ریاست کا بحران
ریاست کے ٹوٹنے کا عمل یہاں رہنے والا ہر شخص ہر روز محسوس کرسکتا ہے ....
NEW DELHI:
ریاست بنیادی طور پر جبر کا ادارہ ہے۔ یہ جبر کسی بھی ملک میں، کسی بھی صورت، کبھی بھی مسلط رہا ہو یا مسلط ہے، اس کے خلاف محنت کش عوام، کارکنان اور شہری ردعمل کرتے ہیں۔ آج کل پاکستان کی ریاست اسی زد میں ہے۔ پاکستانی ریاست کے بحران کی شدت بڑھتی جارہی ہے اور ریاست کی ٹوٹ پھوٹ اور بکھرنے کا عمل تیز تر ہوچکا ہے۔ ریاست کے تمام اداروں اور اداروں کے اندر معاشی مفادات پر بنے ہوئے دھڑوں کا ایک دوسرے سے ٹکرائو اور لڑائی بڑھتی جارہی ہے۔
ریاست کے ٹوٹنے کا عمل یہاں رہنے والا ہر شخص ہر روز محسوس کرسکتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب روز کا معمول بن چکا ہے، جس کی اذیت بڑھتی جارہی ہے۔ حکمران طبقے کا کوئی بھی فرد اس بدترین اذیت سے نجات کا کوئی راستہ نہیں بتا رہا اور نہ ہی ان کے پاس کوئی حل موجود ہے۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے لے کر صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں تک ہر جگہ ریاست ناکام نظر آتی ہے۔ تعلیم دینے کے بجائے اوزار تھما دیے جاتے ہیں اور محنت کی منڈی میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
اس وقت دھاندلی پر شور کیوں نہیں مچایا جاتا؟ کیونکہ اس وقت دولت مند افراد کے بچے امراء کے لیے مخصوص دوسرے تعلیمی اداروں میں اس طبقاتی نظام کو چلانے کی تربیت حاصل کررہے ہوتے ہیں۔ جب محنت کش کو بڑھاپے میں علاج کی سہولت نہیں ملتی اور وہ سرکاری اسپتالوں کی دہلیز پر پیسے نہ ہونے کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیتا ہے تو دھاندلی کا واویلا کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیونکہ دولت مند افراد پرائیوٹ اسپتالوں کے ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں زیر علاج ہوتے ہیں۔
کس محکمے، کس سڑک پر، کس گلی میں اور کس گھر میں دھاندلی نہیں ہورہی ہے۔ جب محنت کش اپنی محنت کا معاوضہ طلب کرتا ہے تو سرمایہ دار اس کی حقیقی اجرت ادا کرنے کے بجائے اس کو زندگی کی سانس جاری رکھنے کے لیے چند روپے تھما دیتا ہے اور باقی ساری زندگی محنت لوٹ کر تجوری میں جمع کرلیتا ہے۔ اس دھاندلی پر آہ و بکا کیوں نہیں کی جاتی؟ جب مزدوروں کے قوانین کی دھجیاں اڑا کر ان کی یونینوں پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں اور ان سے کم تنخواہ پر کام لیا جاتا ہے تو کوئی عدالت دھاندلی کا نوٹس کیوں نہیں لیتی؟
جب سرکاری تعلیمی اداروں کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کردیا جاتا ہے جس سے محنت کشوں کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں تو دھاندلی کی آواز کیوں نہیں بلند ہوتی؟ دھاندلی کی آواز صرف اس وقت بلند کی جارہی ہے جب حکمران طبقے کے ایک دھڑے کے مفادات کو ٹھیس پہنچی ہے اور دوسرے دھڑے سے بدلہ لینے کے لیے شور مچایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹ میڈیا اس کا مکمل ساتھ دے رہا ہے۔
اسی اسلام آباد میں جب پی ٹی سی ایل کے ہزاروں محنت کشوں نے مرکزی شاہراہ کو جام کردیا تھا اور اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگائے تھے تو کسی اخبار میں ایک سطر کی خبر بھی نہیں لگی تھی اور کسی نیوز چینل پر ایک سیکنڈ بھی اس واقعے کو نہیں دکھایا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو مطالبات اور تحریکیں اس نظام کو چیلینج کریں اور سرمایہ داروں کے منافعوں میں رکاوٹ پیدا کریں انھیں دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے جب کہ وہ مطالبات اور جعلی تحریکیں جو اس نظام کو عوام کے شعور پر مسلط کریں، انھیں ریاست اور حکمران طبقات خود ابھارتے ہیں۔
موجودہ حکومت میں عوام پر بدترین حملے کیے گئے جن میں بجلی اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ، لوڈشیڈنگ، ٹیکسوں میں بے تحاشا اضافہ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور کم از کم اجرت میں انتہائی کم اضافہ اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری شامل ہیں۔ اس صورتحال کے باعث عوام میں شدید بے چینی اور نفرت موجود تھی، جس کا اظہار بنوں، پختونخوا سے ایک اخبار فروش ریاض خان کے بھیجے گئے اس خط سے ہوتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ''سارا دن بنوں بازار میں سائیکل پر اخبار فروخت کرتا ہوں۔ ایک اخبار میں دو روپے بچتے ہیں اور سارے دن میں صرف 200 روپے بمشکل کما پاتا ہوں۔
ایک سال پہلے میرے بیٹے کو رات کے وقت اچانک سخت بخار ہوا ، چونکہ میں بنوں کے ایک پسماندہ گائوں میں رہتا ہوں وہاں پر صرف ایک کمپائونڈر کی دکان ہے، میں اپنے بیٹے کو وہاں لے گیا۔ کمپائونڈر نے میرے بیٹے کا بخار چیک کیا، بخار زیادہ تھا اس لیے اس نے انجکشن لگایا، جس سے بیٹے کا بخار اتر گیا، صبح کو میری بیوی نے مجھے اطلاع دی کہ لڑکے کی طبعیت خراب ہے، جب گھر آیا تو بیٹا چیخ رہا تھا کہ بابا مجھے کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ پھر سول اسپتال لے گیا، وہاں اس کا چیک اپ ہوا اور ڈاکٹروں کے بورڈ نے فیصلہ دیا کہ ایکسپائر انجکشن کی وجہ سے اس کی بینائی چلی گئی ہے۔ آئی اسپیشلسٹوں نے کہا کہ اس کی آنکھ کا آپریشن ہوگا اور اس پر ایک لاکھ بیس ہزار روپے خرچ آئیں گے۔'' اب بھلا یہ اخبار فروش جس کی روز کی کمائی صرف دو سو روپے ہے، کہاں سے بچے کا علاج کروائے؟
اگر حقیقی نعروں کے ساتھ اور ایک انقلابی پروگرام کے ساتھ کوئی قوت حکومت کے خلاف تحریک چلاتی تو بہت بڑی عوامی حمایت حاصل کی جاسکتی تھی۔ لیکن رائج الوقت سیاسی جماعتوں کے قائدین جانتے ہیں کہ حقیقی نعروں پر تحریک کا آغاز تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا انجام پھر محنت کش عوام خود کرتے ہیں۔ اس لیے انتہائی محتاط طریقے سے ایسے مطالبات اور نعرے سامنے لائے گئے جن کا بنیادی مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ جب پاکستان کے محنت کش انقلاب کے میدان میں قدم رکھیں گے تو کسی ٹی وی پر، کسی اخبار میں اعلان کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، کوئی بینر نہیں لگے گا اور کسی کنٹینر کا انتظام کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ہر گلی، ہر شہر، فیکٹری، ہر تعلیمی ادارے، ہر کھیت اور کھلیان میں محنت کشوں کی ایک وسیع تعداد اس نظام اور اس کے بنیادی رشتوں کو چیلینج کرے گی۔ محنت کشوں کا حقیقی انقلاب کسی عدالت، کسی پارلیمنٹ، کسی قانون اور کسی ریاست کا خیال نہیں کرے گا بلکہ اس طبقاتی نظام کے خاتمے کی جانب بڑھے گا جو اس اذیت بھری زندگی سے نجات کا واحد راستہ ہے۔ پھر ایک ایسا امداد باہمی کا سماج قائم ہوگا جہاں کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہوگا۔