اگلا سیلاب کہیں زیادہ تباہ کن ہوگا

جانی نقصان علیحدہ اور ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔...

لاہور/KARACHI:
پاکستان ایک بار پھر بدترین سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ ماہرین کے مطابق بارشوں اور سیلاب سے پنجاب میں ابتدائی تخمینے کے مطابق 50 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ سیلاب سے تقریباً سوا لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔جب یہ سیلاب ملتان میں تباہی مچاتا ہوا سندھ میں داخل ہو گا تو اس کی تباہی کئی گنا بڑھ چکی ہو گی۔ ادھر آزاد کشمیر میں بھی سیلاب نے سو سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے جس میں سوا سو سے زائد گاؤں تباہ اور سیکڑوں کلو میٹر سڑکیں اور رابطہ سڑکیں تباہ ہو گئیں۔

جانی نقصان علیحدہ اور ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ جب کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی سیلاب نے بہت بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی۔ کشمیر کی 50 سالہ تاریخ میں ایسے سیلاب کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے کشمیر کے دونوں حصوں میں بارشوں نے اس بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے جس کی پچھلی کئی دہائیوں میں مثال نہیں ملتی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے فوری طور پر کشمیر کا دورہ کر کے دس ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔

سری نگر اور دوسرے شہروں میں سیلاب کی یہ صورتحال ہے کہ وہاں اہم سرکاری اور فوجی عمارتوں میں آٹھ فٹ تک پانی کھڑا ہے۔ اس موقعہ پر پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے سیلاب زدگان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو ہر طرح کے امداد و تعاون کی پیش کش کی ہے۔ نریندر مودی نے بذریعہ خط اپنے پیغام میں کہا ہے کہ میرا دل متاثرین کے ساتھ دھڑک رہا ہے۔

میری گہری ہمدردی متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہے۔ مودی کا کہنا تھا کہ انسانی ہمدردی کا کام ہے اور انڈیا اس کے کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس مشکل گھڑی میں آپ کو جس طرح کی مدد کی ضرورت ہو ہم کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اپنی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں دونوں جانب سیلاب سے قیمتی جانوں کے ضیاع پر حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کو سخت صدمہ ہے۔ نواز شریف نے بھارت کو پیش کش کی کہ پاکستان متاثرین سیلاب کی مدد کے لیے بھارت کی مدد کرنا چاہتا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ 1960میں طے پایا جس پر صدر ایوب خان اور وزیر اعظم نہرو نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان راوی، ستلج اور بیاس کے پانیوں سے دستبردار ہو گیا۔ اب وہ صرف جہلم چناب اور سندھ کا پانی استعمال کر سکتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے اپنے دریائوں پر سیکڑوں ڈیم تعمیر کیے جس کے نتیجے میں اس نے نہ صرف سیلاب کی تباہیوں کو کم سے کم کیا بلکہ اس فالتو پانی کو استعمال کر کے اپنی خوشحالی میں بھی اضافہ کیا جب کہ ایک طویل مدت ہو گئی ہے کہ پاکستان منگلا تربیلا کے بعد کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہ کر سکا۔

مون سون کی بارشوں سے اپنے ڈیم بھرنے کے بعد یہ قیمتی پانی بھارت سیکڑوں سال قدیم گزرگاہ سے پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے جو ہمارے لیے تباہی و بربادی کا باعث بنتا ہے۔ اگر ہم نے ڈیم بنائے ہوتے جن کو بنانے سے کسی نے نہیں روکا تو یہ قیمتی پانی ہمارے کسان استعمال کر کے اپنی اور پاکستان کی خوشحالی میں اضافہ کرتے تو سیلاب کی ہولناک تباہ کاریوں سے بھی بچ جاتے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ پاکستان میں بارشیں سارا سال نہیں ہوتیں۔ گنتی کے چند ماہ ہوتے ہیں جن میں بارشیں ہوتی ہیں۔اگر ہم نے ڈیم بنا کر اس پانی کو محفوظ کیا ہوتا تو ہمیں سردیوں میں پانی کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

جب سے پاکستان بنا ہے کم از کم دو درجن تباہ کن سیلابوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ 2010سے سیلاب مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ یہ سیلاب اتنا خوفناک تھا کہ اس سے پاکستان کو 43 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اندازہ کریں پاکستان جیسا غریب ملک اس کو آپ سو سے ضرب دیں تو آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔ یعنی ساڑھے چار ہزار ارب روپے۔ اس سیلاب سے دو کروڑ افراد متاثر ہوئے۔


2011کے سیلاب سے سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا جس میں لاکھوں افراد بے گھر اور 17 لاکھ ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں ڈوب گئیں۔ اسی سیلاب میں سندھ کے وڈیروں نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے ان جگہوں سے بند توڑے جہاں وہ خود تو بچ گئے لیکن غریب سندھی ڈوب گئے۔ اس کے بعد کے سالوں سے اب تک سیلاب مسلسل تباہی لا رہے ہیں۔

ماہرین ماحولیات نے اس پر تحقیق کی ہے کہ سیلاب اتنے زیادہ اور اتنی شدت سے کیوں آ رہے ہیں۔ اس کی وجہ دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں چار سے پانچ ڈگری اضافہ ہے جس کے نتیجے میں گلیشیئر پگھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ گرم آب و ہوا اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہمالیہ سے جڑے سندھ گنگا میں پانی کے بہائو میں 2050 تک اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس کے لیے جنگی سطح پر مؤثر پلاننگ اور اس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرے کون؟ ہمارے حکمرانوں کو عوام کی جان و مال سلامتی کا کتنا احساس ہے۔

اس کا ثبوت 2010 کے خونیں سیلاب کے بارے میں پنجاب فلڈ کمیشن کی رپورٹ ہے جس کے سربراہ جسٹس منصور علی شاہ تھے۔ یہ رپورٹ تیس ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں اس سیلاب کا ذمے دار پنجاب حکومت اور اعلیٰ افسران کو قرار دیا گیا۔ اس رپورٹ میں کمیشن نے اس وقت کے سیکریٹری آبپاشی کو برطرف کرنے اور مقدمات قائم کرنے کی سفارش کی تھی لیکن حکومت پنجاب نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے چھ ماہ بعد اگلے عہدے میں ترقی دے دی۔

کمیشن کی طرف سے اس سیلاب کے تمام تر نقصان کا ذمے دار محکمہ آبپاشی کو قرار دیتے ہوئے اس کے اعلیٰ افسران کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی کے علاوہ مقدمات قائم کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ کمیشن کی رپورٹ میں اس بات کی بھی نشان دہی کی گئی کہ وزیر اعلیٰ اور ان کے سیکریٹری شو آف کرنے کے لیے متاثرہ مقامات پر چلے جاتے تھے جس کی وجہ سے امدادی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ یہ رپورٹ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے حکمرانوں کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے موجودہ سیلاب کے حوالے سے کہا ہے کہ اگر میٹرو بس پر 40 ارب روپے لگانے کے بجائے یہی پیسے سیلاب کا پانی محفوظ کرنے والے ڈیموں پر لگا دیے جاتے تو آج پاکستان 200 ارب روپے کے نقصان سے محفوظ ہو سکتا تھا اور لاہور بھی نہ ڈوبتا۔

...2015 کا سیلاب ہو سکتا ہے کہ اب تک آنے والے سیلابوں میں سے سب سے خوفناک سیلاب ہو اور اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دے۔۔۔۔ اللہ نہ کرے

...14 سے 17-16 ستمبر تک بارشوں کا امکان ہے۔

سیل فون:0346-4527997۔
Load Next Story