ٹریفک کے مسائل اور حادثات

کراچی میں ٹریفک حادثات کے اعدادوشمار بڑے بھیانک اور انتہائی تشویشناک ہیں ۔۔۔


Shakeel Farooqi September 16, 2014
[email protected]

اس وقت جب یہ کالم سپرد قلم کیا جا رہا ہے 16 سالہ رمیض کراچی کے سرکاری اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں وینٹی لیٹر پر نیوروسرجری وارڈ میں پڑا ہوا ہے۔ اس کم سن لڑکے کو کینجھر جھیل جاتے ہوئے شدید حادثہ پیش آیا تھا۔ وہ اور اس کا کزن موٹرسائیکل پر سوار تھے کہ ان کی ایک موٹرکار سے ٹکر ہوگئی۔

سر پر ہیلمٹ بھی نہیں تھا لہٰذا انھیں سر پر شدید چوٹیں آئیں۔ سمیر کی حالت تو خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے مگر رمیض کی حالت بہت نازک ہے۔ سب لوگ اس کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے کرشمہ قدرت سے اسے ایک نئی زندگی عطا کردے۔ (آمین)اس اسپتال کے نیوروسرجری وارڈ میں گزشتہ ماہ کے دوران دماغ کو شدید چوٹیں آنے کے باعث 80 اموات واقع ہوگئی تھیں۔

عام مشاہدہ یہ ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر اور گلی کوچوں میں کم عمر لڑکے موٹر سائیکلیں دوڑاتے ہوئے پھرتے ہیں ۔ بلاشبہ موٹرسائیکل آج کے مہنگائی کے دور میں سب سے سستی سواری ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا اب مہنگے سے مہنگا اور مشکل سے مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے متوسط اور نچلے طبقات کے لیے اب موٹرسائیکل ہی سب سے زیادہ آسان اور باکفایت سواری رہ گئی ہے۔ میاں بیوی پر مشتمل دو افراد کے کنبے کے لیے تو یہ ایک آئیڈیل سواری ہے۔

مگر یار لوگوں نے تو اسے اب رکشے اور ٹیکسی کا متبادل بنا ڈالا ہے۔ اب ایسے مناظر عام ہو چکے ہیں کہ میاں موٹرسائیکل چلا رہے ہیں اور دو بچے ان کے آگے بیٹھے ہیں جب کہ بیگم صاحبہ ایک چھوٹے بچے کو گود میں سنبھالے ان کے پیچھے کیریئر پر تشریف فرما ہیں اور ان کے پیچھے صاحبزادی براجمان ہیں۔ اس طرح 6 افراد پر مشتمل پورا گھرانہ ایک ہی موٹرسائیکل پر سوار ہے۔ یہ حرکت موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے جسے آپ اجتماعی خودکشی کی کوشش بھی قرار دے سکتے ہیں۔

ادھر وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی موٹر سائیکلوں کو بار برداری کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور اس مقصد کے لیے پچھلے پہیے کے دائیں اور بائیں جانب بڑے بڑے کیریئرز نصب کر رکھے ہیں جن پر بے تحاشا مال لدا ہوتا ہے۔ اس طرح موٹرسائیکل سے منی ٹرک یا وین کا کام لیا جا رہا ہے جس سے ٹریفک کی روانی میں خلل واقع ہوتا ہے اور حادثات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض منچلے نوجوان سڑکوں پر وہیلنگ کے کرتب دکھاتے ہوئے نظر آتے ہیں جو موت کے کنوئیں میں موٹرسائیکل چلانے کے مظاہرے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ٹریفک کے اشاروں کی خلاف ورزی کرنا موٹر سائیکل سواروں کی عادت بن چکا ہے۔ One Way کی خلاف ورزی سرفہرست ہے۔

کراچی میں ٹریفک حادثات کے اعدادوشمار بڑے بھیانک اور انتہائی تشویشناک ہیں جس کا اندازہ دستیاب اعدادوشمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ 6 ماہ کے عرصے میں جی پی ایم سی، آغا خان یونیورسٹی اسپتال، سول اسپتال کراچی، لیاقت نیشنل اسپتال اور عباسی شہید اسپتال میں 12056 حادثات کے کیس رپورٹ کیے جاچکے ہیں۔ جنوری تا جون 2014 کے عرصے میں ان حادثات کا شکار ہونے والے افراد میں سے 528 جاں بحق ہوئے جب کہ 11,551 کو معمولی چوٹیں اور 2960 کو شدید چوٹیں آئیں۔ ٹریفک کے حادثات میں سب سے زیادہ ہلاکتیں موٹرسائیکلوں کے پچھلی جانب سواریاں بٹھانے کے باعث ہوئیں۔

2007 میں اس طرح کے جان لیوا حادثات کی تعداد 325 تھی جب کہ 2013 میں یہ تعداد بڑھتے بڑھتے 551 ہوگئی۔ جان لیوا چوٹوں میں سب سے زیادہ چوٹیں سر کی تھیں جن کا بنیادی سبب ہیلمٹ کے بغیر موٹرسائیکل کی سواری کرنا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والے زیادہ تر افراد لاابالی اور لاپروا نوجوان تھے۔ ان میں سے بیشتر حادثات کا سبب اندھا دھند ڈرائیونگ اور ٹریفک کے قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہی قرار پایا۔

ہیلمٹ کا استعمال قانون کی رو سے لازمی قرار دیا گیا ہے جس کی پابندی نہ کرنا نہ صرف جرم ہے بلکہ خود اپنی جان کو خطرے میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔ لہٰذا موٹرسائیکل سواروں کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے سر پر ہیلمٹ ضرور پہنیں۔ لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ٹریفک کے اس اہم قانون کی پابندی بہت کم لوگ کر رہے ہیں۔معمولی سی بچت کے لالچ میں لوگ عام طور پر غیر معیاری ہیلمٹ خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس کا انجام کتنا خراب اور تباہ کن ہوگا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق شہر قائد میں موٹرسائیکلوں کی فروخت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور گزشتہ پانچ سال کے عرصے میں پانچ لاکھ سے زائد اضافی موٹرسائیکلیں سڑکوں پر آچکی ہیں۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ حکومت سندھ نے 2009 کے بعد سے 1.342 ملین نئی موٹرسائیکلوں کی رجسٹریشن کی ہے۔ ان میں سے آدھی سے زائد موٹرسائیکلوں کا تعلق شہر کراچی سے ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں موٹرسائیکلوں کے سڑکوں پر آجانے سے گویا ایک سیلاب سا امڈ آیا ہے۔

جس نے شہر کی سڑکوں کے بے ہنگم ٹریفک کو بالکل شتر بے مہار بنادیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف ٹریفک کے حادثات اور ان کی شدت میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے بلکہ موٹرسائیکلوں پر سوار ہوکر کیے جانے والے جرائم اور وارداتوں میں بھی انتہائی تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت وقتاً فوقتاً ڈبل سواری پر پابندی لگاتی رہتی ہے لیکن اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور یہ عمل ایک مشق رائیگاں ہی ثابت ہوتا ہے۔

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ انتہائی سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔ دنیا کے دس بڑے شہروں میں شمار ہونے والے وطن عزیز کے اس سب سے بڑے شہر کے تقریباً ڈھائی لاکھ شہری بسوں، کوچوں اور منی بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں بوڑھے اور بچے بھی ہیں اور خواتین بھی۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی جیسے میگاسٹی کے لیے کم سے کم تین ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ سابق سٹی ناظم مصطفی کمال نے سٹی گورنمنٹ کے شعبہ ٹرانسپورٹ کے توسط سے 200 سی این جی بسیں چلانے کا منصوبہ بنایا تھا جوکہ سٹی گورنمنٹ کے خاتمے کے ساتھ ہی فائلوں کی نذر ہوکر رہ گیا۔ تاہم حکومت سندھ نے ابھی حال ہی میں 36 سی این جی بسیں قائد آباد سے ٹاور تک چلاکر پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ایک مستحسن اقدام کیا ہے جسے اشک شوئی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

کراچی شہر میں بسوں کے 9 روٹس ایسے ہیں جن پر ساڑھے تین سو بسیں چلا کر روزانہ چار لاکھ افراد کو سفری سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے اس مقصد کے لیے تین ارب روپے کی رقم پہلے ہی مختص کی جاچکی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔