جمہوری دھاندلیاں و مالیاتی گھپلے

امیر قوم دھاندلیوں سے الیکشن جیت کر اقتدار پر قابض ہوتی ہے۔....


خالد گورایا September 15, 2014
[email protected]

آج ہر غریب شہری یہی کہہ رہا ہے کہ حکمران عوام کی معاشی بدحالی کے ذمے دار ہیں۔ 1947 سے لے کر 2014 اگست تک ''امیر قوم'' مسلسل جمہوریت اور آمریت کے ذریعے ملکی وسائل پر قابض چلی آرہی ہے، ''غریب قوم'' کا کبھی بھی ایک فرد کسی بھی اعلیٰ عہدے اور اقتدار کی کرسی پر نہیں بیٹھا ہے۔ جمہوریت میں ''غریب قوم'' کا ایک فرد کبھی بھی الیکشن نہیں جیت سکتا ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں کے خوف سے ''امیر قوم'' کے نمایندے ''جمہوری چراغ'' کو ہر حالت میں اپنے ہاتھوں میں جلتے رکھنا چاہتے ہیں۔ اس ''جمہوری چراغ'' میں کیا خوبی ہے کہ امیر قوم اس کے لیے پریشان ہے۔

امیر قوم دھاندلیوں سے الیکشن جیت کر اقتدار پر قابض ہوتی ہے۔ اختیارات کے استعمال سے ''امیر قوم'' ''غریب عوام'' کا سرمایہ کس طرح لوٹ رہی ہے۔ کتاب Pakistan Economic Survey 2013-14 جسے فنانس ڈویژن حکومت پاکستان اسلام آباد نے شایع کیا۔ اس کے صفحہ119 کے مطابق حکمرانوں نے سامراجی اداروں سے 2012-13 تک 88 ارب 95 کروڑ ڈالر کا قرض منظور کرایا۔ اس میں سے صرف اسی مدت کے دوران 29 ارب 68 کروڑ 40 لاکھ ڈالر نقد وصول کیے۔

اس مجموعی قرضے میں سے بروقت اصل زر کی مد میں 38 ارب 74 کروڑ 10 لاکھ ڈالر اور سود کی مد میں بروقت 20 ارب 52 کروڑ 50 لاکھ ڈالر قرضے میں سے کٹوادیے گئے۔ دونوں مدوں یعنی سود و اصل زر کا ٹوٹل 59 ارب 26 کروڑ60 لاکھ ڈالر بنتا ہے اور غریب عوام پر سامراجی قرض ادائیگی کا بوجھ 50 ارب 20 کروڑ 90 لاکھ ڈالر موجود رہا۔ کتنی بے حسی ہے کہ منظور شدہ یا حاصل شدہ قرض Disbursement میں سے صرف 33.37 فی صد قرض بروقت نقد وصول کیا گیا اور 66.63 فی صد قرض لیا ہی نہیں گیا۔ یہ بات صحیح ثابت ہوتی ہے کہ بے حس حکمرانوں نے ''مال مفت دل بے رحم'' کا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔ ان کے گھر سے قرض ادائیگی تو ہوتی نہیں۔ بوجھ تو غریب عوام نے اٹھانا ہے۔ یہ ڈالر امیر قوم کے حکمرانوں نے خود استعمال کرلیے۔

متذکرہ کتاب کے صفحہ60 پر مالی سال 2012-13 کے لیے حکمرانوں نے غریب عوام سے ملکی اور سامراجی قرضوں کی سود ادائیگی کے لیے 10 کھرب (پانچ) 5ارب 79 کروڑ 80 لاکھ روپے ٹیکس لگاکر وصول کیے۔ اب امیر قوم کے حکمرانوں کی مالیاتی دھاندلی دیکھیے۔ اسی کتاب کے صفحہ119 پر سامراجی قرضہ مالی سال 2012-13 میں لیتے وقت سود 709.0 ملین ڈالر اور اصل زر 1903.0ملین ڈالر بروقت منظور شدہ قرض 2643.0 ملین ڈالر سے کٹواکر باقی حکمرانوں نے 31.0 ملین ڈالر نقد وصول کیے تھے اور اسی کتاب کے صفحہ114 پر مالی سال 2012-13 میں ڈالر کی قیمت اوسطاً 96.7272 روپے تھے۔

وصول شدہ قرض کی روپے میں مالیت 2 ارب 99 کروڑ 85 لاکھ 43 ہزار 2 سو روپے تھی۔ متذکرہ کتاب کے صفحہ61 پر حکمرانوں نے غریب عوام سے غیر ملکی قرض کی ادائیگی کے لیے 2 کھرب 88 ارب 48 کروڑ 60 لاکھ روپے وصول کیے تھے اور اسی مدت کے دوران حکمرانوں نے سامراجی قرض لیتے وقت 2612.0 ملین ڈالر بروقت قرضے میں سے کٹوا دیے تھے جن کی مالیت روپے میں 2 کھرب 52 ارب 65 کروڑ 14 لاکھ ڈالر بنتی تھی اور مالیاتی دھاندلی اور ہیر پھیر کرکے عوام سے 288486.0 ملین روپے مالی سال 2012-13 کے بجٹ کے دوران وصول کیے گئے اور ان روپے کو اگر اوپن مارکیٹ میں اس وقت روپے کی قیمت 96.72 روپے فی ڈالر میں تبدیل کیا جاتا ہے تو اس رقم کے بدلے 2 ارب 98 کروڑ 24 لاکھ 70 ہزار 2سو 88 ڈالر بنتے ہیں۔

یہ ڈالر یا روپے حکمرانوں نے دھاندلی کرکے ہڑپ کرلیے۔ جمہوری چراغ دراصل ان حکمرانوں کے تن بدن کے درمیان جان کا رشتہ ہے۔ امیروں کی جمہوریت گل ہوگئی تو ان کی دھاندلیاں ختم ہونے سے ان کی عیاشیاں ختم ہوجائیں گی۔

اسی کتاب کے صفحہ132 پر مالی سال 1990 سے 2013 تک کے قرضوںکے اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔ 1990 میں ملکی قرضہ 3 کھرب 74 ارب روپے 1995 میں 7 کھرب 90 ارب روپے،2000 میں 15 کھرب 76 ارب روپے، 2008 میں 32 کھرب 66 ارب روپے 2009 میں 38 کھرب 52 ارب روپے، 2010 میں 46 کھرب 51 ارب روپے، 2011 میں 60 کھرب 51 ارب روپے، 2012 میں 76کھرب 37 ارب روپے، 2013 میں 95کھرب 17 ارب روپے اور غیر ملکی قرضہ 1990 میں 4کھرب28 ارب روپے، 1995 میں 8کھرب 73 ارب روپے، 2000 میں 14 کھرب42 ارب روپے، 2005 میں 19 کھرب 13 ارب روپے، 2008 میں 27 کھرب 78 ارب روپے، 2009 میں 37 کھرب76 ارب روپے، 2010 میں 42 کھرب 60 ارب روپے، 2011 میں 46 کھرب 85 ارب روپے، 2012 میں 50کھرب 16 ارب روپے، بیرونی Long Term قرضہ لیتے وقت بروقت اصل زر اور سود کٹوادیا جاتا ہے اور 1990 کے بعد IMF نے قرض ادائیگی کے لیے بھی قرضہ دینا شروع کیا۔

اس طرح مزید قرضہ مہنگا ہونے پر حکمرانوں نے کوئی مثبت پالیسی نہیں بنائی کہ عوام پر بوجھ کم ہو۔ بلکہ تمام پالیسیاں غریب عوام دشمنی پر بنائی گئیں۔ عوام خودکشیاں کرتے اور بھوکے مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ امیر قوم کے حکمران اپنی عیاشیاں ہر حالت میں برقرار رکھتے ہیں۔ اس بات سے ان حکمرانوں کی ملک و عوام سے '' محبت'' کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ 1998 میں عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم 1.65 ڈالر فی بیرل تھا۔ پاکستان کا 3.308 روپے کاایک ڈالر تھا پاکستان پٹرول 5.46 روپے کا فی بیرل لے رہا تھا۔ اور 8 ستمبر 2014 کو عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم 02.02 ڈالر فی بیرل تھا اور پاکستان کے 101.850 روپے کا ایک ڈالر تھا۔

پاکستان کو یہ پٹرولیم10 ہزار 3 سو 91 روپے کا لینا پڑا پاکستان کے لیے پٹرولیم 190211.35 فی صد مہنگا کردیا گیا اور یورپی ملکوں اور ڈالر کے برابر کرنسیوں کے لیے پٹرولیم 6 ہزار 83 فی صد مہنگا ہوا۔ اس طرح آج امیر قوم کے لیے مہنگا کر دیا گیا اور یورپی ملکوں اور ڈالر کے برابر کرنسیوں کے لیے پٹرولیم 6 ہزار 83 فیصد مہنگا ہوا۔ اس طرح آج امیر قوم کے لیے مہنگائی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے کیوں کہ اس طبقے کے پاس افراطِ زر ہے، غریب عوام کے لیے سامراجیوں اور ملکی امیر قوم نے حکمرانوں کی زندگی کا ہر دروازہ بند کر دیا ہے۔

عوام کو اپنا مقدر بدلنے کے لیے خود میدان میں اترنا ہوگا۔ کوئی لیڈر عوام کی تقدیر نہیں بدل سکتا ہے ۔ عوام کو اپنی تقدیر بدلنے کے لیے ''انقلابی معاشی آزادی'' ان ظالموں سے چھیننی ہوگی۔ کیونکہ ڈاکو اور لٹیرے کبھی بھی عوام کو معاشی آزادی دینے کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ انقلاب تو سر لینے اور سر دینے کا نام ہے۔ یہ سودا آج بھی کرنا، کل بھی کرنا ہے۔ کسی نہ کسی دن تو کرنا ہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔