سندھ بچاؤ براعظم بچاؤ

جویو ایک ایسے دانشور ہیں، جنھوں نے تقسیم ہند سے قبل ہی،اپنے عالمانہ تجزیوں کے ذریعے قیام پاکستان سے قبل ہی یہ بتا ...


Muqtida Mansoor September 15, 2014
[email protected]

ابراہیم جویو سندھ دھرتی کا جھومر ہیں۔ وہ ایک ایسے ہمہ جہت دانشور ہیں، جنھوں نے سندھی ادب، ثقافت اور تاریخی ورثہ کے فروغ اور تحفظ کے لیے اپنی زندگی کے طویل ماہ و سال وقف کیے ہیں۔ ان کی صد سالہ سالگرہ گزشتہ ماہ سندھ کے طول و عرض میں منائی گئی۔ مگر سندھ سے باہر بہت کم لوگ ان کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کے بارے میں جانتے ہیں۔

ان ہی پر کیا موقوف ہمارے یہاں تعلیمی نظام اس انداز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ علاقائی زبانوں کے دانشوروں اور قلمکاروں کا قومی سطح پر تعارف ممکن نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں مقامی زبانوں کو اہمیت دینے، ان میں تخلیق پانے والے ادب کو دیگر زبانوں میں منتقل کر کے مختلف لسانی گروہوں تک ان تخلیقات کی رسائی کو یقینی بنانے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ حکومتی اشرافیہ کے رویے کا نقصان صرف مقامی زبانوں ہی کو نہیں پہنچ رہا، بلکہ خود قومی زبان اردو کی نشوونما بھی اس روش و رجحان کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔

بات ہو رہی تھی ابراہیم جویو کے مقالے کی۔ جویو ایک ایسے دانشور ہیں، جنھوں نے تقسیم ہند سے قبل ہی،اپنے عالمانہ تجزیوں کے ذریعے قیام پاکستان سے قبل ہی یہ بتا دیا تھا کہ صرف سندھ ہی نہیں بلکہ برصغیر کے پورے سماج کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جاگیردارانہ کلچر کی مضبوط گرفت ہے۔ اس لیے ان کا موقف ہے کہ جب تک اس کلچر سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاتا، غربت و افلاس کی زنجیروں میں جکڑے عام آدمی کی زندگی میں آسودگی اور خوشحالی کا تصور محض خواب و خیال ہے۔

یہ ان کے خیالات و تصورات کی ایک معمولی سی جھلک ہے۔ ان کا تحقیقی و تخلیقی کام علم و ادب کے ہر شعبے میں نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط ہے، جس کا احاطہ ایک اظہاریے میں ممکن نہیں۔ اس مقصد کے لیے کئی سلسلہ وار اظہاریے درکار ہیں۔ لیکن وہی معاملہ کہ ان کا بیشتر کام سندھی زبان میں ہونے کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں میں ان کی تحقیقات و تخلیقات کے بارے میں آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

لیکن اس وقت ان کے جس مقالے پر گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں، وہ تقسیم ہند سے ذرا قبل 1947کے اوائل میں انگریزی زبان میں تخلیق کردہ ان کی کتاب "Save Sindh, Save Continent" ہے۔ اس کتاب کا پس منظر یہ ہے کہ سندھ کے عوام کی 70 برس پر محیط طویل اور پرامن جدوجہد کے نتیجے میں 1935 میں سندھ کو بمبئی پریزیڈنسی سے علیحدگی کی شکل میں کسی حد تک آزادی نصیب ہوئی تھی۔ لیکن 1937 اور پھر 1946کے عام انتخابات میں منتخب ہونے والے پیشہ ور سیاستدانوں نے سندھ کے مفادات کو طاق نسیاں کر کے اپنے ذاتی مفادات کے لیے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا۔

یہ صورتحال ابراہیم جویو جیسے باشعور قوم پرست اور روشن دماغ مفکر کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ ان کے ذہن رسا نے محسوس اور دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا کہ صرف سندھ ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں موجود جاگیردارانہ نظام عوام کے مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی سوچ کا مرکز سندھ تھا، لیکن وہ پورے برصغیر کے غریب انسانوں کے لیے پریشان تھے۔ یہی سبب تھا کہ انھوں نے نوجوانوں کو ایک نئی سوچ اور ایک نیا آدرش دینے کے لیے یہ مقالہ تحریر کیا۔

ابراہیم جویو ایک ترقی پسند اور باشعور قوم پرست دانشور ہیں۔ ان کا سیاسی و سماجی وژن انھیں اکساتا رہتا ہے کہ وہ ان حقائق کو بیان کریں، جو انسانی سماجوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی قوم کو ان تحاریک کے تجربات سے بھی آگاہ رکھنا چاہتے ہیں، جو دنیا بھر میں انسانی معاشروں نے اپنی ترقی کے لیے کیں۔ یہ مقالہ تحریر کرتے وقت ان کے ذہن میں ان گنت سوالات تھے، جن کا تخاطب گو کہ سندھ تھا، لیکن محور پورا برصغیر رہا ہے۔

ان کی جانی مانی سوچ یہ رہی ہے کہ پاکستان کے دستوری ڈھانچے میں وفاق میں شامل تمام اکائیوں اور وحدتوں کو اگر مکمل تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو بالخصوص سندھی عوام کے آزادی کی نعمتوں سے محروم ہو جانے کے واضح خطرات موجود ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب وفاقی اکائی یا وحدت کی بات کی جاتی ہے تو کسی اکائی کو اپنی آبادی یا رقبہ کی بنیاد پر دوسری اکائی پر برتری حاصل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تمام اکائیوں کے سیاسی حقوق یکساں ہونے چاہئیں۔

اسی طرح ان کے درمیان ہم آہنگی اور بہتر تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔ وہ اس وقت بھی یہ چاہتے تھے (قیام پاکستان سے قبل) اور آج بھی ان کی خواہش ہے کہ تمام وفاقی اکائیوں کو اپنے قدرتی وسائل اور ذرایع پیداوار پر مکمل اختیار ہو، تا کہ ہر اکائی وفاقی نظام کو چلانے کے لیے کچھ وسائل وفاق کو تفویض کرے نہ کہ وفاق ان کے وسائل پر قابض ہو۔ ان کی یہ بھی خواہش رہی ہے کہ سندھ کی متروکہ زمینیں سب سے پہلے سندھ کے بے زمین ہاریوں میں تقسیم کی جائیں، اس کے بعد انھیں کسی دوسرے مصرف میں لایا جائے۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جن معاملات و مسائل کی نشاندہی جویو صاحب نے قیام پاکستان سے قبل کی تھی، ان پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے آج پاکستان مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہے۔ اگر قیام پاکستان کے بعد جمہوریت اور وفاقیت کے تصور پر سنجیدگی اور نیک نیتی کے ساتھ عمل کر لیا جاتا، تو ملک کی مختلف وفاقی اکائیوں کو شکایت کا موقع نہ ملتا۔ اسی طرح وفاق میں شامل اکائیوں کی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دے کر اردو کو رابطہ کی زبان قرار دیا جاتا تو ملک میں لسانی آویزش کی موجودہ صورتحال پیدا نہیں ہوتی۔

اسی طرح جویو صاحب یہ بھی سمجھتے ہیں کہ 1940 کی قرارداد لاہور کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پاکستان میں مسائل نے بحرانی شکل اختیار کی ہے۔ کیونکہ قرارداد لاہور ایک آزاد اور خودمختار وفاقی یونٹ کے قیام کی دلالت کرتی ہے، جب کہ 1946میں اس اصول کی تبدیلی اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو وفاق کے بجائے وحدانی ریاست بنانے کی کوشش نے معاملات کو مزید الجھا کر پیچیدہ بنا دیا ہے۔

اس کتاب کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا مرتکز اور مخاطب بے شک سندھ کا نوجوان ہے۔ لیکن اس کتاب میں پورے برصغیر کے شہریوں کے لیے غور و فکر کے کئی زاویے موجود ہیں۔ جو انھیں ایک حقیقی جمہوری معاشرے کی تشکیل کے ذریعے اپنے حقوق کے حصول کی راہ سجھاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہم زندگی کی حقیقتوں سے نظریں چرانے کے عادی ہو جانے کی وجہ سے فریب نظر کا شکار ہوچکے ہیں۔

اس لیے ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے خود کو محفوظ کر لیا ہے۔ حالانکہ اپنے رویوں کے سبب ہم غیر محفوظ ہی نہیں بلکہ ہر آنے والے دن زد پذیر (Fragile) ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ذہنوں میں نہ جانے کیوں یہ بات راسخ ہو گئی ہے یا کر دی گئی ہے کہ اس خطے کی مقامی زبانوں کا باہمی میل ملاپ اشرافیہ کے متعین کردہ فکری رجحان کی نفی کا سبب بن جائے گا۔

اس عمل کا نقصان خطے کی زبانوں کو تو پہنچ ہی رہا ہے، لیکن خود قومی زبان کی نشوونما بھی اس رویے کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ اگر اردو میں عربی فارسی کی غیر ضروری بھرمار کے بجائے مقامی زبانوں کے الفاظ، اصطلاحات، استعارے اور محاورے شامل ہونے لگیں تو اس کا دامن مزید وسیع ہو کر حقیقی معنی میں عوامی زبان بن سکتی ہے۔ مگر لڑائو اور حکومت کرو پر یقین رکھنے والی اشرافیہ کو ان اقدامات سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔

بہر حال پھر کتاب کی طرف آتے ہیں۔ اس کتاب کا سندھی زبان میں ترجمہ معروف ترقی پسند دانشور امان اﷲ شیخ نے کیا ہے۔ امان اﷲ شیخ خود بھی سندھی زبان کے روشن خیال اور واضح سماجی شعور رکھنے والے دانشور ہیں۔ انھوں نے کئی اہم موضوعات پر طبع زاد کتب تحریر کرنے کے علاوہ کئی کتابوں کو سندھی کے قالب میں ڈھالا ہے، جو ان کے وسیع مطالعہ، فکری وسعت و پختگی اور علم و ادب سے ان کی وابستگی کا منہ بولتا اظہار ہے۔ ابراہیم جویو کے اس تحقیقی مقالے کو انھوں نے انتہائی محنت و مشقت کے ساتھ سندھی زبان کے قالب میں ڈھالا ہے۔

جو لوگ سندھی زبان و ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ تسلیم کریں گے کہ شیخ صاحب نے ترجمہ کرتے وقت انگریزی اور سندھی دونوں زبانوں کے مزاج کو مدنظر رکھنے کے ساتھ جویو صاحب کے فکری رویوں اور رجحانات کو بھی سامنے رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ انگریزی سے سندھی میں ترجمہ ہے، بلکہ سندھی میں طبع زاد تحریر محسوس ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ایسی تحاریر کا اردو میں بھی ترجمہ کیا جائے تو یہ ملک بھر کے عوام کے سیاسی و سماجی شعور میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں