چاہے سارا پنڈ مرجائے …

ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کی آڑ میں وہ چوہدراہٹ چل رہی ہے جس کی عمارت خاندانوں اور نسلوں۔۔۔


Shirin Hyder September 14, 2014
[email protected]

چند دن قبل ہی خواجہ آصف صاحب کے حوالے سے ایک بیان پڑھا جس سے اندازہ ہوا کہ وہ کس قدر بے بس تھے... خواجہ آصف پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر ہیں ، انھوں نے فرمایا، '' قوم نمازیں پڑھے، استغفار کرے ورنہ گرمی کو کنٹرول کرنا مشکل ہے، انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے ( یقیناً ان کا مطلب ہے کہ ان کی حکومت نے) لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا، جس نے دیا ہے اسی سے جا کر پوچھیں! '' ظاہر ہے کہ میں وہاں موجود نہیں تھی مگر یہ اخباروں کی شہ سرخی بنی اور لاکھوں کروڑوں لوگوں نے اسے پڑھا ہے۔

خواجہ صاحب عوام تو بھولے بھالے ہیں، غربت کی چکی میں پستے ہوئے، خلوص دل سے اپنے مسائل کے حل کے لیے، حکومتوں سے مایوس اور اللہ سے اپنے حل کی توقع کرنے والے... آپ کو کیا علم کہ مظلوم کی اللہ تعالی کس کس طرح سنتا ہے۔ آپ نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی تاریخ کا کوئی شیڈول نہیں دیا، ماننا پڑتا ہے، کیونکہ اب ہم لوڈ شیڈنگ کو اپنا مقدر سمجھ بیٹھے ہیں، نہیں ہوتی تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں... لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا کوئی شیڈول آپ نے دیا ہو یا نہیں مگر لوڈ شیڈنگ کا شیڈول بالکل حتمی ہوتا ہے، ایک منٹ ادھر نہ ایک منٹ ادھر، اب تو ہمیں گھروں میں دیواری گھڑیوں کی ضرورت رہی ہے نہ کلائی پر گھڑیاں باندھنے کی، وقت کا اندازہ جو لوگ پہلے وقتوں میں سورج کی حرکت اور چاند کے نکلنے سے کرتے تھے، مرغ کی بانگوں سے سحر کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے اس لیے ہم گھوم گھام کر واپس ماضی کے اس دور میں پہنچ گئے ہیں جب گھڑی ایجاد ہی نہ ہوئی تھی۔

ٹیلی وژن پر ہم مناظر دیکھتے ہیں کہ کس طرح بارشوں نے تباہی مچا دی ہے اور اب سیلاب زدگان کی ایک کثیر تعداد بے گھر ہو کر امداد کی مستحق ہو گئی ہے۔ پانی جو اللہ کی ایک بڑی نعمت ، زندگی کی اولین اور اہم ترین ضرورت اور حیات کا پہلا نشان ہے، جہاں پانی ہو گا وہیںحیات ممکن ہے، مگریہی پانی جو حیات ہے... وہ ممات میں کس طرح بدل جاتا ہے، تباہی ہے سامان کیونکر کرتا ہے، نعمت کب زحمت میں بدلتی ہے؟ جب ہمارے پاس دماغ تو ہو مگر اس کا استعمال نہ ہو اور ہم اپنے ووٹ کی طاقت کو حقیر سمجھ لیں اور بریانی کی ایک پلیٹ کے عوض اپنے ووٹ کو بیچ دیں یا سرے سے ووٹ ڈالنے ہی نہ جائیں اور اپنے ووٹ کا اختیار ان قوتوں کو دے دیں جو ہمارے ووٹ اپنے حق میں استعمال کر کے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جائیں۔

یہ سوچ لینا کہ ان کے دلوں میں ہمارا درد دھڑکتا ہے اس لیے وہ ہمارے ووٹوں کی طاقت سے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں کہ ہمارے لیے کچھ کریں گے... قطعی ناقص سوچ ہے۔کیا آپ کو اندازہ ہے کہ ایک صوبائی یا قومی اسمبلی کا رکن بننے کے لیے الیکشن لڑنے کا کتنا خرچہ ہے؟ صوبائی یا وفاقی وزیر بننے پر کیا اخراجات آتے ہیں؟ میں اور آپ قطعی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے مگر ہم کسی حد تک یہ تو جان سکتے ہیں نا کہ یہ انتہائی مہنگا '' نسخہ'' ہے اور ہر کسی کے بس کا کام بھی نہیں۔

اب اتنی اتنی investment کرنے والے لوگ، ان میں ہیں بھی زیادہ تر کاروباری ( وزیر اعظم سمیت)... اتنے پرانے کاروباری کسی گھاٹے کے کام میں تو اپنا سرمایہ نہیں لگاتے نا، اسی لیے تو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے کاروبار پھیلا چکے ہیں۔ انھیں تو پاکستان میں آنے کی بھی ضرورت نہ تھی ، مگر یہ ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا درد انھیں بار بار کھینچ لاتا ہے۔ اصل میں شاید یہی بات ہو گی مگر ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں انھیں ٹیکس چوری کی '' سہولت '' حاصل ہے، کسی اور ملک میں یہ ایک پیسے کی ٹیکس چوری کر کے تو دکھائیں، مگر یہاں یہ اتنا اتنا ٹیکس دیتے ہیں کہ جو ان کے ایک دن کے باورچی خانے کے اخراجات سے بھی کم ہوتا ہے۔

خواجہ صاحب نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا کوئی شیڈول نہیں دیا، اس میں نہ ماننے والی کیا بات ہے خواجہ صاحب، ہم مانتے ہیں، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کو تو خود ہی معلوم نہیں کہ اس کا کا خاتمہ کب ہو گا، ہو گابھی کہ نہیں ... کیونکہ آپ کی یہ فیلڈ ہی نہیں، جس طرح باقی سارے وزراء ہیں ( چند ایک کے سوا) ، انھیں علم ہی نہیں کہ ان کی وزارت کا کام کیا ہے، جس کی جو خواہش ہوتی ہے اسے اسی محکمے کا وزیر بنا دیا جاتا ہے... وزیر تعلیم اسے بھی بنایا جا سکتا ہے جسے اس وزارت کی الف بے کا بھی علم نہ ہو۔

اس ضمن میں ایک لطیفہ یاد آ جاتا ہے کہ ہمارے ایک صدر ( بہت پہلے) افغانستان گئے تو ان کا تعارف وفاقی وزراء سے کروایا گیا، وزیر ریلوے کے تعارف پر ہمارے صدر محترم حیران ہو ئے اور سوال کیا کہ آپ کے ملک میں تو ریلوے ہی نہیں تو وزیر ریلوے کا کیا جواز... افغانستان کے صدر نے ہمارے صدر کی طرف ناراض نظروں سے دیکھا اور کہا ، '' آپ کے ملک میں بھی تو وزیر قانون ہے، ہم نے کبھی سوال کیا ؟ '' ہے تو یہ لطیفہ مگر اتنا بھی لطیفہ نہیں ہے۔

بات گھوم پھر کر پھر خواجہ صاحب کے بیان کی طرف آجاتی ہے، جنھیں پانی اور بجلی کا وزیر تو بنا دیا گیا مگر انھیں شاید یہ لگا کہ انھیں پانی میسر ہوگا تو اس سے بجلی خود بخود ہی بن جائے گی ، اسی لیے انھوں نے ہم سے کہہ دیا کہ ہم بارش کی دعا کریں۔ ہم تو ٹھہرے لکیر کے فقیر جیسے عوام... جو کوئی کہتا ہے اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں، ہم نے خواجہ صاحب سے یہ بھی نہ پوچھا کہ دعا میں بارش کے لیے کیا مقدار اور شیڈول اللہ تعالی سے عرض کریں، اسی لیے ان کی بات سنتے ہی جھٹ سے دعاؤں میں مصروف ہو گئے اور اب بھگت رہے ہیں۔

ان سے سوال کرنے کا حق بھی نہیں رکھتے کہ خواجہ صاحب کہاں ہے بجلی؟؟؟ اس لیے کہ بجلیاں تو ہمارے ہی آشیانوں پر گری ہیں، خواجہ صاحب کی کرسی بھی قائم ہے اور آشیانہ بھی، ا ن سے پوچھ بھی نہیں سکتے کہ وہ کہیں گے ہم نے زیادہ بارش کی دعا کر دی تھی، اتنی تو دریاؤں میں گنجائش ہی نہ تھی اوربجلی کہاں سے بنے کہ کوئی ڈ یم ہیں نہ بیراج کے جن میں پانی ذخیرہ کیا جائے اور ظاہر ہے خواجہ صاحب بے چارے ایک سال میں تو ڈیم نہیں بنا سکتے تھے نا !!

بالآخر سارا قصور عوام کا ہی نکل آتا ہے اور وہی اپنے کیے کو بھگت رہے ہیں اب، کچھ سیلاب میں بہہ گئے ہیں، کچھ ناقص عمارتوں کے گرنے سے کوچ کر گئے ہیں، حکومت قصور وار ٹھہرا رہی ہے دھرنوں والوں کو، انھیں بھی اب تک اس بات کا اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ان کے احتجاج غالباً بے حیثیت ہیں اس ملک میں جہاں ٹیلنٹ اور صلاحیت نہیں بلکہ پیسہ طاقت ہے... ہمیں اور انھیں علم ہو جانا چاہیے کہ ہم سب میراثی کے اس بیٹے کی طرح اپنے دلوں میں خواہشات پال رہے ہیں جس نے اپنی ماں سے پوچھا تھا، '' اماں !! چوہدری حاکم مرے گا تو اس کے بعد کون نمبر دار بنے گا؟ '' ماں نے کہا کہ اس کا بڑا بیٹا، اعظم! '' اور جب چوہدری اعظم مرے گا تو اس کے بعد؟'' ماں نے کہا اس کے بعد اس کا بیٹا، ناظم۔ '' اچھا... جس کی اب شادی ہوئی ہے، جب وہ مرے گا تو اس کے بعد اماں ؟ ''

'' جو بھی چوہدری ناظم کا بڑا بیٹا ہو گا ... '' ماں نے بتایا۔

''اس کی تو ابھی شادی ہوئی ہے اماں ، کیا معلوم کہ اس کے ہاں بیٹا ہی نہ ہو؟ ''

'' اس کے ہاں بیٹا نہ ہوا تو اس کا چھوٹا بھائی نمبر دار بن جائے گا... '' ماں نے وضاحت کی۔

'' اس کا ایک ہی چھوٹا بھائی ہے اماں ، کیا پتا وہ چوہدری ناظم سے پہلے ہی مر گیا تو پھر کون... ''

'' بس کر میرے پتر... '' ماں نے ہاتھ اٹھا کر اس کی بحث کو سمیٹا، '' تو اس بارے میں زیادہ نہ سوچا کر، چوہدری، اس کے بیٹے، اس کے پوتے، اس کے پوتوں کے پوتے اور ان کے پوتے تو کیا... سارا پنڈ بھی مر جائے میرے پتر... تو تو پھر بھی چوہدری نہیں بن سکتا!!!''

ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کی آڑ میں وہ چوہدراہٹ چل رہی ہے جس کی عمارت خاندانوں اور نسلوں کی حکمرانی کی بنیاد سے اٹھتی ہے... بی بی کی وفات پر ان کے شوہر کو علم ہو گیا تھا کہ ''بھٹو'' نام کی کیا اہمیت ہے ، اسے کیش کروانے کے لیے انھوں نے اعلان فرما دیا کہ اس دن سے بلاول کا نام بلاول زرداری نہیں بلکہ بلاول بھٹو زرداری ہو گا۔ ہمارے ہاں جن خاندانوں کو ہم پر حکومت کرنا ہے ان کی پوری پوری نسلوں کو آج سے علم ہے کہ یہ ملک ان کی ملکیت ہے اور ان کے آباء اس پر جمہوری بادشاہت کر کے گئے ہیں جو اپنی باری پر ان کی اولاد کو بطور وراثت مل جائے گی۔

ہم وہ قوم ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہماری حالت اس لیے نہیں بدلتی کہ ہم خود ہی اپنی حالت نہیں بدلنا چاہتے... یہ بات بھی درست ہے مگر قوم تبھی قوم کہلاتی ہے جب اسے وہ لیڈر مل جائے جو اسے قوم بنا دے ورنہ تو ہمارے کئی دانش ور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم قوم ہیں ہی نہیں، ہم ایک ہجوم ہیں، بڑھتی ہوئی آبادی کا ایک بم ہیں۔ اپنے بارے میں ایسے سنہری خیالات سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھی ان آفات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں، جب معلوم ہے کہ حکومتی وسائل محدود ہیں اور عوام حکومت کی ترجیحات میں سو میں سے پچاسویں نمبر پر بھی نہیں آتیں تو بہتر ہے کہ ہم آفت کی اس گھڑی میں آپس میں متحد ہو جائیں ... ہماری نجات صرف متحد ہونے میں ہے، آزما کر دیکھ لیں!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں