کنٹینر جمہوریت
کیماڑی کا 40 سالہ پرانا ساحل اس وقت گٹر بن چکا ہے جسکے اندر اگر پوری بھینس بھی پھینک دی جائے تو نظر نہیں آئے گی
پاکستانی یعنی ہم ایک عجیب وغریب قوم واقع ہوئے ہیں۔ اس لیے ہم نے کنٹینروں کا وہ استعمال کردکھایا ہے جسکے بارے میں دنیا کا کوئی مہذب ترقی یافتہ ملک تصور بھی نہیں کرسکتا۔
یہ خاصیت صرف ہمیں حاصل ہے کنٹینر جس کا تعلق صرف اور صرف معاشیات سے جڑا ہوا ہے اس کا تعلق ہم نے سیاسیات سے بھی جوڑ دیا ہے اور جب معیشت والی چیزوں کا تعلق معیشت سے ٹوٹ کر سیاست سے جڑ جائے تو اس سے سیاست پر تو مثبت اثرات نہیں پڑ سکتے لیکن معیشت بالکل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔
سنگاپور اور یورپ کے دل نیدرلینڈز کی بندرگاہیں دنیا میں سال بھر میں سب سے زیادہ تعداد میں کنٹینر بحری جہازوں سے لوڈ اور اَن لوڈ کرنے کی وجہ سے اپنا ثانی نہیں رکھتیں کیونکہ ان ممالک کی بندرگاہیں اپنی معیشتوں کی مضبوطی کا اظہار کنٹینروں کی لوڈ اَن لوڈ ہونے والی تعداد کے باعث کرتی ہیں۔ شنگھائی، ہانگ کانگ اور دوبئی کی بندرگاہیں ان ہی کنٹینروں کے ذریعے اپنی تجارتی آب وتاب قائم رکھے ہوئی ہیں۔
آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ کتنے لاتعداد لوگوں کا روزگار دنیا بھر میں ان کنٹینروں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں ہم کیماڑی کی بندرگاہ پر جب جاتے تھے تو وہ ڈبکی لگانے والے مشاق بچے چونی کا سکہ پانی میں پھینکنے پر اُسے پکڑ کر واپس پانی کی سطح پر آجاتے تھے جو اکثر ان ہی بچوں کو انعام کے طور پر دے دیا جاتا تھا۔
پانی اس قدر صاف وشفاف ہوتا تھا کہ چونی کا سکہ گرانے والا اُوپر سے اسے پانی کی تہہ میں نیچے جاتے ہوئے دیکھ سکتا تھا اور مشاق بچے کی اس کے پیچھے چھلانگ اور اس سکے کی تلاش کی تگ و دو کو خود اپنی ننگی آنکھوں سے تقریباً دس فٹ کی بلندی سے صاف صاف دیکھ سکتا تھا۔ کیماڑی کا وہی چالیس سالہ پرانا ساحل اس وقت گٹر بن چکا ہے جس کے اندر اگر پوری کی پوری بھینس بھی پھینک دی جائے تو نظر نہیں آئے گی۔ صرف یہی ایک مثال ہمارے مضحکہ خیز زوال پر دلیل کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔ سنگا پور کی بندر گاہ آج بھی کیماڑی کی اُس وقت کی صاف شفاف بندرگاہ کا منظر پیش کرتی ہے جیسے دیکھ کر ایک پاکستانی سوائے کف افسوس ملنے کے اور کچھ نہیں کرسکتا۔
یہ بات نہیں ہے کہ کیماڑی کی بندرگاہ اب صاف نہیں ہوسکتی۔ اب جب کہ دنیا بھر کے جہاز اپنا گندہ تیل کراچی کی بندرگاہ پر پھینک جاتے ہیں کیونکہ دنیا کی کسی اور بندرگاہ میں وہ ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے اس کے باوجود ہم بدل سکتے ہیں۔
سنگاپور لالوکھیت جتنا بڑا ملک ہے اس کے باوجود سنگاپوریوں کے عزم صمیم نے ان کی بندرگاہ کو دنیا کی مصروف ترین بندرگاہ بنا دیا ہے۔ ان کے پاس زمین نہیں ہے وہ سمندر کے اندر ملائشیا سے مٹی خرید کر سمندر میں ڈال کر اپنی زمین بڑھاتے رہے ہیں۔ ہمیں اللہ نے بارہ سو کلو میٹر سے بڑی ساحلی پٹی عطا کر رکھی۔آج گوادر کی بندر گاہ سے خلیجی ریاستیں خوف زدہ ہیں کیونکہ اگر یہ بندر گاہ پاکستان کے عوام اور بلوچستان کے لوگوںکی امنگوں کے مطابق تعمیر کردی گئی تو پاکستان دنیا بھر میں بہترین محفوظ ترین اور سستی ترین آبی گذرگاہ کا حامل ملک بن جائے گا۔ جنرل مشرف کے دور میں اس جانب پیش قدمی کا ہلکا سا اشارہ دیا گیا تھا اور دوست دشمن سارے ہمار ے درپے ہوگئے تھے۔
فریادیں ان ہی لوگوں کے اندوہ ناک کرب کا اظہار ہیں جنھوں نے کراچی اور گوادر کی بندر گاہوں کے کنٹینروں سے سڑکیں اور راستے بند کرنے کا وہ استعمال متعارف کرایا ہے جس کا کوئی مہذب ملک متحمل نہیں ہوسکتا ۔ ہمیں تاریخ معاف نہیں کریگی کہ اپنی سیاست اور مضحکہ خیز جمہوریت بچانے کے لیے ان کنٹینروں کا سہارا لیا ہے جن کا اصلی حق استعمال پاکستان کی بندرگاہوں کا تھا سڑکوں گلیوں چوراہوں اور دھرنوں کا نہیں۔ حیرت ہے جو حکومت معاشی استحکام لانے کا راگ الاپتی رہتی ہے وہ کنٹینروں کے ذریعے پورے پورے شہروں کی ناکہ بندی کرکے کونسی معاشی ترقی لاسکتی ہے۔
یہ خاصیت صرف ہمیں حاصل ہے کنٹینر جس کا تعلق صرف اور صرف معاشیات سے جڑا ہوا ہے اس کا تعلق ہم نے سیاسیات سے بھی جوڑ دیا ہے اور جب معیشت والی چیزوں کا تعلق معیشت سے ٹوٹ کر سیاست سے جڑ جائے تو اس سے سیاست پر تو مثبت اثرات نہیں پڑ سکتے لیکن معیشت بالکل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔
سنگاپور اور یورپ کے دل نیدرلینڈز کی بندرگاہیں دنیا میں سال بھر میں سب سے زیادہ تعداد میں کنٹینر بحری جہازوں سے لوڈ اور اَن لوڈ کرنے کی وجہ سے اپنا ثانی نہیں رکھتیں کیونکہ ان ممالک کی بندرگاہیں اپنی معیشتوں کی مضبوطی کا اظہار کنٹینروں کی لوڈ اَن لوڈ ہونے والی تعداد کے باعث کرتی ہیں۔ شنگھائی، ہانگ کانگ اور دوبئی کی بندرگاہیں ان ہی کنٹینروں کے ذریعے اپنی تجارتی آب وتاب قائم رکھے ہوئی ہیں۔
آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ کتنے لاتعداد لوگوں کا روزگار دنیا بھر میں ان کنٹینروں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں ہم کیماڑی کی بندرگاہ پر جب جاتے تھے تو وہ ڈبکی لگانے والے مشاق بچے چونی کا سکہ پانی میں پھینکنے پر اُسے پکڑ کر واپس پانی کی سطح پر آجاتے تھے جو اکثر ان ہی بچوں کو انعام کے طور پر دے دیا جاتا تھا۔
پانی اس قدر صاف وشفاف ہوتا تھا کہ چونی کا سکہ گرانے والا اُوپر سے اسے پانی کی تہہ میں نیچے جاتے ہوئے دیکھ سکتا تھا اور مشاق بچے کی اس کے پیچھے چھلانگ اور اس سکے کی تلاش کی تگ و دو کو خود اپنی ننگی آنکھوں سے تقریباً دس فٹ کی بلندی سے صاف صاف دیکھ سکتا تھا۔ کیماڑی کا وہی چالیس سالہ پرانا ساحل اس وقت گٹر بن چکا ہے جس کے اندر اگر پوری کی پوری بھینس بھی پھینک دی جائے تو نظر نہیں آئے گی۔ صرف یہی ایک مثال ہمارے مضحکہ خیز زوال پر دلیل کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔ سنگا پور کی بندر گاہ آج بھی کیماڑی کی اُس وقت کی صاف شفاف بندرگاہ کا منظر پیش کرتی ہے جیسے دیکھ کر ایک پاکستانی سوائے کف افسوس ملنے کے اور کچھ نہیں کرسکتا۔
یہ بات نہیں ہے کہ کیماڑی کی بندرگاہ اب صاف نہیں ہوسکتی۔ اب جب کہ دنیا بھر کے جہاز اپنا گندہ تیل کراچی کی بندرگاہ پر پھینک جاتے ہیں کیونکہ دنیا کی کسی اور بندرگاہ میں وہ ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے اس کے باوجود ہم بدل سکتے ہیں۔
سنگاپور لالوکھیت جتنا بڑا ملک ہے اس کے باوجود سنگاپوریوں کے عزم صمیم نے ان کی بندرگاہ کو دنیا کی مصروف ترین بندرگاہ بنا دیا ہے۔ ان کے پاس زمین نہیں ہے وہ سمندر کے اندر ملائشیا سے مٹی خرید کر سمندر میں ڈال کر اپنی زمین بڑھاتے رہے ہیں۔ ہمیں اللہ نے بارہ سو کلو میٹر سے بڑی ساحلی پٹی عطا کر رکھی۔آج گوادر کی بندر گاہ سے خلیجی ریاستیں خوف زدہ ہیں کیونکہ اگر یہ بندر گاہ پاکستان کے عوام اور بلوچستان کے لوگوںکی امنگوں کے مطابق تعمیر کردی گئی تو پاکستان دنیا بھر میں بہترین محفوظ ترین اور سستی ترین آبی گذرگاہ کا حامل ملک بن جائے گا۔ جنرل مشرف کے دور میں اس جانب پیش قدمی کا ہلکا سا اشارہ دیا گیا تھا اور دوست دشمن سارے ہمار ے درپے ہوگئے تھے۔
فریادیں ان ہی لوگوں کے اندوہ ناک کرب کا اظہار ہیں جنھوں نے کراچی اور گوادر کی بندر گاہوں کے کنٹینروں سے سڑکیں اور راستے بند کرنے کا وہ استعمال متعارف کرایا ہے جس کا کوئی مہذب ملک متحمل نہیں ہوسکتا ۔ ہمیں تاریخ معاف نہیں کریگی کہ اپنی سیاست اور مضحکہ خیز جمہوریت بچانے کے لیے ان کنٹینروں کا سہارا لیا ہے جن کا اصلی حق استعمال پاکستان کی بندرگاہوں کا تھا سڑکوں گلیوں چوراہوں اور دھرنوں کا نہیں۔ حیرت ہے جو حکومت معاشی استحکام لانے کا راگ الاپتی رہتی ہے وہ کنٹینروں کے ذریعے پورے پورے شہروں کی ناکہ بندی کرکے کونسی معاشی ترقی لاسکتی ہے۔