پانی زندگی ہے
پانی کا بحران آج سے نہیں، سالہا سال سے اس وقت سے ہے جب ایم ڈی مصباح الدین فرید تھے اور آج بھی وہ واٹر بورڈ میں۔۔۔
KARACHI:
آج کل جہاں سیاسی معاملات نے لوگوں کو حیران وپریشان کیا ہوا ہے وہاں سماجی مسائل نے بھی جینے کی راہیں مسدود کردی ہیں۔ان ہی مسئلوں میں پانی کا مسئلہ بھی بے حد اہم ہے۔ پانی کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے تو اس ہی پانی سے ہزاروں، لاکھوں نفوس سے محروم کردیا گیا ہے، گدلا پانی کس کام کا؟ سوائے اس کے کہ ہزاروں انسانوں کو بیماریوں میں مبتلا کرکے ماہانہ بجٹ کو خسارہ پہنچائے۔
ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہیں ہی کتنی ہیں؟ بے حد تھوڑی رقم، جو ضروریات زندگی کے لیے ناکافی ہے اور محنت پیشہ افراد کا تو کہنا ہی کیا کبھی دہاڑی لگی تو کبھی نہیں، کام ملا نہ ملا،کیا کرسکتے ہیں سوائے فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر ان لوگوں کا انتظار کرتے ہیں جو انھیں اپنے گھروں میں رنگ و روغن یا تعمیر مکان و دکان کے لیے لے جائیں۔ صبح ہی صبح یہ مزدور اور کاریگر رنگ کے خالی ڈبے، برش، پھاؤڑا وغیرہ لے کر چوراہے پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ رزق دینے والا تو وہ مالک کائنات ہے لیکن کوشش انسان کی اپنی ہے۔
اس بے روزگاری اور پریشانی کے دور میں یہ غریب لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے کچھ کما لیں تو بڑی بات ہے، پانی خرید کر پینا یا استعمال کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے، متوسط اور صاحب حیثیت لوگ ٹینکر ڈلوانے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ واٹر بورڈ کے افسران اعلیٰ صاف و شفاف پانی مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ جب آلودہ اور بدبودار پانی نلوں میں آئے گا تو ایسی سنگین صورت حال میں پانی کا ٹینکر آدھا یا پورا ڈلوانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ کہ نیا پانی پیے بنا جینا محال ہے اور ٹینکر بھی دو ہزار سے 3 ہزار تک کا ہے۔
پانی کا بحران آج سے نہیں، سالہا سال سے اس وقت سے ہے جب ایم ڈی مصباح الدین فرید تھے اور آج بھی وہ واٹر بورڈ میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ انھوں نے کچھ کوشش تو کی تھی کہ عوام کو وافر مقدار میں پانی ملے اور وہ بھی صاف ستھرا، ان کے بیانات بھی اس حوالے سے آتے رہے تھے، لیکن کیا کیا جائے چور بازاری کا، کہ وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے اور لے گی بھی نہیں، جب تک کہ افسران بالا دیانت داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ کراچی کے بے شمار علاقوں میں بد بودار پانی فراہم کیا جارہا ہے، مختلف چینلز پر لانڈھی اور ملیر کے حوالے سے گندا پانی نلوں سے آتا ہوا دکھایا بھی گیا۔
پانی کو دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا تھا کہ گٹر کا پانی ملا ہوا ہے اس تکلیف دہ مسئلے سے بچنے کے لیے مجبوراً عوام ٹینکر ڈلواتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ واٹر بورڈ اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت ہے کہ پیسہ اس ہی طرح کمایا جاتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق سابق صوبائی وزیر بلدیات اویس مظفر کی ہدایت پر کورنگی میں بند کیے جانے والے غیر قانونی ہائیڈرنٹس صوبائی محکمہ بلدیات کے ایک اعلیٰ شخصیت کی ایماء پر دوبارہ کھل گئے ہیں، جس کے باعث کورنگی، ڈیفنس، کورنگی کریک سمیت ارد گرد کے علاقوں میں پانی کا بد ترین بحران پیدا ہوگیا ہے، علاقے میں پانی کا غیر قانونی کاروبار جاری ہے۔
نیز یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ہائیڈرنٹس کو بلک لائن سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ بلک کی لائن سے پانی کی فراہمی کے باعث کورنگی کے علاوہ کورنگی کریک اور ڈیفنس سمیت اطراف کے علاقوں کے مکین پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں جب کہ اس ہی علاقے کی ہائیڈرنٹس میں پانی ہی پانی ہے۔ یقینا یہ امر بے حد افسوسناک ہے کہ علاقہ مکینوں کو اپنے ہی حصے کے پانی کو مہنگے داموں خریدنا پڑ رہا ہے۔
یہ ہی ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ ہر ادارہ کرپشن کا شکار ہے اور اگر کوئی ایسی بد عنوانی کو دور کرنے کی کوشش تو ممکنات میں سے نظر نہیں آتا ہے۔ پانی تو پانی غذائی اجناس اور زکوٰۃ و خیرات کی رقم بھی مستحقین تک نہیں پہنچ پاتی ہے، اسے بھی بڑی آسانی سے ہڑپ کرلیا جاتا ہے۔ اس قسم کی خیانت کو مد نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کی حکومت اپنے طور پر خود امداد کرتی ہے وہ آب زم زم کا بندوبست کرسکتی ہے، کھانے پینے کی اشیا اور نقد رقم کا بھی، لیکن پانی کا انتظام کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔
نیٹ پر سعودیہ سیل کی طرف سے آئے دن فلاحی کاموں کی تفصیل پڑھنے کو مل جاتی ہے چند ماہ قبل سعودی سفیر کی اہلیہ جوہرہ العریفی نے بیت المال کی بچیوں کو 10 لاکھ روپے کا عطیہ اپنے ہاتھوں سے پیش کیا، گزشتہ پانچ سالوں سے سعودی سفیر اور ان کی نصف بہتر رفاہ عامہ کے لیے مستقل کام کراچی میں ہیں، ماضی قریب میں بھی محترمہ جوہرہ عبداﷲ العریفی نے انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی کے لیے پانچ لاکھ روپے کا چیک یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر یوسف الدرویش کے حوالے کیا، انھوں نے اس بات کی بھی امید ظاہر کی کہ یہ رقم طلبا و طالبات کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہوگی۔
پانی کے ذکر سے یہ محاورہ یاد آگیا ہے کہ اہل اقتدار کے دیدوں کا پانی مرگیا ہے، جب ہی وہ پریشان لوگوں کے مصائب و تکالیف کا نوٹس نہیں لیتے ہیں، صرف اپنے عیش وعشرت ہی انھیں یاد رہتے ہیں لیکن کب تک؟ جب لاد چلے گا بنجارہ، زندگی بہت مختصر ہے، اپنے کیے کا جواب اﷲ تعالیٰ کے حضور ضرور دینا ہے یاد رہے کہ امریکا بہادر کے سامنے ہم جوابدہ نہیں ہیں۔ علامہ اقبال کا ایک شعر بھی اس موقعے کی مناسب سے ذہن کے دریچوں میں آکر ٹھہر گیا ہے۔
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے تو تن تیرا نہ من
غیر کے آگے جھکنے سے بہتر تو یہ ہے کہ انسان اﷲ رب العزت کے آگے جھک جائے تو پھر انسان پانی پانی ہونے سے بچ جائے گا لیکن یہ اس وقت ہوگا جب شرم ہوگی، تب ہی بندہ خدا شرم سے پانی پانی ہوسکتا ہے، ندامت کے آنسوؤں سے اپنے گناہوں کو دھوسکتا ہے اور ایاک نعبدو ایاک نستعین کا ورد کرسکتاہے۔ بے شک ہم اس ہی کی عبادت کرتے ہیں اور اس ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اور جب ہم خالصتاً اپنے رب کے ہوجاتے ہیں تب دنیا خس و خاشاک کی مانند نظر آتی ہے، کیسی دولت اور کہاں کے عیش بس اﷲ ہی اﷲ ، سکون قلب تو اﷲ کی یاد میں ہی شامل ہے۔ یعنی اﷲ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
بے شک پانی اور ہوا جیسی لازوال نعمتیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے تا قیامت کے لیے مختص کردی ہیں۔ اﷲ فرماتا ہے: ''اور ہم ہی ہوائیں چلاتے ہیں (جو بادلوں کے پانی) سے بھری ہوئی (ہوتی ہیں) اور ہم ہی آسمان سے مینہ برساتے ہیں اور ہم ہی تم کو اس کا پانی پلاتے ہیں اور تم تو اس کا خزانہ نہیں رکھتے '' (حج 22) یہ حضرت انسان ہی ہے جو اپنی طاقت کے بل پر اپنے ہی جیسے انسان پر چند سکوں کی خاطر ظلم ڈھارہا ہے اور قہر خدا کو آواز دے رہا ہے۔
لوگوں کو پیاسا رکھ کر اور بیماریوں میں مبتلا کرکے کب تک دولت کمائی جاسکتی ہے؟ ہر عروج کو زوال ہے اور یکساں وقت کسی کے لیے نہیں، اس لیے اے حضرت انسان! ڈر اس وقت سے جب تو مکافات عمل سے گزرے گا۔
آج کل جہاں سیاسی معاملات نے لوگوں کو حیران وپریشان کیا ہوا ہے وہاں سماجی مسائل نے بھی جینے کی راہیں مسدود کردی ہیں۔ان ہی مسئلوں میں پانی کا مسئلہ بھی بے حد اہم ہے۔ پانی کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے تو اس ہی پانی سے ہزاروں، لاکھوں نفوس سے محروم کردیا گیا ہے، گدلا پانی کس کام کا؟ سوائے اس کے کہ ہزاروں انسانوں کو بیماریوں میں مبتلا کرکے ماہانہ بجٹ کو خسارہ پہنچائے۔
ملازمت پیشہ افراد کی تنخواہیں ہی کتنی ہیں؟ بے حد تھوڑی رقم، جو ضروریات زندگی کے لیے ناکافی ہے اور محنت پیشہ افراد کا تو کہنا ہی کیا کبھی دہاڑی لگی تو کبھی نہیں، کام ملا نہ ملا،کیا کرسکتے ہیں سوائے فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر ان لوگوں کا انتظار کرتے ہیں جو انھیں اپنے گھروں میں رنگ و روغن یا تعمیر مکان و دکان کے لیے لے جائیں۔ صبح ہی صبح یہ مزدور اور کاریگر رنگ کے خالی ڈبے، برش، پھاؤڑا وغیرہ لے کر چوراہے پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ رزق دینے والا تو وہ مالک کائنات ہے لیکن کوشش انسان کی اپنی ہے۔
اس بے روزگاری اور پریشانی کے دور میں یہ غریب لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے کچھ کما لیں تو بڑی بات ہے، پانی خرید کر پینا یا استعمال کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے، متوسط اور صاحب حیثیت لوگ ٹینکر ڈلوانے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ واٹر بورڈ کے افسران اعلیٰ صاف و شفاف پانی مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ جب آلودہ اور بدبودار پانی نلوں میں آئے گا تو ایسی سنگین صورت حال میں پانی کا ٹینکر آدھا یا پورا ڈلوانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ کہ نیا پانی پیے بنا جینا محال ہے اور ٹینکر بھی دو ہزار سے 3 ہزار تک کا ہے۔
پانی کا بحران آج سے نہیں، سالہا سال سے اس وقت سے ہے جب ایم ڈی مصباح الدین فرید تھے اور آج بھی وہ واٹر بورڈ میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ انھوں نے کچھ کوشش تو کی تھی کہ عوام کو وافر مقدار میں پانی ملے اور وہ بھی صاف ستھرا، ان کے بیانات بھی اس حوالے سے آتے رہے تھے، لیکن کیا کیا جائے چور بازاری کا، کہ وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے اور لے گی بھی نہیں، جب تک کہ افسران بالا دیانت داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ کراچی کے بے شمار علاقوں میں بد بودار پانی فراہم کیا جارہا ہے، مختلف چینلز پر لانڈھی اور ملیر کے حوالے سے گندا پانی نلوں سے آتا ہوا دکھایا بھی گیا۔
پانی کو دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا تھا کہ گٹر کا پانی ملا ہوا ہے اس تکلیف دہ مسئلے سے بچنے کے لیے مجبوراً عوام ٹینکر ڈلواتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ واٹر بورڈ اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت ہے کہ پیسہ اس ہی طرح کمایا جاتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق سابق صوبائی وزیر بلدیات اویس مظفر کی ہدایت پر کورنگی میں بند کیے جانے والے غیر قانونی ہائیڈرنٹس صوبائی محکمہ بلدیات کے ایک اعلیٰ شخصیت کی ایماء پر دوبارہ کھل گئے ہیں، جس کے باعث کورنگی، ڈیفنس، کورنگی کریک سمیت ارد گرد کے علاقوں میں پانی کا بد ترین بحران پیدا ہوگیا ہے، علاقے میں پانی کا غیر قانونی کاروبار جاری ہے۔
نیز یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ہائیڈرنٹس کو بلک لائن سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ بلک کی لائن سے پانی کی فراہمی کے باعث کورنگی کے علاوہ کورنگی کریک اور ڈیفنس سمیت اطراف کے علاقوں کے مکین پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں جب کہ اس ہی علاقے کی ہائیڈرنٹس میں پانی ہی پانی ہے۔ یقینا یہ امر بے حد افسوسناک ہے کہ علاقہ مکینوں کو اپنے ہی حصے کے پانی کو مہنگے داموں خریدنا پڑ رہا ہے۔
یہ ہی ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ ہر ادارہ کرپشن کا شکار ہے اور اگر کوئی ایسی بد عنوانی کو دور کرنے کی کوشش تو ممکنات میں سے نظر نہیں آتا ہے۔ پانی تو پانی غذائی اجناس اور زکوٰۃ و خیرات کی رقم بھی مستحقین تک نہیں پہنچ پاتی ہے، اسے بھی بڑی آسانی سے ہڑپ کرلیا جاتا ہے۔ اس قسم کی خیانت کو مد نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کی حکومت اپنے طور پر خود امداد کرتی ہے وہ آب زم زم کا بندوبست کرسکتی ہے، کھانے پینے کی اشیا اور نقد رقم کا بھی، لیکن پانی کا انتظام کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔
نیٹ پر سعودیہ سیل کی طرف سے آئے دن فلاحی کاموں کی تفصیل پڑھنے کو مل جاتی ہے چند ماہ قبل سعودی سفیر کی اہلیہ جوہرہ العریفی نے بیت المال کی بچیوں کو 10 لاکھ روپے کا عطیہ اپنے ہاتھوں سے پیش کیا، گزشتہ پانچ سالوں سے سعودی سفیر اور ان کی نصف بہتر رفاہ عامہ کے لیے مستقل کام کراچی میں ہیں، ماضی قریب میں بھی محترمہ جوہرہ عبداﷲ العریفی نے انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی کے لیے پانچ لاکھ روپے کا چیک یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر یوسف الدرویش کے حوالے کیا، انھوں نے اس بات کی بھی امید ظاہر کی کہ یہ رقم طلبا و طالبات کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہوگی۔
پانی کے ذکر سے یہ محاورہ یاد آگیا ہے کہ اہل اقتدار کے دیدوں کا پانی مرگیا ہے، جب ہی وہ پریشان لوگوں کے مصائب و تکالیف کا نوٹس نہیں لیتے ہیں، صرف اپنے عیش وعشرت ہی انھیں یاد رہتے ہیں لیکن کب تک؟ جب لاد چلے گا بنجارہ، زندگی بہت مختصر ہے، اپنے کیے کا جواب اﷲ تعالیٰ کے حضور ضرور دینا ہے یاد رہے کہ امریکا بہادر کے سامنے ہم جوابدہ نہیں ہیں۔ علامہ اقبال کا ایک شعر بھی اس موقعے کی مناسب سے ذہن کے دریچوں میں آکر ٹھہر گیا ہے۔
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے تو تن تیرا نہ من
غیر کے آگے جھکنے سے بہتر تو یہ ہے کہ انسان اﷲ رب العزت کے آگے جھک جائے تو پھر انسان پانی پانی ہونے سے بچ جائے گا لیکن یہ اس وقت ہوگا جب شرم ہوگی، تب ہی بندہ خدا شرم سے پانی پانی ہوسکتا ہے، ندامت کے آنسوؤں سے اپنے گناہوں کو دھوسکتا ہے اور ایاک نعبدو ایاک نستعین کا ورد کرسکتاہے۔ بے شک ہم اس ہی کی عبادت کرتے ہیں اور اس ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اور جب ہم خالصتاً اپنے رب کے ہوجاتے ہیں تب دنیا خس و خاشاک کی مانند نظر آتی ہے، کیسی دولت اور کہاں کے عیش بس اﷲ ہی اﷲ ، سکون قلب تو اﷲ کی یاد میں ہی شامل ہے۔ یعنی اﷲ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
بے شک پانی اور ہوا جیسی لازوال نعمتیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے تا قیامت کے لیے مختص کردی ہیں۔ اﷲ فرماتا ہے: ''اور ہم ہی ہوائیں چلاتے ہیں (جو بادلوں کے پانی) سے بھری ہوئی (ہوتی ہیں) اور ہم ہی آسمان سے مینہ برساتے ہیں اور ہم ہی تم کو اس کا پانی پلاتے ہیں اور تم تو اس کا خزانہ نہیں رکھتے '' (حج 22) یہ حضرت انسان ہی ہے جو اپنی طاقت کے بل پر اپنے ہی جیسے انسان پر چند سکوں کی خاطر ظلم ڈھارہا ہے اور قہر خدا کو آواز دے رہا ہے۔
لوگوں کو پیاسا رکھ کر اور بیماریوں میں مبتلا کرکے کب تک دولت کمائی جاسکتی ہے؟ ہر عروج کو زوال ہے اور یکساں وقت کسی کے لیے نہیں، اس لیے اے حضرت انسان! ڈر اس وقت سے جب تو مکافات عمل سے گزرے گا۔