سیاسی جرگے نے مسئلے کے حل کیلئے بامقصد مذاکرات کیے جو سود مند نہیں ہوسکے سراج الحق
دھرنا چاہے 100 دن مزید کیوں نہ چلے لیکن اس کے نتیجے میں جمہوریت کا خاتمہ نہیں ہونا چاہئے، امیر جماعت اسلامی
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں تینوں فریقین اور قوم مشکل سے دوچار ہیں جبکہ ہم نے مسئلے کے حل کے لیے بامقصد مذاکرات کیے جو سود مند نہیں ہوسکے۔
لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ ایک مہینے سے دارالحکومت دھرنوں کے محاصرے میں ہے، موجودہ صورتحال میں دھرنے والی جماعتوں اور حکومت سمیت قوم مشکل سے دوچار ہیں اور ہم انہیں اس مشکل سے نکالنا چاہتے ہیں جس کے لیے فریقین سے بامقصد مذاکرات کیے جو سود مند نہیں ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ تمام جماعتوں نے سیاسی جرگے کو ڈیڈلاک کے خاتمے کا ٹاسک دیا تھا تاکہ تمام جماعتیں مذاکرات کی میز پر آئیں جس کے بعد سیاسی جرگے کی جدوجہد سے فریقین کے درمیان مذاکرات کے 15 دور ہوئے جس میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے استعفے کے علاوہ تمام نکتوں پر اتفاق رائے ہوچکا تھا جبکہ استعفوں کے معاملے پر جرگے نے فریقین کو تجویز دی تھی اور اس پر سوچ بچار کے بعد جواب دینے کا کہا گیا تھا لیکن ان کی جانب سے تجاویز پرتاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ دھرنا چاہے 100 دن مزید کیوں نہ چلے لیکن اس کے نتیجے میں جمہوریت کا خاتمہ نہیں ہونا چاہئے، ہماری کوشش ہے کہ فریقین کے درمیان ڈیڈ لاک کا خاتمہ ہو اور وہ دوبارہ مذاکرات کی میز پر آئیں جبکہ ہم نے یہ بھی کوشش کی کہ حکومت اور تحریک انصاف کو ایک ساتھ بٹھائیں تاکہ وہ اپنے درمیان خود مسائل حل کرلیں کیونکہ ہم نے طے کیا ہے کہ مسئلے کا حصہ نہیں بنا جائے گا بلکہ اسے حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں موجودہ صورتحال میں جمہوریت اور سیاست بند گلی میں آچکی ہے لیکن ہمیں بند گلیوں سے راستہ نکالنا ہے اور مسائل کو حل کرنا ہے جس کے لیے مایوس نہیں ہیں اور یقین ہے کہ مذاکرات کے راستے ہی مسائل کو حل کریں گے کیونکہ بات چیت کی اب بھی بہت گنجائش ہے اور اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ ایک مہینے سے دارالحکومت دھرنوں کے محاصرے میں ہے، موجودہ صورتحال میں دھرنے والی جماعتوں اور حکومت سمیت قوم مشکل سے دوچار ہیں اور ہم انہیں اس مشکل سے نکالنا چاہتے ہیں جس کے لیے فریقین سے بامقصد مذاکرات کیے جو سود مند نہیں ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ تمام جماعتوں نے سیاسی جرگے کو ڈیڈلاک کے خاتمے کا ٹاسک دیا تھا تاکہ تمام جماعتیں مذاکرات کی میز پر آئیں جس کے بعد سیاسی جرگے کی جدوجہد سے فریقین کے درمیان مذاکرات کے 15 دور ہوئے جس میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے استعفے کے علاوہ تمام نکتوں پر اتفاق رائے ہوچکا تھا جبکہ استعفوں کے معاملے پر جرگے نے فریقین کو تجویز دی تھی اور اس پر سوچ بچار کے بعد جواب دینے کا کہا گیا تھا لیکن ان کی جانب سے تجاویز پرتاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ دھرنا چاہے 100 دن مزید کیوں نہ چلے لیکن اس کے نتیجے میں جمہوریت کا خاتمہ نہیں ہونا چاہئے، ہماری کوشش ہے کہ فریقین کے درمیان ڈیڈ لاک کا خاتمہ ہو اور وہ دوبارہ مذاکرات کی میز پر آئیں جبکہ ہم نے یہ بھی کوشش کی کہ حکومت اور تحریک انصاف کو ایک ساتھ بٹھائیں تاکہ وہ اپنے درمیان خود مسائل حل کرلیں کیونکہ ہم نے طے کیا ہے کہ مسئلے کا حصہ نہیں بنا جائے گا بلکہ اسے حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں موجودہ صورتحال میں جمہوریت اور سیاست بند گلی میں آچکی ہے لیکن ہمیں بند گلیوں سے راستہ نکالنا ہے اور مسائل کو حل کرنا ہے جس کے لیے مایوس نہیں ہیں اور یقین ہے کہ مذاکرات کے راستے ہی مسائل کو حل کریں گے کیونکہ بات چیت کی اب بھی بہت گنجائش ہے اور اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔