بات کچھ اِدھر اُدھر کی کہانی ایک گدھے کی

جتنا وزن مجھ پر ہوتا ہے اس کا ایک حصہ بھی آپ انسان اٹھا نہیں سکتے اور چند قدم چلنا تو بعد کی بعد ہے۔


شہباز علی خان September 13, 2014
جتنا وزن مجھ پر ہوتا ہے اس کا ایک حصہ بھی آپ انسان اٹھا نہیں سکتے اور چند قدم چلنا تو بعد کی بعد ہے۔ فوٹو یو اے ای وائلڈ لائف

اردن کے ٹی وی چینل پر گدھے کا اس طرح کھل کر اپنا نقطہ نظر بیان کرنا میرے لئے حیرت کا سبب بھی بنا ۔اس ایک لمحے میرے اندر یہ خواہش ابھری کہ گدھے تو ہمارے بھی بہت سی اقسام کے پائے جاتے ہیں مگر ۔اس مگر کے آگے کے الفاظ کے لئے ضروری تھا کہ کسی مقامی گدھے سے رائے لی جائے۔میں گھر سے نکلا تو میرا واسطہ بہت سے گدھوں سے پڑا لیکن مجھے تلاش تھی اصلی نسلی گدھے کی۔اب سوال یہ تھا کہ آج کے اس مشینی دور میں اس وجود کو کہاں تلاش کیا جائے اور پھر اس سے بات چیت بھی کی جائے اور اس کا نقظہ نظر جاننے کی کوشش کی جائے۔آخر ایک جگہ مجھے ٹریفک میں حد سے زیادہ گاڑیوں کے ہارن کی آواز یں اورسست روی سی محسوس ہوئی،اور ایک سریلی سی مگر دکھوں میں ڈوبی ہوئی کوک سنائی دی۔

میری کامیابی چند میٹر کے فاصلے پر میرا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے لیفٹ رائیٹ کرتے بائیک کو آڑھا ترچھا کرتے آخر اس پوائنٹ پر پہنچ ہی گیا جہاں پر موصوف اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ خماری چال سے محو سفر تھے۔حسب معمول اس کے پیچھے جتی ریڑھی پر اس کے اپنے وجود سے سو گنا زیادہ بوجھ لادا ہوا تھا۔میں نے اس کے پاس جا کر اس سے براہ راست ہی سوال کیا کہ مجھے اس کا انٹرویو کرنا ہے۔اس نے مجھے کسی چینل کا سمجھتے ہوئے اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ ہاں کیوں نہیں،مگر ابھی تو وہ آفس کے کام میں مصروف ہے۔شام کی چائے کسی گھنے درخت کی چھاؤں تلے پیتے ہیں اور گپ شب بھی ہو جائے گی۔وقت اور جگہ کا تعین ہونے کے بعد ہم نے اپنی اپنی راہ لی۔

شام کو جب میں پہنچا تو مجھے وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ حالت سکون میں دکھائی دیا۔مجھے دیکھتے ہی اس نے خود کو فریش کرنے کے لئے کچی زمین پر چند لوٹنیاں لی اور سامنے آن کھڑا ہوا۔اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا اس نے خود ہی ا سٹارٹ لیا اور ایک دم سے شکوے بھرے انداز سے کہا کہ پہلے تو وہ میڈیا کے توسط سے یہ بات لوگوں تک پہچانا چاہتا ہے کہ جب وہ اپنی ہائی اسپیڈ سواری پر ہوتے ہیں تو صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا کریں۔اب ایک گدھا بیچارا مکینکل انجن کا کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے۔دے ہارن پر ہارن سر کھا جاتے ہیں۔میں بھی کیا کروں جتنا وزن مجھ پر ہوتا ہے اس کا ایک حصہ بھی آپ انسان اٹھا نہیں سکتے اور چند قدم چلنا تو بعد کی بعد ہے۔

ہماری تاریخ انسانی تاریخ کے ساتھ ساتھ ہی چلتی ہے۔گوگل میں سرچ کر لیں کہ ہم کتنا rich historical background رکھتے ہیں۔ایک وقت تھا جب ہمارا شمار بھی بادشاہوں کی شاہی سواری میں ہوتا تھا۔ہمارے کزنز گھوڑے اور خچر تو ابھی بھی اہم مقام رکھتے ہیں۔ہمارے خاندان کی خدمات تو اتنی ہیں کہ بس نہ پوچھئے۔آپ سنتے سنتے تھک جائیں گے۔شمالی علاقوں میں جہاں 4 x 4 جیپس بھی نہیں چڑھ سکتی ہم اتنا اتنا وزن اٹھا کر سینہ تان کر آپ انسانوں کی خدمت کرتے ہیں۔شہر ہو، گاؤں ہو سب جگہ ہم سستی ترین Green Transportation ماحول میں آلودگی پھیلائے بغیر مہیا کر رہے ہوتے ہیں۔

مالک کے ڈنڈے بھی کھا رہے ہوتے ہیں اور تو اور آپ مہذب انسانوں نے ہمارا گوشت بھی اپنے ہی بھایؤں کو کھلانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اس پر سب گدھوں نے پہلی بارایک ساتھ پر زور احتجاج کرتے ہوئے اس پر زور دیا کہ سرکاری اداروں کی کام چوری اور قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔شفا خانہ حیوانات میں جو فنڈز ہم جانوروں کے لئے آتے ہیں وہ بھی انسان ہی کھا جاتے ہیں اورزخمی ہونے کی صورت میں مالک ہمیں سڑکوں پر پھر کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ہم جہاں بہت سے حادثات کا سبب بنتے ہیں وہاں بعض قصایؤں کے چھرے بھی ہماری تاڑ میں ہوتے ہیں۔ خدارا ہمارے لئے بھی کچھ کیجئے ۔ہمارا شمار بھی بطور کمرشل ٹرانسپورٹ ہونا چاہیے۔ جس طرح ایک محکمہ کمرشل گاڑیوں کا چیک اپ کرتا ہے اس طرح ہمارے لیے بھی پالیسی بنائی جائے۔

یار ایک تو تم انگلش کے الفاظ کافی بولتے ہو، اس نے اپنے صراحی دارکانوں کو شرم سے ہلاتے ہوئے کہا ایک اسکول میں اس نے اینٹیں ڈھونے کا کام بھی کیا ہے۔میں انہیں یقین دلانا چاہتا تھا کہ اب جب بھی ہم انسان اپنی جاپانی کار کے آگے ان جانداروں کوہمارا ہی بوجھ اٹھاتے دیکھیں گے تو تھوڑا صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔ شفاخانہ حیوانات میں انہیں آ کر زندگی پھر سے ملے گی۔مگر مجھ میں ان معصوم اور محنتی جانوروں سے جھوٹ بولنے کی ہمت نہ تھی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں