڈاکو آئے، پستول کی نمائش کی اور دوست سے اس کا بیگ، موبائل اور ہاتھوں سے انگوٹھیاں تک اتار کر لے گئے۔ لوگ کھڑے تماشا دیکھتے رہے اور بعد میں نمائشی ہمدردی جتانے لگے۔ لیکن کیا یہ رویے درست قرار دیے جاسکتے ہیں؟ کیا عام لوگوں کا محض ایک تماشائی بن جانا ہی ان وارداتوں میں بڑھوتری کا باعث تو نہیں بن رہا۔
لوگوں کی خاموش حمایت ہی ڈاکوؤں کو شیر دل تو نہیں بنا رہی کہ وہ بنا کسی خوف و خطر سرعام وارداتیں انجام دینے میں مصروف ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بھی ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ ہم سب بھی شریک جرم ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔