کس کھوج میں ہے تیغ ستم گر لگی ہوئی
کہتے ہیں کہ مسجد اور مینار بقول عوفی چند سال پہلے تک موجود اور محفوظ تھے۔ مگر ایک لشکر نے جب نہروالے پہ حملہ کیا تو...
محمد عوفی (مولف جوامع الحکایات و لوامع الروایات) کو ایک بار کھمبائت جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ شہر گجرات نہروالہ کے قریب دریا کے کنارے آباد تھا۔ یہاں مختلف مذہبی مسالک کے لوگ آباد تھے۔ ان میں آتش پرست، ہندو اور سنی العقیدہ مسلمانوں کے لوگ مل جل کر رہا کرتے تھے۔
اکثریت ہندوؤں کی تھی، مسلمان بہت کم تعداد میں آباد تھے۔ وہاں کا راجہ رائے جے سنگھ تھا۔ جو اپنی رعایا کا بلاتفریق مذہب ہر طرح کا نہ صرف خیال رکھتا تھا بلکہ ان کی شکایات کا ازالہ بھی کرتا تھا۔ کھمبائت کا راجہ انصاف کرنے میں بھی دیر نہیں کرتا تھا۔ گویا آج کی زبان میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک فلاحی ریاست تھی اور فلاحی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور اس ریاست کا سربراہ ظلم برداشت نہیں کرتا اور ظالم کو سزا دینے میں بھی دیر نہیں کرتا۔ خیر تو ہوا یوں کہ ہندوؤں میں کچھ کٹر قسم کے مذہبی جنونی بھی شامل تھے جیسا کہ ہر مذہب میں ہوتے ہیں۔ وہاں سنی مسلمانوں کی ایک جامع مسجد بھی تھی جس کے مینار پہ چڑھ کر مؤذن اذان دیا کرتا تھا۔
اس وقت تک لاؤڈ اسپیکر بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ جن کی چنگھاڑتی آوازیں لوگوں کا سکون غارت کرنے اور مذہب سے متنفر کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ ایک مرتبہ کچھ انتہا پسند اور شرپسند لوگوں کے اکسانے پر ہندوؤں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور 80 مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مسجد جلا دی اور مینار کو مسمار کر دیا۔ مسجد کا خطیب کسی طرح جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلا اور نہروالہ پہنچ کر راجہ تک فریاد پہنچانے کی کوشش کی۔ لیکن خوشامدی اور متعصب درباریوں نے خطیب کی رسائی حیلے بہانوں سے راجہ رائے جے سنگھ تک ناممکن بنا دی۔ لیکن خطیب مایوس نہ ہوا اور مستقل کوشش میں جٹا رہا کہ کسی طرح راجہ کو اصل صورتحال سے آگاہ کرے۔ کیونکہ راجہ کا انصاف سورج کی روشنی کی طرح تھا۔
ایک دن خطیب کو موقع مل گیا۔ راجہ نے اپنے مصاحبوں اور درباریوں کے ساتھ شکار کا پروگرام بنایا تو خطیب راجہ کی شکارگاہ کے سامنے ایک گھنے درخت کے نیچے چھپ کر بیٹھ گیا۔ جونہی راجہ کی سواری وہاں پہنچی۔ خطیب جان کی پرواہ کیے بغیر اچانک اس کے سامنے آ گیا ہاتھ جوڑ کر اور رو رو کر راجہ کو دہائی دی کہ وہ فوراً ہاتھی سے نیچے اترے اور اس کی فریاد سنے۔ راجہ نے فوراً ہاتھی ٹھہرانے کا حکم دیا اور خطیب کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا۔
خطیب نے پوری روداد زبانی بھی راجہ کے گوش گزار کی اور تمام واقعات کو ہندی اشعار میں لکھ کر درخواست راجہ کی خدمت میں پیش کی۔ جنھیں وہ اسی ارادے سے خود لکھ کر لایا تھا۔ راجہ نے پوری توجہ سے ساری بات سنی اور خطیب کو ایک صاحب کے سپرد کر کے حکم دیا کہ اس کے آرام کا ہر طرح کا خیال رکھا جائے اور کسی بھی قسم کی تکلیف نہ دی جائے۔ جب راجہ خطیب کو طلب کر ے تو عزت سے انھیں دربار میں پیش کیا جائے۔
شکار سے لوٹنے کے بعد راجہ نے اپنے وزیر کو بلا کر کہا کہ وہ تین دن تلک نہ محل سے باہر نکلے گا اور نہ ہی کسی کو باریابی کی اجازت دے گا۔ ہر طرح کے حکومتی معاملات وزیر کو انجام دینے ہوں گے۔ لیکن اس دوران نہ تو اسے تنگ کیا جائے اور نہ ہی واپسی پر رعایا کی طرف سے کوئی فریاد ملے۔ اگر ایسا ہوا تو وہ وزیر کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے گا۔
وزیر نے وعدہ کیا کہ وہ کسی قیمت پر بھی راجہ کو شکایت کا موقع نہ دے گا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ راجہ جو کہتا ہے وہی کرتا ہے۔ وہ نہ جھوٹے وعدوں سے رعایا کو پریشان کرتا ہے اور نہ ہی بے ایمان موقع پرست اور خودغرض امیروں اور وزیروں کو سزا دینے میں دیر کرتا ہے۔ اسی لیے راجہ کے خلاف کوئی سازش یا بغاوت نہیں ہوتی۔ کیونکہ رعایا کو فوری انصاف بھی ملتا ہے اور فریاد بھی سنی جاتی ہے۔
اسی رات راجہ رات کی تاریکی میں بھیس بدل کر ایک سانڈنی پہ سوار ہو کر اکیلا ہی کھمبائت کی طرف چل پڑا۔ نہروالہ سے کھمبائت (بقول مولف) چالیس فرسنگ کی مسافت پر تھا (ایک فرسنگ تین میل کے برابر تقریباً)
راجہ ایک دن اور ایک رات کے مسلسل سفر کے بعد دوسرے دن شام کو کھمبائت پہنچا اور پایکوں کا بھیس بدل کر بازار میں جا نکلا (پایک فارسی میں قاصد یا ایلچی کو کہتے ہیں) تلوار کمر میں ڈال کر بازاروں میں جا نکلا۔ رات ہونے لگی تھی اور چوراہوں کی رونق بڑھنے لگی تھی۔
اس نے جگہ جگہ رک کر ہر ایک سے سن گن لی۔ ہر مذہب کے لوگوں سے معلومات حاصل کیں۔ ہر ایک کی زبانی یہی سننے میں آیا کہ مسلمانوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے۔ بے قصور مارے گئے۔ راجہ نے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کیں۔ دکاندار، قصائی، سبزی فروش، عام آدمی، بوڑھے، بچے ہر ایک نے تصدیق کی۔ مسلمانوں کی مظلومی اور بے گناہی کا یقین ہونے کے بعد راجہ شہر سے نکلا۔ وہاں کے دریا سے اپنی چھاگل بھری اور نہر والے کی طرف روانہ ہو گیا۔ تیسرے روز اپنی راجدھانی میں آ پہنچا۔
صبح کو دربار لگا، راجہ نے مصاحب کو دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ جب خطیب دربار میں پہنچا تو راجہ نے اس سے کہا کہ وہ اپنا معاملہ دربار میں بغیر کسی خوف کے پیش کرے ۔ خطیب نے کمال جرأت سے اپنا استغاثہ پیش کیا تو خوشامدی اور متعصب درباریوں نے خطیب کو جھٹلانے کی کوشش کی کیونکہ الزام عائد کرنے والا تنہا تھا اور اس کی بات کو غلط ثابت کرنے والے بہت تھے۔ جن کے مفادات آپس میں جڑے تھے۔
ایک کی پول کھلتی تو دوسرا خودبخود بے لباس ہو جاتا۔ لہٰذا اس ڈر سے وہ سب اس واقعے اور خطیب کے الزامات کو مسترد کرتے رہے۔ بلکہ بعض نے جو اس واقعے میں ملوث تھے انھوں نے غریب خطیب کو پڑوسی ملک کا جاسوس قرار دے دیا۔ یہ رنگ دیکھ کر راجہ نے اپنے آب دار کو حکم دیا کہ ''رات کو جو چھاگل میں نے تمہیں دی تھی وہ لاؤ اور اس کا پانی درباریوں کو چکھاؤ'' درباریوں نے پانی چکھا تو سمجھ گئے کہ یہ کھارا پانی ہے اور راجہ کو حقیقت کا پتا چل گیا ہے۔ اسی لیے ثبوت کے طور پر وہ اسے اپنی چھاگل میں بھر کے لایا ہے۔ ان کے منہ لٹک گئے۔
اب راجہ نے ان سے کہا کہ ''مذہبی اختلاف کی بنا پر مجھے تم میں سے کسی پر اعتماد نہ تھا کہ تم لوگ سچ سامنے لاؤ گے۔ کیونکہ میں پہلے ہی جانتا تھا کہ اس طرح کی گھناؤنی کارروائی بلا کسی با اثر درباری یا امیر کے ممکن نہیں۔ اسی لیے میں خود وہاں جا کر مسلمانوں کی مظلومی اور دوسرے فریق کی ستم گاری کا حال معلوم کر کے آیا ہوں۔ اور میں ہر گز یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس جماعت پر ظلم ہو جو میری پناہ میں ہو اور اقلیت میں ہو۔ میں کسی ہندو، آتش پرست، مسلمان، برہمن، برال، مہتوں یا سوریوں کا راجہ نہیں ہوں۔ بلکہ اپنی رعایا کا رکھوالا ہوں۔ راجہ رکھوالے ہوتے ہیں اور پرجا پہ ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔
جو راجہ اس سچائی سے منہ موڑے گا وہ برباد ہو گا۔ کیونکہ مظلوم کی آہ میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ وہ سیدھی بھگوان کے پاس جاتی ہے۔ کل جب میرا بدن چتا کے شعلوں میں جلایا جائے گا تو اسی رعایا کے آنسو میرے دامن میں ہوں گے اور اگر میں ان سے انصاف نہ کر سکا تو یہ گھر جا کر خوشی منائیں گے کہ ''ظالم سے نجات ملی'' صرف غیر جانبدار سچا اور کھرا انصاف ہی کسی راجہ کو مرنے کے بعد بھی ان کے دلوں میں زندہ رکھتا ہے۔''
اتنا کہہ کر اس نے حکم دیا کہ جن جن فرقوں کے لوگوں نے بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا ان کی قوم کے سرداروں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ تاکہ آیندہ کوئی بھی طاقت ور سردار کسی پر ظلم کرنے کے متعلق سوچے بھی نہیں۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ کسی بھی گروہ کی بدمعاشی کی سزا اس گروہ کے علاوہ اس کے سردار کو بھی ضرور ملے گی۔ اس کے بعد خطیب کو چار چھتر تجتے جو بڑے قیمتی ریشمی کپڑے سے تیار کیے گئے تھے دیے۔ محمد عوفی کے مطابق یہ قیمتی چھتر آج بھی مسلمانوں کے پاس محفوظ ہیں اور انھیں عید کے موقعے پر نکالتے ہیں (آج بھی سے مراد وہ زمانہ جب یہ حکایت لکھی گئی) راجہ نے ایک ایک لاکھ بالوترے (سکہ رائج الوقت) مسجد اور مینار کی نئے سرے سے تعمیر کے لیے عنایت کیے۔
کہتے ہیں کہ مسجد اور مینار بقول عوفی چند سال پہلے تک موجود اور محفوظ تھے۔ مگر ایک لشکر نے جب نہروالے پہ حملہ کیا تو مسجد اور مینار دوبارہ برباد کر دیے گئے۔ بعدازاں سید بن شریف یمنی نے ان کو اپنے خرچ پر تیسری بار تعمیر کرایا۔ اور چار طلائی گنبدوں کا اضافہ کر کے اس کی شان و شوکت کو قائم رکھا۔ چنانچہ یہ مسجد اور مینار آج بھی باقی ہیں اور یاد دلاتے ہیں کہ انصاف پرور حکمران ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ جسم مٹی میں مل جاتے ہیں لیکن اس خاکی جسم میں رہنے والی روح اپنے خالق کے حضور ہمیشہ سرخرو رہتی ہے۔ لیکن یہ پرانی اور آؤٹ آف ڈیٹ باتیں ہیں۔ آج کا منظر نامہ بقول فیضؔ یہ ہے:
آباد کر کے شہر خموشاں ہر ایک سو
کس کھوج میں ہے تیغ ستم گر لگی ہوئی