نفاذ اسلام کا خواب
سیکولر نظام دراصل ریاست کو مذہبی روک ٹوک سے آزاد کرکے معاشرے کے ہر فرد کو نفسانی خواہشات کا غلام بنادیتا ہے۔
KARACHI:
قیام پاکستان کے روز اول سے لے کر اب تک مذہبی اور سیکولر قوتوں کے درمیان اس بات پر کشمکش جاری ہے کہ پاکستان کا نظام سیاست اسلامی ہونا چاہیے یا سیکولر؟ ہماری سیاست ان ہی دو دائروں میں گھوم رہی ہے۔اس کشمکش نے قوم کو ایک فکری انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے۔ دینی مذہبی جماعتیں اس ضمن میں ایک واضح موقف رکھتی ہیں، ان کے نزدیک اسلام کا اپنے ماننے والوں سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون ہونا چاہیے۔
زمین پر حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے بجائے اپنے بنائے ہوئے قوانین کا نفاذ کرے۔ یہی وجہ ہے بحیثیت مجموعی تمام دینی جماعتیں اسلامی نظام کی داعی ہیں اور اقامت دین کے لیے کوشاں ہیں۔ مذہبی جماعتوں میں بعض ایسی جماعتیں بھی ہیں جو ڈیموکریسی کی مخالف ہیں وہ انتخابی سیاست کو غیر اسلامی قرار دیتی ہیں، لیکن یہ جماعتیں عوام الناس کو کوئی واضح سیاسی نظام پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یعنی ایسا نظام سیاست جس میں کسی مخصوص طبقے کی اجارہ داری نہ ہو۔ تمام طبقات کو یکساں سیاسی حقوق حاصل ہوں، نظام ایسا ہو جس میں ہر طبقہ ریاست سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ خود دینی جماعتیں ان گروپ کو مسترد کرتی ہیں جو ڈیموکریسی کے خلاف ہیں۔ ڈیموکریسی کی حامی دینی جماعتیں اسلام کے نظام سیاست کے بنیادی اصولوں اور تعلیمات کی روشنی میں ڈیموکریٹس کے ذریعے ہی اسلام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔
سیکولر جماعتوں کا بھی ایک نقطہ نظر ہے، سیکولر قوتیں سیاست میں مذہب کی مداخلت کے خلاف ہیں ان کے نزدیک مذہبی حکومت میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہوتی اس لیے وہاں انحراف، انتشار اور بغاوت کی صورت حال پیش آتی رہتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے جہاں جہاں مذہبی حکومتیں رہی ہیں وہاں پر امن انتقال اقتدار بہت کم دکھائی دیا ہے۔ ہر مذہب میں فرقوں کا وجود ایک ٹھوس حقیقت ہے سیاست میں مذہب کے عملی نفاذ کا حتمی نتیجہ مختلف مکاتب فکر کے درمیان باہمی کشمکش اور تصادم کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ایک مسلک کی بالادستی دوسرے مسلک کے استحصال کا ذریعہ بن جاتی ہے جو ملک کو بدامنی میں مبتلا کردیتی ہے۔
سیاسی اداروں جن کا کام عوام کے معاشی، سماجی اور تعلیمی مسائل کے حل سے ہے وہ ضروری مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہوجاتے ہیں، مثلاً سعودی عرب کے سیاسی اداروں میں کافی عرصہ یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت حاصل ہونی چاہیے یا نہیں۔ایسے حالات میں سیکولر نظام ایسا سیاسی نظام ہے جس میں قانونی، لسانی، تہذیبی اور مسلکی طور پر کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہوتی بلکہ سب کو مساوی حقوق ملتے ہیں اس لیے اسے لادینی کے بجائے انسان دوست سمجھنا چاہیے اور اس کے نفاذ کی کوشش کرنی چاہیے۔مذہبی اور دینی جماعتیں ان تمام خدشات اور الزامات کو مسترد کرتی ہیں ان کے نزدیک موجودہ دور میں ایران کا اسلامی انقلاب اور افغانستان میں طالبان کا دور حکومت امن وامان کے لحاظ سے مثالی دور رہا ہے۔
البتہ اقلیتوں کو جو مذہبی اعتبار سے ہوں یا مسلکی اعتبار سے انھیں کچھ جزوی شکایات ضرور رہی ہیں ایسی شکایات سیکولر معاشرے میں بھی دیکھنے میں آتی ہیں دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں حقیقی معنوں میں قومی اقلیتیں موجود ہوں اور ان کو قومی اکثریت کے ساتھ عملاً مساوات حاصل ہو۔جہاں تک فروعی مسائل کا تعلق ہے ایسے مسائل خود سیکولر معاشرے میں بھی زیر بحث رہے ہیں ہم جنس پرستوں کی باہم شادی کا قانون سیکولر معاشرے میں بھی کافی عرصہ زیر بحث رہے ہیں۔ سیکولر نظام سیاست کو انسان دوست قرار دینا درست نہیں بھارت ایک سیکولر ملک ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ وہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے جس سے انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے۔ ایسا ظالمانہ سلوک کسی مذہبی ریاست میں اقلیتوں کے ساتھ روا نہیں رکھا جاتا ہے۔
سیکولر نظام دراصل ریاست کو مذہبی روک ٹوک سے آزاد کرکے معاشرے کے ہر فرد کو نفسانی خواہشات کا غلام بنادیتا ہے۔ جس سے اخلاقی اقدار کا خاتمہ ہوجاتا ہے اس لیے اس نظام کو مسلم معاشرے میں کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں قوتوں کا اپنا نقطہ نظر ہے۔اس پر علمی رائے کا اظہار اہل علم ہی کرسکتے ہیں میں اپنی کم علمی کے باعث اس پر اپنی علمی رائے دینے سے قاصر ہوں۔ یہاں ایک سوال بہت اہم ہے دینی سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ منظم اور متحرک ہیں ان کا ایک وسیع نیٹ ورک بھی ہے۔
عوام الناس ان دینی اور مذہبی جماعتوں سے نظریاتی اور جذباتی وابستگی بھی رکھتے ہیں اس کے باوجود دینی اور مذہبی جماعتیں عوام کی سیاسی حمایت کے حصول میں کیوں ناکام رہی ہیں پاکستان میں زیادہ پذیرائی ان ہی جماعتوں کو حاصل رہی ہے جو اپنے منشور، نظریے اور مزاح کے حوالے سے سیکولر یا لبرل سمجھی جاتی ہیں۔عوام کی اکثریت نے اپنے قومی معاملات کبھی دینی مذہبی جماعتوں کے حوالے نہیں کیے یہی وجہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کی حیثیت ہماری سیاست میں ایک پریشر گروپ کی ضرور رہی ہے جن کی موجودگی کے باعث سیکولر قوتوں کو آزادانہ کام کرنے کا کبھی بھی موقع میسر نہیں آیا۔ اس لیے مذہبی جماعتوں کو سیاسی قوت کے بجائے مزاحمتی گروپ ہی سمجھا گیا ہے۔
اب آئیے اس سوال کے جواب کی طرف کہ دینی سیاسی جماعتیں عوامی حمایت سے محروم کیوں ہیں میری ناقص رائے میں دینی سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کو سمجھنے میں قطعی ناکام رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ سیاسی میدان میں ناکامی سے دوچار ہیں۔ ان کا زیادہ زور عقائد کی درستگی پر رہا ہے۔ ان کی سرگرمیوں کا محور ایسی سرگرمیاں ہیں جن کا تعلق مذہبی طبقے سے ہوتا ہے یا وہ سرگرمیاں اس طبقے کے لیے ہی مفید ہوتی ہیں۔
ہماری مذہبی اور دینی قیادتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہمارے ملک کی اکثریتی عوام کا لباس بوسیدہ ہے۔ ان کی غذا غیر متوازن ہے۔ اکثریت طبی، تعلیمی اور رہائشی سہولتوں سے محروم ہیں۔ عدل و انصاف کی عدم فراہمی، بے روزگاری عام ہے لیکن ہماری دینی جماعتوں نے ان مسائل سے ہمیشہ بے رخی اختیار کی ہے۔ سوچیے! جس ملک کی عوام الناس کی اکثریت یومیہ اجرت کے ذریعے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے میں مصروف عمل ہو اسے چھٹی جمعے کے دن ہو یا اتوار کو اس بات سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ ہماری دینی اور مذہبی قیادتوں کو زمینی حقائق سامنے رکھ کر اپنی ترجیحات متعین کرنی چاہیے اور پاکستان میں بسنے والے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔
ممکن ہے کہ بعض دینی جماعتوں کی جانب سے یہ الزام آئے کہ اس طرح کا طرز عمل اپنانے سے دینی سیاسی جماعتیں اقامت دین کے بجائے محض سیاسی فتوحات کے حصول کے راستے پر چل پڑیں گی اور اس طرح ان کا دینی تشخص ختم ہوجائے گا۔ راقم الحروف کی رائے میں ایک بڑی عوامی قوت کے ذریعے ہی سیاسی بالادستی حاصل کی جاسکتی ہے سیاسی بالادستی کے حصول کے بعد ہی اسلام کا نفاذ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بغیر نفاذ اسلام ایک خواب ہی رہے گا۔
ایک اور ضروری بات جنرل ضیا الحق کا دور حکومت تھا۔ ایک معروف دینی جماعت سے وابستہ ایک رہنما نے ایک ملاقات میں ان سے شکایت کی کہ پاکستان ٹیلی وژن کا قبلہ درست نہیں ہے ایک اسلامی ملک کے ادارے ہونے کے ناتے اس کا جو اسلامی تشخص ہونا چاہیے اس کے برعکس کردار ادا کر رہا ہے۔ جنرل ضیا الحق نے ان کی شکایت توجہ سے سنی اور ان سے کہا کہ آپ ایک ایسی شخصیت جو دینی مزاج کی حامل ہو اور ٹیلی وژن جیسے ادارے کو چلانے کی انتظامی صلاحیت بھی رکھتا ہو اس کا نام پیش کردیجیے میں آج ابھی انھیں ٹیلی وژن کے ادارے کا سربراہ بنادوں گا۔ موصوف نے یہ بات سن کر اس تجویز پر عمل کے لیے وقت مانگا مگر کئی ماہ کی کوشش اور جدوجہد کے باوجود وہ کوئی ایک نام بھی جنرل ضیا الحق کو پیش نہ کرسکے۔ یہ بات لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں غیر جذباتی انداز فکر اپناتے ہوئے اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔